عمران خان کے استاد


انگلینڈ کے شہر مانچسٹر کی ایک سہانی شام تھی اور راقم وہاں کی مرکزی لائبریری کی ایک نیم ادبی، نیم سیاسی تقریب میں شریک تھا۔ تقریب کے دوران خیال آتا رہا کہ جب ہم بچے تھے تو سکول میں پڑھایا جاتا تھا کہ ٹیکسٹائل کی صنعت کی وجہ سے مانچسٹر انگلینڈ کا لائل پور کہلاتا ہے۔

اب لائل پور فیصل آباد ہو چکا، پاکستان کے ٹیکسٹائل والے ہر کچھ مہینوں بعد اخباروں میں اشتہار چھاپ کر اپنی زبوں حالی کا رونا روتے ہیں۔ مانچسٹر میں بھی ٹیکسٹائل کی صنعت پر زوال آیا لیکن وہاں کے لوگوں نے اور دھندے ڈھونڈ لیے۔

جس شام کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ محرم کے مہینے میں تھی اور لائبریری کے چاروں طرف یا حسین والے پرچم دیکھ کر لگ رہا تھا کہ جیسے انگلینڈ کا شہر نہ ہو کراچی کا علاقہ انچولی ہو۔

تقریب ختم ہوتے ہی میں لائبریری سے باہر بھاگا تاکہ سگریٹ کی منحوس طلب پوری کر سکوں۔ تقریب کے سامعین میں شریک ایک بزرگ گورا پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ ماضی کے تجربات سے اندازہ ہے کہ ہر ایسی تقریب میں ایک آدھ ایسا گورا یا گوری ہوتی ہے جس نے جوانی میں کچھ وقت کراچی، لاہور یا پشاور میں گزارا ہوتا ہے اور وہ پاکستان میں گزرے اپنے اچھے وقت کی، ہماری شاندار میزبانی کی باتیں کرنا چاہتا ہے۔

یہ بزرگ بھی جوانی میں کچھ سال لاہور میں گزار چکے تھے۔ تعارف کے فوراً بعد بولے عمران خان کیسا جا رہا ہے۔ میں نے عرض کی، ابھی تو دو مہینے بھی نہیں ہوئے، کچھ وقت تو دیں۔ فوراً بولے میں لاہور میں سکول ٹیچر تھا اور عمران خان میری کلاس میں ہوتا تھا۔ میں نے پوچھا، کب، کون سی کلاس، کون سا سکول۔ فرمایا ایچیسن کالج جانے سے قبل عمران خان کیتھیڈرل سکول میں پڑھتا تھا اور میں وہاں انگریزی کا استاد تھا۔

میں نے کہا انگریزی پڑھانے میں تو آپ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ویسے پڑھائی میں عمران خان کیسے تھے؟ کہنے لگے بس ٹھیک ہی تھے لیکن میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ سیاست میں آئیں گے یا پھر ایک دن۔۔۔ میں نے کہا چھوڑیں کئی پاکستانیوں نے بھی کبھی یہ نہیں سوچا تھا لیکن ہمارے تجزیہ نگاروں اور ستارہ شناسوں نے سوچ لیا تھا اور جب وہ سوچ لیں تو پھر کسی سکول ماسٹر کی سوچ کوئی معنی رکھتی چاہے وہ ماسٹر ایک پردیسی گورا ہی کیوں نہ ہو۔

لیکن کرکٹ میں بہت اچھے تھے۔ ماسٹر صاحب بولے۔ میرے اور ہیڈماسٹر صاحب میں اکثر بحث رہتی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ یہ لڑکا کرکٹ میں کبھی آگے نہیں جائے گا کیونکہ فاسٹ بولنگ کے لیے اس کا ایکشن ٹھیک نہیں لیکن مجھے یقین تھا کہ یہ لڑکا ایک دن پاکستان کے لیے ضرور کھیلے گا۔

اس کے فوراً بعد ماسٹر صاحب نے ایک اور بات بتائی جسے سن کر تھوڑا دکھ ہوا، تھوڑی حیرت ہوئی اور عمران خان کی تاریخ ساز شخصیت کا ایک پہلو تھوڑا سا سمجھ آیا۔

عمران خان

عمران خان کی قیادت میں ہی پاکستان نے 1992 میں کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا

فرمانے لگے کہ عمران خان چھٹی جماعت میں اتنے زبردست کرکٹر تھے کہ لاہور کے دوسرے سکولوں سے ہمارا میچ ہوتا تھا تو ان کی پیشگی شرط ہوتی تھی کہ ہم میچ صرف اسی صورت میں کھیلیں گے اگر عمران ٹیم میں شامل نہیں ہو گے تو جب ہمارے انٹرسکول میچ ہوتے تھے تو عمران کو بینچ پر بٹھا دیتے تھے۔

اگر آپ مرد ہیں اور اتنے خوش قسمت ہیں کہ کسی ایسے سکول میں تعلیم پائی ہے جہاں کرکٹ باقاعدگی سے کھیلی جاتی ہو گی تو دھندلا سا یاد ہو گا کہ گراؤنڈ میں ہوئی بچپن کی بےعزتی اور اس عمر میں ملنے والی عزت بندہ کبھی نہیں بھولتا۔ سلپ میں پکڑا ہوا کیچ، پہلی گیند پر اڑتی ہوئی وکٹ اور دشمن امپائر کا دیا ہوا غلط رن آؤٹ ساری عمر یاد رہتا ہے۔

چھٹی جماعت کے عمران خان کو ایک انوکھی صورتحال کا سامنا ہے۔ آپ کی ٹیم میچ کھیل رہی ہے اور آپ کو ٹیم سے اس لیے باہر کر دیا گیا ہے کہ مخالف ٹیم آپ سے خوفزدہ ہے۔

یوں لگتا ہے کہ عمران خان نے گذشتہ 22 برس سیاست کے میچ میں باہر بینچ پر کبھی بیٹھ کر، کبھی کھڑے ہو کر، کبھی انقلابی بن کر، کبھی وہابی بن کر، کبھی دھرنا دے کر، کبھی لانگ مارچ کر کے یہ سوچتے ہوئے گزارے ہیں کہ مجھے اس لیے وزیراعظم نہیں بننے دیا جا رہا کیونکہ سب اندر سے جانتے ہیں کہ میں سب سے اچھا ہوں۔

میں نے ماسٹر صاحب سے اجازت مانگی۔ ہمارے سروں پر یا حسین کے ماتمی پرچم لہرا رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ اس میں کبھی کوئی شک نہیں تھا کہ عمران خان سب سے اچھے ہیں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں آخر عقل آئی اور ہم نے انھیں اپنا وزیراعظم چن لیا لیکن کیا یہ قوم ان کی رہنمائی کے قابل ہے بھی یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).