خواب جو حقیقت ہوں


خواب انسانی زندگی سے وابستہ وہ ناقابلِ تردید حقیقت ہیں جو تعمیری سوچ کے عکاس ہوں تو ان کی تعبیر پانے کو انسان مسلسل جہد کرتا ہے، یہ تعمیری خواب ذاتی حصار کی بجائے اگر اجتماعی طور پر معاشرتی ترقی و انقلاب کے لئے شعور دیتے ہوں تو پھر ایسے خواب دیکھنا بھی عبادت اور ان کا ابلاغ کر کے ان کی تعبیر ممکن بنانا بھی جہاد ہے۔ ابھی سال چند ماہ قبل ہمارے ملک الیکشن کا انعقاد ہوا۔ ہر پارٹی نے اپنا اپنا منشور ایک خواب ہی کی صورت عوام کے سامنے پیش کیا۔ الیکشن کے نتائج نے بتایا کہ اقتدار پانے والی پارٹی وہ قرار پائی جس نے نئے پاکستان کا خواب شرمندہِ تعبیر کرنے کایقیں دلایا تھا۔ پسماندہ اقوام کی ترقی و خوشحالی کے خواب بر لانے اگرچہ اتنے آسان نہیں لیکن ان سے متعلق اچھے خواب دیکھنے پر کوئی پہرا بھی تو نہیں۔

ہم عموماًسیاسی لیڈروں کے دکھائے ہوئے خوابوں کو بے یقینی کی کیفیت میں سن کر دل ہی دل میں اپنے بے بس اورغریب ہم وطنوں کی تقدیر کا ماتم کر کے خموشی سے منتظرِ فردا رہنے کو غنیمت جانتے ہیں لیکن ہمارا یہ رویہ بھی تو ہمارے بے عمل اوربے شعور ہونے کی علامت ہے۔ ہم کیوں نہیں اس حقیقت کو جان پاتے کہ انفرادی سوچیں، انفرادی خواب، انفرادی جدوجہد جب اجتماعی سوچ، خواب اور جدوجہد کا روپ پا لیں تو انقلاب کی راہیں نسبتا آسان ہو جاتی ہیں۔ مجھے یاد آ رہی ہے محترمہ گوہر تاج صاحبہ کی کتاب ”کوئی خواب ڈھونڈیں“ 228صفحات پر مشتمل کتاب جس میں24 تحریریں ہیں مختلف شخصیات کے بارے میں اور اس کتاب کا دیباچہ نامور ادیب ڈاکٹرحسن منظر کی تحریر ہے۔ 2014 میں لکھے گئے اس دیباچہ میں خواب اور وہ بھی ہمارے اس معاشرے کے غریب و مفلس لوگوں کے خوابوں کی بابت ڈاکٹر حسن منظر کی تدبرانہ تحریر نے بظاہر افسانوی انداز میں معاشرے کی منظر کشی کی ہے لیکن یہ پیش لفظ ایک ایسی زندہ جاوید تحریر ہے جو اپنے باطن میں روح کی بیداری کی تاثیر رکھتی ہے اور ہرپسماندہ فکر معاشرے کے لئے انقلابِ فکر و نظر کا استغاثہ لئے ہوئے ہے۔ آپ بھی پڑھیے اور لطف پائیے۔

خواب دیکھنے کی دعوت
دیباچہ از ڈاکٹر حسن منظر
لگتا ہے گوہر تاج کو خواب بہت پیارے ہیں جو کہ اوروں کو بھی خواب دیکھنے پر اکسا رہی ہے۔ حوالہ ان کی جولائی 2014 میں چھپنے والی کتاب کوئی خواب ڈھونڈیں۔

یعنی میں تو خواب ڈھونڈ ڈھونڈ کے دیکھتی رہی ہوں تم بھی ڈھونڈو کہ خوابوں کا افق محدود نہ رہے، گہری نیند سوئیں، خواب دیکھیں اور ہشاش بشاش اٹھیں۔ اس بچے کی طرح جو خواب میں خود کو اپنے کتے کے بچے کے ساتھ کھیلتا ہوا دیکھتا ہے یا پری اسے گدگدی کر رہی ہے اور وہ ہنستا کھلکھلاتا ہوا اٹھتا ہے۔ ہیں؟ اوں کتاب پڑھنے پر پتہ چلتا ہے وہ ایسے خواب دیکھتی رہی ہے جن میں بچہ ایسا ہے جس کی ماں مر چکی ہے، اس کو کوئی پوچھتا نہیں۔ دنیا میں خود کو اکیلا پا رہا ہوں اور بسورتا روتا ہوا اٹھتا ہے۔ اور یہی وہ خود چاہتی ہیں کہ بجائے خود کو ایسی پارٹیوں میں دیکھے کہ جن میں ہر مہمان کے چہرے پر لکھا ہوتا ہے۔ زندگی اطمینان، مکمل اطمینان کے سوا کچھ نہیں۔ میرے ماں باپ، بہن بھائی، دور اور نزدیک کے رشتہ داروں اور ان کے بچوں، پڑوسیوں، ملنے والوں، دوستوں میں سے کسی کی زندگی میں خوشیوں کا کال نہیں۔ جو ہم ان کے بارے میں سوچیں اور اپنا خون جلائیں۔

