میری آواز ہی پہچان ہے۔۔۔ گر یاد رہے!


راول رائے سنگھ اور اس کا پورا خاندان دھیرے دھیرے سرنگ کے رستے جیسلمیر نکل گئے۔ مگر نواب صاحب کا مقرر کردہ وظیفہ ( پچاس روپیہ ماہوار) 1833ء ؁ تک اس خاندان کو جاتا رہا اور اس خاندان کے متعدد افراد ریاستِ بہاولپور کے نوابوں کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے اور خلعت اور انعام پاتے رہے۔

زندگی میں کچھ رشتے بھی ایک انعام کی طرح بن مانگے نصیب ہوا کرتے ہیں۔ ”آپ مسکراتی اچھی لگتی ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ کبھی اداس نہ ہوا کریں“۔ جس لمحے میں قلعہ دراوڑ کی دور دور تک پھیلی اداسی محسوس کر رہی تھی، مجھے سہیل کے یہ الفاظ یاد آ گئے۔ ”اداسی بھی کیا چاہنے اور نہ چاہنے کا عمل ہے۔ اس کی جاگ ایک بار دل کو لگ جائے تو کب مٹتی ہے؟ “۔ مجھے اپنی آواز کی بازگشت اکژ سنائی دیتی ہے۔ میں شاید پیدائشی طور پر اداسی کو سمجھتی ہوں۔ اداسی مجھے انسانی احساسات میں، سب سے معتبر احساس لگا کرتا ہے۔ انسان کا سچ جب اس فریبی دنیا کے آگے چپ اختیار کر لیتا ہے، اِ سی کو اداسی کہتے ہیں۔ گو کہ یہ اداسی ہمیشہ میرے ساتھ ہی رہی پر ہمارے گھر میں ہمیشہ ہنسی اور قہقہے ہی گونجتے رہے۔

” دن ڈھلے جہاں، رات پاس ہو۔ زندگی کی لوَ اونچی کر چلو۔
میری آواز ہی پہچان ہے۔ گر یاد رہے۔ “

قلعہ دراوڑ اور اس کے گردو نواح کی ویرانی اور اداسی وہاں جانے والا کوئی بھی شخص بآسانی محسوس کر سکتا ہے۔ یہ اداسی، دن بھر چلچلاتی سفید دھوپ کی طرح چمکتی ہے اور شام کے پھیلتے سایوں کے ساتھ اور گہری ہوتی جاتی ہے۔ قلعہ کے باہر کی بستی بھی اسی قدر خاموش اور اداس دکھتی ہے۔ یہاں اپنے ہی ساتھیوں کی جانی پہچانی آوازیں اوپری لگنے لگتی ہیں۔ ایک مقامی عورت جو ہمارے ساتھ ساتھ قلعے کے اندر تک چلی آئی تھی، ٹالی کے نیچے بیٹھ کر سرایئکی گیت گانے لگی۔ ۔ قلعہ دراوڑ کی داستان سینہ بہ سینہ سفر کرتے انہیں گیتوں اور کہانیوں کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہے۔ مجھے یقین ہے روہی کی یہی خالص، منفرد اور خودرو آوازیں ہر آئے روز ہی اس عظیم الشان قلعے کی گہری خاموشیوں کو زیر کرتی ہوں گی۔

اس قلعے سے وابستہ کوئی محبت کی داستان نہیں جو اکثر راجا مہا راجاؤں کے قصوں کا حصہ بن جایا کرتی ہیں۔ شاید اسی لئے یہاں ویرانی کے ڈیرے ہیں۔ ایک دوسرے سے متصل لا تعداد کمرے کبھی یقیناًعورتوں اور بچوں کی رونق سے آباد رہے ہوں گے۔ قلعے میں اوپر ایک برج کو جاتے رستے میں مڑ کر جو دیکھیے تو قلعے کی فصیلوں کے اندر کا وسیع پھیلاؤ کسی شہر سے کم نہیں دکھتا۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر سطحِ زمین سے ذرا بلند تھےئٹر ہیں جو چند کمروں پر مشتمل ہیں۔ شاید خانگی نظام کے تحت راجاؤں اور ان کی اولادوں کی علیحدہ علیحدہ رہائشی اکاےئاں ہوں گی۔ ایک لمحے کو جو تصور کی نگاہ سے دیکھئے تو خیال آتا ہے یہاں کبھی رنگین آنچل بھی لہراتے ہوں گے، شام کے وقت تندور کا دھواں اٹھتا ہو گا، کہیں پنگوڑے میں پڑے بچے کو ماں اپنی انوکھی زبان میں بہلاتی ہوگی اور اس صحن میں شادیانے بھی بجا کرتے ہوں گے۔ پر اب ویرانی ہی ویرانی ہے۔

کچھ تعلق بھی دراوڑ جیسے ویران ہوا کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں نے کہا تھا، ”آپ کا اور میرا تعلق بھی قلعہ دراوڑ جیسا ہے۔ خاموش اور ویران“ تو جواب ملا تھا۔ ”ارے یہ تو اچھی بات ہے، یہ تو پھر پایئدار ثابت ہو گا“۔ مگر۔ ایسا کب ہوتا ہے۔ تعمیرات ہوں یا تعلقات، سب کہیں نہ کہیں چھوڑ کر انسان آگے بڑھ جاتا ہے۔ تغیر کے پردے اور وقت کی دھول کے نیچے ہر نقش کھو جاتا ہے۔ صرف آواززندہ رہ جاتی ہے۔ ”گر یاد رہے“

Published on: Oct 21, 2018


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2