منشیات کی اسمگلنگ سے حاصل شدہ منافع دہشتگردوں کی جیب میں جاتا ہے.



ایران اور پاکستان میں تعاون کا وسیع پوٹینشل موجود ہے،مہدی ہنر دوست
دو طرفہ تجارتی حجم پانچ لاکھ ڈالر سے1۔ 3 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے،ایرانی سفیر
سامان اور منشیات کی اسمگلنگ جیسے مشترکہ مسائل حل ہونے چاہیں۔
منشیات کی اسمگلنگ سے حاصل شدہ منافع دہشتگردوں کی جیب میں جاتا ہے۔

پاکستان میں ایران کے سفیر مہدی ہنر دوست نے دوطرفہ تعلقات کی تازہ ترین صورتحال ،موجود مواقع، چیلنجز اور عالم اسلام کے مسائل کے حل کے لئے علاقائی تعاون کی اہمیت سے متعلق بتاتے ہوئے ایران اور پاکستان کے درمیان بیشمار مشترکہ اقدار منجملہ زبان، ثقافتی، نظریاتی اور تاریخی رشتوں کی پختگی پر زور دیا ہے۔انٹرنیشنل فورم فار پاکستانی کالم نگار و اینکرز(افپکا)کے زیر اہتمام تعارفی سیشن میں ایرانی سفیر نے کہا کہ اسلامی جمہوری ایران کی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول خطے پر توجہ دینا اور خطے کے مسائل کے حل میں تعاون ہے۔اس مقصد کے لئے ایران اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ علاقائی اور عالمی تعلقات میں اضافہ اور استحکام موثر طور پر معاون ہونگے۔ یہی وجہ ہے کہ حریف اور تیسری طاقتیں ان تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں مہدی ہنر دوست کا کہنا تھا کہ ایران اور پاکستان میں تعاون کا وسیع پوٹینشل موجود ہے جبکہ اس تعاون کی راہ میں کچھ چیلنجزبھی موجود ہیں۔بڑی طاقتوں کی طرف سے خطے کے ممالک کے تعلقات میں مداخلت، امریکا کی طرف سے غیر قانونی اور یکطرفہ پابندیوں کا اعادہ ایسے عوامل ہیں جن کا منحوس سایہ ہمارے خطے میں تجارتی تعلقات پر پڑا ہوا ہے ان تمام تر مشکلات کے باوجود، الحمدﷲ، ایران اور پاکستان کے تعلقات فروغ پا رہے ہیں اور تین سال سے کم عرصہ میں دو طرفہ تجارتی حجم پانچ لاکھ ڈالر سے1۔ 3 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔

دوطرفہ دوروں سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی سیاسی اور دفاعی راہنماؤں کے متعدد دورے اور دوطرفہ ملاقاتوں کے پیش نظر، جن میں ایرانی چیف آف جوائنٹ سٹاف کمیٹی کے سربراہ میجر جنرل باقری اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل باجوہ قابل ذکرہیں یہ وثوق موجود ہے کہ دونوں ممالک بہترین سیاسی اور دفاعی تعلقات رکھتے ہیں۔ ایران اور پاکستان کی 70 سالہ ہمسائیگی کی تاریخ ہے اب تک دونوں ممالک میں کسی قسم کا کوئی اختلاف پیش نہیں آیا۔ ایران اور پاکستان ایک ہی ہیں، زبان، ثقافت، مذہب، آداب و روایات، نظریات اور حتیٰ کہ دونوں ممالک کے لوگوں کی تفریحات بھی ایک جیسی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسی لحاظ سے دوطرفہ تعاون بڑھانے کا وسیع پوٹینشل موجود ہے۔ باہمی تعاون یقینی طور پر دونوں طرف کے لوگوں کے مفاد میں ہے۔ذرائع ابلاغ کے کردار سے متعلق سوال پر مہدی ہنر دوست کا کہنا تھا کہ ایران پاکستان تعلقات کے فروغ اور موثر بنانے میں صحافتی شخصیات کے کردار سے انکار ممکن نہیں ہے ۔ ایران کے دروازے آپ تمام پاکستانی صحافیوں کے لیے کھلے ہیں، آپ نزدیک سے واقعات کی کوریج کر سکتے ہیں ۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے صحافتی حلقے ایران سے متعلق حالات و واقعات کو ہمیشہ مخاصمت رکھنے والے میڈیا سے لیتے ہیں جن کا مقصد ہی ایران پاکستان اور دوسرے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات میں بگاڑپیدا کرنا ہے۔ عداوت رکھنے والا میڈیا رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے واسطے، نقلی، تحریف شدہ اور توڑمروڑ کر خبریں شائع کرتا ہے ۔ لہذا پاکستانی میڈیا کو چاہیے کہ وہ بلاواسطہ ذریعوں سے، فرسٹ ہینڈ اور ثقہ خبر حاصل کریں۔

