جمہوریت کا جن اور آدم بُو


جمہوریت کا جن نکالنے کے لئے جن عاملوں کا عمل دو ماہ قبل کامیاب ہو گیا۔ آج وہی ایک بار پھر نئی دھونی رمانے کے لئے کسی اُلو کا خون، جنگلی کبوترکا مغز، کالے بکرے کی سری اور گدھے کی کھال تلاش کر رہے ہیں کہ اس پر چالیس روزہ عمل کریں اور جن پہ تکیہ تھا ان بستر گول کریں۔ بات معیوب ہے لیکن جس لو میرج کو بڑی تگ و دو کے بعد ارینج بنایا گیا، وہ ہنی مون پیریڈ پورا ہونے سے پہلے ہی بریک ہوتی دکھائی دے رہی ہے، بے جوڑ رشتوں کے شادیانے تو خوب بجتے ہیں مگر ہاتھوں کی مہندی اُترنے سے پہلے ہی انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔

جب محبت کو پروان چڑھانے کے لئے ”کورٹ“ اور ”کوٹ“ کا سہارا لیا جائے، تو کورٹ بھی ”اگے تیرے بھاگ لچھئیے“ کے مصداق ہر عاقل و بالغ کے ساتھ پر دستِ شفقت رکھتی دکھائی دیتی ہے۔ اور کوٹ والے ٹیلر ماسٹر ریڈی میڈ اوور کوٹ یعنی شیروانی پہنا ہی دیتے ہیں، پھنس کر آئے یا کچھ بڑی دکھائی دے اس سے چنداں فرق نہیں پڑتا۔ پنجابی کی مثل مشہور ہے رنڈی تے وسناں چاہندی اے مشٹنڈے نئیں وسن دیندے ( لڑکی تو بسنا چاہتی ہے، بدمعاش نہیں بسنے دیتے ) جمہوری شادی کے حجلہ عروسی کے پھول بھی پوری طرح نہیں مُرجھائے کہ نظر ِ بد نے گھیر لیا ہے۔

ابھی سے آوازیں گونجنے لگیں ہیں، کُڑی وسدی نئیں لگدی، ایہدے لچھن ای وسن آلے نئیں ( لڑکی بستی دکھائی نہیں دیتی، اس کی حرکتیں ہی بسنے والی نہیں ہیں ) ضمنی الیکشن نے تو جلتی پر تیل کا کام کر دیا، اقتدار سے چالیس سالہ رفاقت کے بعد جن کو تازہ تازہ طلاق دلوائی گئی وہ بھی چیخ رہے ہیں کہ یہ بیل منڈھے چڑھتی دکھائی نہیں دے رہی، دولہا بے چارہ دن رات ایک کیے ہوئے ہے کہ کسی طرح گلے پڑا یہ ڈھول بجتا ہی رہے، کبھی ایک حکیم کا نسخہ تو کبھی دوسرے پیر کا تعویز، کبھی بابے رحمتے کے اکھاڑے میں ڈنڈ بیٹھکیں نکال کر یقین دلا رہا ہے کہ پہلوان آخری راؤنڈ تک سب کو چاروں شانے چِت کر دے گا۔

بے چارہ کرے بھی تو کیا شادی سے پہلے اُس کی فہم و فراست، مردانہ وجاہت اور صلاحیت کی مارکیٹنگ ہی اتنی کی گئی کہ اب آگے کنواں پیچھے کھائی والا معاملہ ہے۔ بے تکلف دوستوں نے جو مشورے دیے انہوں نے رہی سہی عزت بھی خاک میں مِلا دی۔ وچولن (رشتہ کرانے والی ) بھی سب کو کہتی پھر رہی ہے۔ کسی نے کسی کے اندر گُھس کر تو نہیں دیکھا، یہ تو سب قسمت کے کھیل ہیں۔ شادی تو ہے ہی جُوا۔ جُوا ہی تو کھیلا جاتا رہا ہے اِس ملک سے، اس ملک کی قسمت سے، اس ملک کے اداروں سے۔ کبھی جمہوریت کے نام پر، کبھی کرپشن کے نام پر یہ الگ بات ہے کہ کبھی یہ جُوا شیروانی پہن کر کھیلا جاتا رہا ہے، کبھی کوٹ بُوٹ پہن کر، کبھی شیروانی کے نیچے بُوٹ پہن کر۔ اس جوئے کے اڈے پرچھاپہ مارنا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے۔