ان کے خواب دن ہو یا رات ہر وقت آ سکتے ہیں۔ گھر کا کام کرتے ہوئے، ٹیلی ویژن دیکھتے ہوئے، سفر میں، آفیشل کام کے دوران اور وہ دوسروں سے چھپانے والے خواب نہیں ہوتے ہیں۔ وہ چاہتی ہیں ویسے ہی خواب چلتے پھرتے ہم آپ دیکھیں اور زندگی کی کڑوی حقیقتوں سے دور لے جانے والی لذات کو دور دھکیل کر اس تلخ معمے کو پیش کریں جس کا ایک ہی گھونٹ سوتے میں اور اس سے زیادہ جاگتے میں ہمارے شعور کو جگا دے گا۔ اس میں ہمیں نظر آئیں گی روز مرہ کی قلیل ترین ضرورت کی چیزوں سے محروم عورتیں، ویسے ہی مرد، بچے بوڑھے، جن کے برابر سے ہم میں سے وہ جن کے ساتھ قدرت نے فیاضی برتی ہے بغیر توجہ دیے گزر جاتے ہیں۔

وہ چاہتی ہیں ہم سب جو تین وقت اپنی پسند کا کھانا کھاتے ہیں، گھر سے نکلتے ہیں تو دوسروں کی نظروں میں کھب جانے والے کپڑے پہن کر اور اپنے بچوں کو ویسے ہی ڈریس میں باہر لے جانے اور مہمانوں کے سامنے آنے دیتے ہیں۔ چین کی نیند سوتے ہیں، اس حقیقت سے آگاہ ہوں کہ ہمارے اردگرد کی دنیا میں اکثریت ان کی ہے جو زیادہ تر وہ کھاتے ہیں جو دوسروں کو ناپسند ہے، پہنتے اور بچوں کو پہناتے وہ ہیں جو انہیں مانگے تانگے سے جڑے اور ان کے یہاں جب کوئی مرے تو انہیں غم کے ساتھ یہ فکر بھی ستاتی ہے دیکھیں کفن دفن کے لئے کوئی پیسہ دیتا ہے یا اپنوں کے چندے سے مرنے والے کی زندگی کی یہ آخری منزل طے ہو گی۔

گوہر تاج کو وہ لڑکے بہت کھٹکتے ہیں جو اسکول جانے کے دن موٹر گیراج اور چوڑیاں بنانے کے کارخانے میں آگ کے سامنے گزار دیتے ہیں اور لڑکیاں پُھٹی چنڈنے (کپاس کے کھیت میں روئی چننے)یا دوسروں کے گھروں میں اوپر کے کام میں، اور جب سیکھ لیں تو پورے کنبے کے لئے چولہا سنبھالنے کے لیے۔ جو بچے بے رنگ، بے میل کپڑے پہنے پیدل اسکول جاتے نظر آتے ہیں۔ جن کے ہاتھوں میں تعلیم میں دلچسپی سے دور بھگانے والی معمولی کاغذ پر چھپی کتابیں ہوتی ہیں اور معمولی کاغذ کی نوٹس بکس۔ دونوں کے صفحے پھٹے اور مڑے تڑے، تصویریں ایسی کہ بچہ پکی عمر کا آدمی نظر آتا ہے۔ اور کتا بکری کا ہم شکل۔

ایسے بچے اس دنیا کے بچوں سے کوسوں دور ہوتے ہیں جو درست کپڑوں یا یونیفارم میں کسی سواری سے اسکول لائے جاتے ہیں۔ پیٹھ پر کتابوں، کاپیوں کا خوبصورت بیگ سنبھالے جو تعلیم کے زیادہ مستحق لیکن اس تک کم رسائی والے بچوں کی کتابوں کاپیوں کا منہ چڑھاتی نظر آتی ہیں۔ گوہر تاج شاید ان میلے ہاتھوں، میلے کپڑوں والے بچوں کے ایک دن ویسے ہی اسکول میں جانے کے خواب دیکھتی ہیں جن میں کھیل کا میدان، جمناسٹکس کا ہال، لائبریری، ہوادار روشن کلاس رومز اور صحت کی دیکھ بھال کا شعبہ سب کچھ ہوتے ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ ان کی طرح دوسرے بھی جو سوسائٹی میں حیثیت رکھتے ہیں، سوتے ہیں جاگتے ہیں، صرف اپنوں اور اپنوں ہی کے خواب نہ دیکھیں۔

ایسے خواب ان کے سوکھے دماغ کو سینچیں، جن میں موچی، کھیت میں کام کرنے والوں اور محنت کش کے بچے ویسی ہی دلکش کتابوں کاپیوں سے لیس ویسے ہی اسکولوں میں جائیں جن میں کھاتے پیتے گھرانوں کے۔ ان کا مقدر ورکشاپ کے مالک اور گھر کی مالکن سے گالیاں اور مار کھانا نہ ہو۔ کب ایسے خواب باشعور افراد نے نہیں دیکھے ہیں اور ان کے ہمت بندھانے پر زندگی کی سہولتوں سے محروم ان پڑھ گھرانوں سے آنے والے بچے آگے چل کر قابلِ رشک ہستیاں بنے! مثالیں تو تاریخ میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان میں سے چند کی زندگی کو گوہر تاج نے چُھوا ہے۔ کوئی معاشرے کی جہالت سے لڑ رہا تھا کوئی اپنی جسمانی یا دماغی داغ دار کمزوری سے اور بالآخر زندگی کے ایسے چیلنج سے جیت گیا۔

گوھر تاج خوش قسمت ہیں کہ انہیں اپنی اس جدوجہد میں(جو صرف خواب دیکھنے پر مشتمل نہیں ہے، اس کی تعبیر پر بھی) انہیں ڈاکٹر شیر شاہ سید اور ڈاکٹر خالد سہیل وغیرہ جیسے، اپنی دھن کے پکے ساتھی ملے ہیں، جنہوں نے زندگی میں کوئی مقصد ڈھونڈ لیا ہے اور اسے نباھنے کی لگن رکھتے ہیں۔ میں بامقصد زندگی گذارنے والوں کی عزت کرتا ہوں۔
حسن منظر
کراچی 16 ستمبر 2014


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).