مغربی ثقافتی یلغار کے اثرات سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا میں ایسی فلمیں اور پروگرام بھی نشر اور شائع ہوتے ہیں جو محتوی کے اعتبار سے اسلام کی زرخیز ثقافت اور اقدار کے خلاف اور حتیٰ مشرقی ثقافت و اقدار کے ساتھ متناقض ہوتے ہیں۔ اس طرح کے پروگراموں کا نتیجہ بعض ایسے غیر اخلاقی مسائل کو رواج دیتا ہے جو کہ پورے خاندان جو کسی صاف ستھرے معاشرے کی بنیادی اکائی ہے کی بنیادیں ہلا دیتے ہیں۔ ہمارے مشترکہ دشمن اس طریقے سے ہماری ثقافت اور اقدار پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ثقافت ہی ہمارے تعلقات کی جڑیں مضبوط بناتی ہے۔ جب خطے میں ہمارے پاس قدیم، سودمند اور زرخیز ثقافت موجود ہے تو ہمارے نوجوان محبت، انسانی برتاؤ اور طرز زندگی کے بارے میں مغربی زاویوں کو استعمال کیوں کریں۔ جب ہمارے تعلقات کے دشمن اس جدوجہد میں ہیں اور ایران خوفی کا نظریہ اور ایرانی مداخلت کا واہمہ پورے خطے میں پیش کرتے ہیں تو ان سے یہ پوچھنا چاہیے کہ ایران کو ایسی کس چیز کی ضرورت ہے جسے وہ اپنی سرحدوں سے باہر ڈھونڈھ رہا ہو۔ ایرانی معیشت اور وسائل سے متعلق مہدی ہنر دوست کا کہنا تھا کہ ایران قدرتی وسائل، انرجی، ٹیکنالوجی، نوجوان انسانی طاقت، وسیع و عریض سرزمین، بندرگاہوں، دریائی ہوائی اور زمینی راستوں اور زرعی اجناس کے لحاظ سے بھرپور طور پر بے نیاز ملک ہے ۔ ایران ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی جدید طبی، جوہری، نینو، بائیو ٹیکنالوجی وغیرہ میں بھی دنیا کے دس ممتاز ممالک میں شمار ہوتا ہے ۔ ایران چاہتا ہے کہ یہ تمام ٹیکنالوجی پاکستان کو بھی منتقل کرے۔ اب یہ صحافتی شخصیات کی ذمہ داری ہے کہ رائے عامہ میں یہ سوال اٹھائیں کہ مذکورہ تمام تر پوٹینشل کے باوجود پاکستان اور ایران کے تعلقات آئیڈیل سطح تک کیونکر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے دو ٹوک کہا کہ دونوں ممالک کے لوگ حقدار ہیں کہ بہترین اور مضبوط ترین، خصوصا تجارتی تعلقات کے فوائد حاصل کریں ۔ گیس پائپ لائن منصوبہ بارے مہدی ہنر دوست کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کے آئندہ اقدامات کی روشنی میں ہم بدستور ایران کی پاکستان کو گیس برآمد کی امید رکھتے ہیں ۔ اگر ایرانی گیس پاکستان میں لائی جائے تو اس ملک میں کئی لاکھ جاب کے مواقع پیدا ہونگے اور پاکستان کا معاشی چہرہ بھی تبدیل ہو جائیگا۔