قصورجس کا بھی ہو، جمہوری لُوٹ کھسوٹ نے ہمیشہ احتساب کا ڈنڈا لہرانے کا موقع دیا، اب طویل جدوجہد اور سر جوڑنے کے بعد جو جمہوری حکومت تشکیل دی گئی وہ سر توڑ کوشش کے باوجود اُس دلدل میں دھنستی ہی جا رہی ہے جسے پار کرنے کے لئے اُسے اقتدار کی لائف بوٹ فراہم کی گئی۔ شہرِ اقتدار سے اکثر چڑیا، کبوتر، چڑیلیں، چمگادڑ اور گیڈر اپنے اپنے اندازمیں آوازیں نکالتے رہتے ہیں، مگر اب ان پر بھی سکوت طاری ہے، جو تھوڑا بہت گلے کا زور لگا رہے ہیں ان کی کوشش یہی ہے کہ وہی گیت گائیں جس کی فرمائش کی جا رہی ہے۔

یعنی مشکلات کے پہاڑ سامنے کھڑے ہیں لیکن ہم انہیں ریزہ ریزہ کر دیں گے، اصل میں ریاستی نظام ہی کرپشن اور غیرملکی قرضوں کے باعث وینٹی لیٹر پر ہے کپتان اور اُس کی ٹیم جاں بہ لب جمہوری نظام کو بچانے کے لئے بلڈ بنک میں خون کے عطیات کی درمندانہ اپیل کر رہی ہے، کبھی آئی ایم ایف کا سفید خون، کبھی سعودی عرب کا متبرک خون، اور کبھی چین کا ٹھنڈا خون۔ کراس میچنگ ہورہی ہے کہ وہی خون لگانا ہے جو کئی دہائیوں سے لگ رہاہے یا خون ہی بدلنا ہے، ۔ مریض کو ٹھنڈے پسینے آ رہے ہیں، ٹھنڈے خون کی طرف دیکھنے سے ہی ڈاکٹر ٹرمپ کا مکار خون کھول اٹھتا ہے۔

ایسے میں حب الوطنی کا خون جوش مارے بھی تو کیا حاصل، جب معیشت وینٹی لیٹرپر ہو اور گورننس کی ہارٹ بیٹ بھی بہت مدھم ہو، پیشہ ور ڈاکٹر اوربلڈ ڈونر بھی منہ مانگی شرائط پر آپریشن تھیٹر کا رُخ کرتے ہیں، التجائیں، انسانی ہمدردی، ہمالیہ سے اونچے اور بحیرہ عرب سے گہرے تعلقات پر مفادات اور مصلحتوں کی برف جم جاتی ہے۔ اسلام آباد کی فضاؤں سے تبدیلی کی ہوا ایک بار جو چلی تو پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اب بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے کہ تبدیلی کی آندھیاں اُٹھنے کو ہیں موسم خراب آنے کو ہے۔ کہ پرندے بے سبب خاموش ہیں مگر ماحول میں عجب سی چیخیں غور کرنے پر صاف سنائی دے رہی ہیں، شاید یہ محض ہم ہو مگر کچھ تو ہے جو خاموش دکھائی دینے والے سمندرکی تہہ میں جوار بھاٹے کی طرح عنقریب سطح آب پر آنے کو ہے۔

