خوف کے بادلوں کے سائے


کسی بھی اخبار، اداریے یا سوشل میڈیا پہ لکھنے کا شوق اتنا پرانا ہے کہ آج تک میں کچھ لکھ نہیں پایا۔ سیاسی بلوغت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ 12 اکتوبر 1999 میں حضرت مشرف کے آمرانہ اقدام پہ انھی کے زیر سایہ کام کرنے والے اپنے والد محترم سے پوچھ بیٹھا کہ ابا جی یہ جمہوریت اور آمریت میں کیا فرق ہوتا ہے؟ جس پہ والد صاحب نے اپنے خاص آمرانہ انداز میں جمہوریت کے باپ، بھائی ایک کرتے ہوئے آمریت کی خوب مدح سرائی کی اور آج تک وہ مدح سرائی ہضم نہ ہو سکی اور اس راست گو، صادق و امین اور پیغمبرانہ آمریت کے خلاف تحقیق کا آغاز کر دیا جو کہ آج تک جاری ہے۔

وقت گزرتا گیا اور دل میں یہ خواہش زور پکڑتی گئی کہ کاش کبھی ہم بھی وہ سیاہ دور دیکھ سکیں جس میں یہ سب جمہوریت کے داعی، لفاظی کے ماہر صحافی اور قانون کے مالک وکلاء خود کو غیر محفوظ اور سہما ہوا پاتے ہیں۔

شاید یہ خواہش تھی ہی اتنی شدید کہ رب العالمین نے اس کو قبول فرماتے ہوئے مجھے اس دور میں لا کھڑا کیا یہاں بظاہر تو آمریت کو آمریت کے اپنے آقا گالیاں دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں لیکن غیر اعلانیہ طور پہ حالات ملک پاکستان کی محبوبہ آمریت کی نغمہ نگاری کی طرفداری کر رہے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے گھمسان کی جنگ میں سپاہیوں کو پتہ نہیں چلتا کہ وار کس طرف سے اور کون کر رہا ہے۔

مطیع اللہ جان صاحب کو اپنی راست گوئی اور بے باکی پہ بڑا مان ہوگا لیکن شاید وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے اس محکمہ موسمیات کے خلاف تو آپ کی عرضی اللہ پاک کے دربار میں بھی تھوڑی تاخیر سے سنی جاتی ہے

باقی رہی بات ہماری خواہش کی تو ضیاء کی ظلمت کے دور کے بچے کھچے چند لوگ یہی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ضیاء مرحوم نیک آدمی تھے کم از کم بتا تو دیتے تھے کہ آپ کا لخت جگر کس جیل، کوٹھڑی یا پھر قلعہ میں قید کیا ہوا ہے اور اسے کس جرم کی پاداش میں پکڑا گیا ہے۔ اب تو حضرت آسمان پہ چھٹے ہوئے ان خوف کے بادلوں کا کوئی اعتبار نہیں کہ کس طرف سے اپنے سیاہ پانی سے اس دھرتی کو سیراب کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).