حضور کریمٌ کی سیاسی زندگی


اگر ہم سکندر اعظم، نپولین اور ہٹلر کو لیں تو ان کی زندگی ایک سپہ سالار اور فاتح جنگ سے بڑھ کر کوئی نہیں۔ گوتم بدھ کی زندگی ریاضت اور عبادت کے گرد گھومتی ہے، جبکہ افلاطون اور ارسطو صرف حکیم اور فلسفی تھے، جبکہ اس کے بر خلاف رسولِ عربیٌ کی زندگی ہمہ جہت حیثیت کی حامل ہے۔

قول و فعل کی یکسانی تعلیم معتدل عملیت اور سب سے بڑھ کر زندگی ہی میں کامیابی کی لحاظ سے ایک بے نظر مثال ہے۔ عالمی شہرت یافتہ انگریز مؤ رخ مائیکل ہارٹ نے دنیا کے سو بہترین انسانوں کا انتخاب کرتے ہوئے حضور کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو پہلے نمبر پر رکھتے ہوئے دلیل دی کہ باقی نناوے لوگ مہذب معاشروں میں پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ۔ پڑھے لکھے بھی تھے جبکہ پیغمبرِ اسلام کو یہ سہولت بھی میسر نہ تھی اس کے باوجود بھی وہ مختصر وقت میں اپنی عظیم بصیرت اور پر خلوص جدوجہد کے بل بوتے پر خیرہ کن کامیابی سے ہمکنار ہوئے

جب حضورِ کریمٌ کی سیاسی حیثیت اور کامیابی کو ہم دیکھتے ہیں۔ تو صرف دس سال کے قلیل عرصے میں جزیرہ نما عرب کےنراج (وہ ملک جھاں کوئی حکومت نہ ہو ) میں جہاں زیادہ خود سر خانہ بدوش قبائل میں خانہ جنگیاں ہی رہاکرتی تھیں، وہاں ایک بڑی مستحکم اور مضبوط مملکت قائم کردی۔

آپٌ کی لڑائیوں میں بمشکل فریقین کے چند سو افراد مارے گئے لیکن ایک مختصر عرصے (دس سال ) میں تقریبًا بارہ لاکھ مربع میل نہ صرف ماتحت ہوا بلکہ فکری اور ذہنی طور پر بھی آپٌ کی طرف مڑا۔ یہ حضور کریمٌ کی تعلیم اور تربیت ہی تھی کہ عرب جیسے گمنام اور جاہل قوم نے بین الممالکی تعلقات میں پہلا قدم رکھا تو کیمرج یونیورسٹی کے انگریز مورخ نے لکھا کہ ان سے زیادہ ”مہذب وحشی“ کبھی فتوحات کے لئے نہیں نکلے تھے۔

عمرانی حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ دولت کو صرف امیروں کی گردش سے نکالنے کے لئے جائداد پر محصول (زکوۂ) تقسیم ترکہ، ممانعت سود اور تجدید و صیئت جیسے آفاقی اصول وضع ہوئے۔
یہی وجہ تھی جس نے حضور کریمٌ کے مشن اور شخصیت کو مبالغہ آمیز حد تک سیاسی سپورٹ فراہم کیا جبکہ قدم قدم پر آپٌ کی حیرت انگیز بصیرت سونے پر سہاگے کا کام کرتی رہی ہجری6 میں حضور کریمٌ نے متعدد سلطنتوں کو خطوط لکھے جن میں ایران کے تاجدار خسرو پرویز اور سلطنت روما کے قیصر ہرقل بھی شامل ہیں۔

گویا بین الاقوامی سیاست اور سفارت پر بھی توجہ دی۔ جس کے بعد میں دور رس نتائج بھی سامنے آئے۔
مکہّ سے ہجرت اور مدینہ میں آمد کے بعد بظاہر تو حالات پرسکون تھے لیکن ابھی بہت سے چیلنجز اور مسائل بھی درپیش تھے، جن میں سب سے بڑا مسئلہ مدینے کی سیاست، ذراعت اور صنعت اور تجارت پر یہودیوں کا غلبہ اور ان کی شاطرانہ ذہنیت تھی، سو بہت سے مؤرخین کا خیال ہے کہ اُحد کی تباہ کن جنگ کے پیچھے ( جب اسلامی ریاست ختم ہوتے ہوتے بچی ) بھی ایک کروڑ پتی اور با رسوخ لیکن عاشق مزاج اور بدنام یہودی کعب بن اشرف کا ہاتھ تھا۔

جس نے قریش مکہ کو مسلمانوں پر حملے کے لئے اُکسایا اس لئے کچھ عرصے بعد جب مدینے پر مسلمانوں کی گرفت مضبوط ہوئی توحضور کریمٌ نے مدینے کے شمال مشرق میں دومتہ الجندل کو اپنے قبضے میں لیا یہ جگہ تجارتی قافلوں کا جنکشن تھا جھاں سے عراق شام اور دوسرے ممالک کی طرف آنے جانے والے تجارتی قافلے نکلتے دومتہ الجندل پر قبضے کے بعد مکہ کی سپلائی لائن مکمل طور پر کٹ گئی جس کی وجہ سے قریش مکہ کمزور پڑ گئے اب عام تاثر یہ تھا کہ مکے کی خستہ حالی کو مدنظر رکھتے ہوئے آنحضرتٌ مکے پر حملے کا حکم دیں گے لیکن حیرت انگیز طور پر حضور کریمٌ نے حملے سے گریز کیا اور تین ہزار لشکر میں سے آدھا لشکر لے کر مکے کی طرف روانہ ہوئے اور نواح مکہ ( حدیبیہ کے مقام پر ) قریش کے ساتھ مذاکرات شروع کیے جو اعصاب شکن طوالت کے بعد بالاخر صلح حدیبیہ کی شکل میں سامنے آئے۔ ( یہ معاھدہ یقینا ”سیاسی تاریخ اور لیڈر شپ وژن کا ایک انمول شہکار ہے)

مکہ مدینے کے جنوب میں ہے جبکہ شمال میں یہودی ریاست خیبر واقع تھی اس لئے مدینے پہنچ کر حملے کی تیاری شروع کی کیونکہ مدینہ نہ صرف صلح حدیبیہ کی رو سے محفوظ ہو گیا تھا بلکہ خیبر اور مکہ کے درمیان دفاعی معاہدہ بھی ٹوٹ گیا تھا جس کی وجہ سے یہودی تنھا ہوگئے تھے اس لئے حضورکریمٌ نے فوری طور پر لشکر کو خیبر کی جانب حرکت دے دی اور یوں 7 ہجری کو اس شاطر اور چالاک قوم کا آخری مورچہ بھی ڈھ گیا۔

اسکے فورًا بعد یعنی 8ہجری کو فتح مکہ کے ساتھ ہی پورے جزیرہ نما عرب میں حضورکریمٌ کے سامنے کوئی سیاسی یا حربی طاقت دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی تھی۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).