کشتی کا ملاح کتنی دیر تک ان طوفانوں کا مقابلہ کر سکے گا، عین منجھدار میں پھنسا کپتان اسٹیبلشمنٹ کے چپوؤں سے کتنی دیر تک لہروں کا مقابلہ کرے گا، بڑا سوال ہے۔ اگرکشتی ہی اُلٹ گئی تو کیا غوطہ خور ذہنی طور پر ریسکیو کرنے کو تیار بھی ہیں۔ آکسیجن سلنڈر اور ریسکیو کا دیگر سامان بھی موجود ہے، نئے سال کا سورج کیسے مناظر دیکھنے کو طلوع ہوگا، سوچنے والوں کے متفکر چہروں پر صاف دکھائی دے رہاہے کہ وہ آسماں کچھ دھندلا دیکھ رہے ہیں، کچھ عرصہ پہلے جنہیں زمین پر خلائی مخلوق کھلی آنکھوں سے دکھائی دے رہی تھی، ان کی چھٹی حس اب پھر کسی ان دیکھی مخلوق کی کا احساس جگا رہی ہے۔

نہال ہاشمی جیسے خودکش بمبار تو ہین ہی، مریم نواز کا سوشل میڈیا نیٹ ورک دوبارہ سے پر پُرزے نکال رہا ہے، بُل فائٹنگ جاری ہے، بُل کو تاؤ دلانے کی کوشش ڈُو آر ڈائی کی نہج پر پہنچ چکی ہے۔ جتنے محاذ کپتان نے اپنے خلاف کھول لئے ہیں ان سے نمٹنا تو درکنار بچ نکلنا ہی جیت ہو گی، سب سے بڑا محاذ بیورو کریسی کا ہے، جو سمجھتے ہیں کہ شہرِ اقتدار میں ہوں یا صوبوں میں وہی حکومتیں چلاتے ہیں، کامیاب حکومت کا تصور تو درکنا ر ان کے بغیر حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ کپتان نے کھل کر بیورو کریسی سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار گذشتہ دنوں پر ہی دیا۔

کپتان کے دبنگ وزیر اطلاعات سبھی کو ایک ہی چھڑی سے ہانک رہے ہیں، بیورو کریسی کو بھی شٹ اپ کال دے رہے ہیں، کھچڑی سی پک رہی ہے، آئی جی پنجاب کے تبادلے اور کپتان کے مشیر برائے پولیس اصلاحات ناصر درانی کی پسپائی سے ظاہر ہے کہ ”ایوری تھنگ از روٹن ان د ا سٹیٹ آف ڈنمارک“، چیلنج صرف ڈوبتی معیشت کا ہی نہیں ریاست کے کل پُرزے اگر جام ہونے لگیں تو ریاست کیسے چل سکتی ہے۔ ضمنی انتخابات میں ڈالرکی اونچی اُڑان، بجلی کے پے در پے جھٹکوں، مہنگائی بم کی آواز ہر حلقے میں گونجتی سنائی دی۔

اپوزیشن کو تو موقع چاہیے کہ آکسیجن سلنڈر فراہم کرنے کی بجائے وینٹی لیٹر بند کر دے۔ جب ان کی منی لانڈرنگ، بے نامی اکاؤنٹس بیرونِ ملک جائیدادوں کے سراغ لگائے جائیں گے اور ان سے پوچھا جائے گا کہ دنیا بھر میں اربوں کی جائیدادیں کیسے بن جاتی ہیں تو ظاہر ہے چیخیں تو نکلیں گی، فالودہ فروش، رکشہ ڈرئیور، طالب علم اور اب مُردہ ارب پتی بھی منظرِ عام پر آگیا، کیسے کیسے شعبدہ باز یہاں اپنی شعبدہ بازیاں دکھا کر معصومیت کے جھنڈے گاڑے ہیں مگر جب ان پر ہاتھ ڈالا جائے تو ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا اور ادروں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ اگر نیب اتنی پروفیشنل ہو کہ سب کا کچا چھٹا سب ثبوتوں کے ساتھ کر لے اکٹھا اور حکومت سوئس بینکوں اور خفیہ اثاثوں تک رسائی حاصل کرکے لوٹے ہوئے خزانے سے قومی خزانے کا منہ بھر دے تو ممکن ہے کہ ان آگ اگلنے والے پھنکارتے اژدھوں کے منہ بند ہو جائیں۔