خطے کی ترجیح کے پیش نظر ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا چائیے کہ اس خطے کی اس سانحاتی حالت کا ذمہ دار کون ہے؟ بڑی طاقتوں نے کہا ہے کہ خطے میں امن کے قیام کے لئے آگے آئیں لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ کیونکر اسلامی ممالک جیسے افغانستان، شام اور یمن دہشتگردی کے خلاف جنگ کی آگ میں جل رہے ہیں۔ کیونکر بعض لوگ اسلام کے نام پر اور اﷲ اکبر کا نعرہ لگا کر بیگناہ انسانوں کا خون بہا کر اسلام دشمنوں کی خوشیوں کا سامان کر رہے ہیں۔ دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے عفریت سے متعلق ایرینی سفیر کا کہنا تھا کہ بھوک اور جہالت دہشتگردی کے ماں باپ ہیں۔ اور جب تک یہ دو عوامل موجود ہیں دہشتگرد بھی موجود رہیں گے اور کام کرتے
رہیں گے۔ ایران بھی دہشتگردی کا شکار ہے اور پچھلے چند دنوں میں دہشتگردوں نے پاک ایران سرحد پر ایرانی فورس پر حملہ کیا ہے جو کہ افسوس کا مقام ہے۔ دہشتگردی ایسے ہیولے کی مانند ہے کہ جس کے جتنے بھی ہاتھ کاٹ دیں کسی دوسری جگہ سے ہاتھ نکال لیتا ہے۔ دہشتگردی کی لہرسے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا دل سینہ چاک کر کے نکال دیا جائے جس سے اس کے تمام بدن کو خون مہیا ہوتا ہے۔ دہشتگردوں کی مالی اور فکری پرورش ہی وہ دل ہے۔ لیکن خطے میں بعض ایسے ممالک بھی ہیں جو سرمایہ اور اسلحہ دہشتگردوں کے ہاتھوں میں دیتے ہیں اور انتہا پسندی اور تکفیری سوچ کا پرچار کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے خطے میں ہوشیاررہنا چاہیے اور یہ ہوشیاری پورے معاشرے میں رائج کرنی چاہیے۔

موجودہ صورتحال سے متعلق کہا کہ اس وقت پورے خطے میں، ایران، سعودی عرب، ترکی اور پاکستان کے علاوہ کوئی اسلامی ملک ایسا باقی نہیں بچا ہے کہ جو شورش، جنگ اور فتنوں کا شکار نہ ہو۔ خطے کے بہت سے ممالک المیے اور بحران کا شکار ہیں۔ اور یہ پہلے سے لکھا گیا منظر نامہ ہے۔ مہدی ہنر دوست کا کہنا تھا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ شورش زدہ خطے کے بارے ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ خطے کی اقوام اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہیں کہ اب بڑی طاقتوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ اب اپنے پوٹینشل اور علاقائی تعاون اور یکساں سوچ کے فروغ کے ذریعے، خطے کے مسائل پر قابو پایا جائے ۔ اب نجات کا واحد راستہ اتحاد اور یکجہتی ہی باقی بچا ہے ۔قرآن مجید کا ہمارے لیے یہی پیغام ہے۔یکجہتی کو مضبوط بنانے والے راستوں میں سے ایک موجودہ تعلقات کی تقویت اور دوسرا مسائل و مشکلات کے حل کے لئے تعاون اور ہمفکری ہے۔ سامان اور منشیات کی اسمگلنگ جیسے مشترکہ مسائل حل ہونے چاہیں۔ منشیات کی اسمگلنگ سے حاصل شدہ منافع خطے میں موجود دہشتگردوں کی جیب میں جاتا ہے۔ اسی طرح عوامی اور تجارتی تعلقات میں اضافہ اور پرائیویٹ سیکٹر کی تجارت بھی دونوں ممالک کے عوام اور پورے خطے کے مفاد میں ہے اور تعلقات کی مضبوطی میں بھی معاون ہو سکتا ہے۔ اس وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران، پاکستان میں مختلف ترقیاتی پروگراموں میں اسلامی ممالک کی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرتا ہے اور اس اقدام کو عالم اسلام کے اتحاد اور پورے خطے کی ترقی کے لئے فائدہ مند سمجھتا ہے۔ ایران کی سرزمین کسی بھی اسلامی ملک کے خلاف استعمال ہوئی نہ ہو گی۔اس تعارفی نشست میں محمد آصف نور،فرحت نور،عقیل احمد ترین،محمد شفیق مغل،حماد،وقار شاہ،گل آفرین،پریشا،صدرالدین صدر،عمر،خاور بھٹی ،سعدیہ کمال بھی موجود تھے۔ ایران کے سفیر مہدی ہنر دوست نے اپنی گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ ایرانی رہبر اعلیٰ اور حکومت کو پاکستان سے خاص محبت ہے۔ اسلام آباد میں سفارتخانہ اسلامی جمہوریہ ایران بھی دو طرفہ تعلقات کے فروغ میں ناقابل خستگی کوششیں بروئے کار لاتے ہوئے عوامی اور حکومتی تعلقات کو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط بنانے میں کوشاں ہے۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).