اگر کپتان اور ان کے ”چپو“ یہ سوچ رہے ہیں کہ زلفی بخاری، انیل مسرت، میاں جہانگیر کے ذریعے کوئی معاشی انقلاب لایا جا سکتا ہے تو انہیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ سیاسی سازشی عناصر کے پاس ایسے خوفناک ہتھکنڈے ہیں کہ رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وزیر اعظم کو چین جانے دیجئے، سی پیک سے متعلق ایسی ایسی خبریں گردش کریں گی کہ قوم کا درد رکھنے والے درد سے تڑپنے لگیں گے۔ اور یہ قومی فریضہ کوئی اور نہیں وہی چند افلاطون اور ارسطوانجام دیں گے جن کے ذہن ان کے بینک بیلنس کے مطابق چلتے ہیں۔

وہ دورِ حاضر کے نابغہ افلاطون اور ارسطو اپنی کرائے کی علمیت کی دھاک بٹھانے کے لئے ایسے جنتر منترپیش کریں گے کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ اور بیورو کریسی کا بدمست ہاتھی بھی کپتان کے سامنے جھوم رہاہے جو قواعد و ضوابط کے ایسے دفتر کھولے گا کہ بابا رحمتے بھی ان کے سامنے بے بس ہو جائیں گے، بابارحمتے نے تو اور چند ماہ بعد ریٹائر ہو جانا ہے پھر ایسا کون ہوگا جس کے انگ انگ میں اتنی بجلی بھری ہو کہ سینہ تان کر ان ہاتھیوں کے سامنے کھڑا رہ سکے جو ہیں تو سرکس کے مگر موقع ملتے ہی بدمست ہوکر سب کچلنے کے درپے ہوتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ جسٹس شوکت صدیقی کو جن وجوہات پر سپریم جوڈیشل کونسل نے گھر کی راہ دکھائی کوئی اور شوکت صدیقی سر اُٹھا لے اور خلائی مخلوق کے زیرِ اثر زمینی کیڑے مکوڑوں کے راز اگلنا شروع کر دے۔

بے یقینی اور خوف نے کیوں جکڑ رکھا ہے، عوام بے چارے تو ابھی اپنے ووٹ سے آنے والی تبدیلی پرہی سر پیٹ کر رہ گئے ہیں، مہنگائی کے عفریت اور ڈوبتی معیشت نے تبدیلی کے نعروں کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے، تبدیلی کے علمبردار طعنے سُن کر کھسیانی ہنسی کے ساتھ دھیمی آواز سے کہتے ہیں، یار تھوڑا انتظار سب ٹھیک ہو جائے گا“، پرانا گند صاف کرنا ہے کچھ تکلیف تو ہو گی، تھوڑی بدبُو تو ناک میں دم کرے گی“

حوصلہ اور تسلی تو کپتان نے بھی دی ہے، مگر یہ تاثر دانستہ پھیلایا جا رہا ہے کہ ریاست کے کچھ کل پُرزے مفلوج ہو رہے ہیں اور کچھ آمادہ بغاوت ہیں، بابا رحمتے کیوں جمہوریت، جمہوریت، جمہوریت اور صرف جمہوریت پر زور دے رہے ہیں اور ساتھ خبردار بھی کر رہے ہیں کہ غیر آئینی اقدام یا جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو اس کے سامنے ڈٹ جائیں گے۔ آخر انہوں نے یہ کن خدشات کی بنیاد پر کہا؟ کیا نومبر، دسمبر کی ٹھنڈ ی ہواؤں میں گہری دھند اور سموگ ہو گی۔ ہر نیا دن نئی بریکنگ نیوز کے ساتھ طلوع ہو گا۔

تمام چڑیاں، طوطے، کبوتر، چڑیلیں خاموشی سے تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو والی کیفیت میں ہیں۔ بیورو کریسی کی بے چینی تو عیاں ہے، بابا رحمتے کا دم کب تک ہے، ڈرانا دھمکانا کب تک رہتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر کپتان اور ان کی ٹیم مردِ بحران ثابت ہوتی ہے یا آخر میں بقول منیر نیازی
کجھ انج وی راہواں اوکھیاں سن، کچھ گل وچ غم دا طوق دی سی
کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن، کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).