بچوں کی بدتمیزی کی میڈیا پر پروموشن


بیہیوئر Behavior سائنس، ایک ایسا علم ہے جو جانداروں کے باہمی اور اپنے ماحول کے متعلق رویوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ یعنی برتاؤ یا طرزعمل جسے آپ میل جول کے آداب بھی کہہ سکتے ہیں۔ ۔ تہذیب یافتہ معاشروں میں ڈھنگ اور رویوں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ مغربی ممالک میں باقاعدہ بچے کی پیدائش سے قبل ماں کو ذہنی تربیت دی جاتی ہے اور ماں کو مثبت پہلو پر زیادہ سوچنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور منفی پہلو اور ذہن پر غلط اثر انداز ہونے والی شے سے دور رہنے کی تلقین بھی کئی جاتی ہے۔ یہی وہ دور ہوتا ہے جب آپ کے رویے آپ سے آپ کی اولاد میں ذہنی و جسمانی سطح پر منتقل ہوتے ہیں۔

اس ٹرانسفورمیشن کو یک دم لاگو نہیں کیا جاتا بلکہ آہستہ آہستہ بچے کی عمر کے مطابق وہ ایک مہذب معاشرے میں جینا سیکھتا ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں بجائے بچوں کی تعلیمی، ذہنی و جسمانی نشونما پر دھیان دیں مگر ہم نے تو اب زبان درازی بدتمیزی کو بڑے ہی شاہانہ انداز میں پروموٹ کرنا شروع کردیا ہے۔ ایسے ہی اس سے قبل ایک بچی کی ویڈیو وائرل کی گئی تھی جو پٹر پٹر زبان چلا رہی تھی۔

بحیثیت ایک مونٹسری ڈائریکٹریٹ کی حثیت کو نظرانداز کرکے بھی میں وہ ویڈیو دیکھوں جس میں ایک چار سے پانچ سال کی عمر کا بچہ انتہائی آمرانہ انداز میں اپنی انگلی کے اشارے سے ہاتھ چلا چلا کر اپنی ٹیچر کو کہتا ہے کہ ”میرا بستہ واپس کر“۔ اور استانی اس کے لہجے کو پسند کرتی ہوئی اس کی ویڈیو بنا رہی ہیں جو کچھ ہی دن میں سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوجاتی ہے۔

ہمیں نابالغ بچوں کی تربیت دیتے ہوئے سکھایا جاتا ہے کہ بچے کو سکھانا ہے کہ دروازہ کیسے کھول بند کرنا ہے، کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے ہیں۔ پیر میٹ سے صاف کرنے ہیں، جوتے لے کر قالین پر نہیں چڑھا جاتا، نیپکن کا استعمال کیسے عمل میں لانا ہے، کھانے کی میز پر تمام چمچ چھری کانٹے کا استعمال کیسے کرنا ہے، صبح اٹھتے ہی دانت کیسے مانجھنے ہیں، کسی چھوٹے سے کیسے شفقت کے ساتھ مخاطب ہونا ہے اور بڑوں سے کیسے ادب اور دھیمے لہجے میں بات کرنی ہے۔ ہماری ٹیچر بے تحاشا ایسے درجنوں ڈھنگ ڈھائی سال کے بچے کو سکھاتی تھیں۔

احمد نامی بچے کئی ویڈیو ایک دفعہ دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بچہ تو معصوم ہے وہ وہی برتاؤ کررہا ہے جو وہ اپنے اردگرد کے ماحول میں دیکھتاہے جہاں وہ پلا بڑھا ہے کیوں کہ جتنی کم عمر کا بچہ ہوتا ہے اس کے رویے انداز اس کی پہلی درسگاہ کے بھید کھول دیتے ہیں جو اس کا اپنا گھر ہوتا ہے۔ آیا کہ اس کی خوداعتمادی اور اعتماد کی کمی بھی بچے کی ذہنی کیفیت کس سطح پر ہے اس بات کا اندازہ ایک ٹیچر لگاتی ہے۔ بچہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں بھرتی ہوتا ہے تو شروع میں اس کا ڈھنگ اس کی پہلی دہلیز کی پزیرائی کررہا ہوتا ہے۔

ویڈیو دیکھنے میں صاف معلوم ہورہا ہے کہ انداز بڑے کا ہے جو بچہ چیخ چیخ کر کہتا ہے اوئےےےےےےے میرا بستہ واپس کر۔ ورنہ تیری چھٹی بند کردوں گا اوئےےےےےےےےےےےے چپ کرجا۔ اور وہ اپنے انداز میں یہ باور کروانا چاہ رہا ہے کہ دیکھو مجھے بہت غصہ آرہا ہے۔

یہ اسٹائل دیکھ کر لمحے بھر سب کو ہنسی آئی شاید اس لیے کچھ لوگوں کو انداز جچتا دکھائی دے رہا ہو کیوں کہ بچے نقل اتارتے یا سچ بولتے وقت ویسے ہی کیوٹ لگتے ہیں۔ ایک صاحب کہنے لگے بچہ ہے نرم موٹا سا تو ہے اسٹائلش سا بچہ۔

احمد نامی بچہ بھی ویسا ہے معصوم ہے جیسے اس عمر کے تمام بچے ہوتے ہیں۔ مگر ایک دفعہ اس کی بدتمیزی اس کے اسکول کی ٹیچر کے ہاتھوں وائرل ہونے کہ بعد مختلف مقامات پر اس کی راستے میں روک روک کر ویڈیوز بنائی جانے لگی اور اب تو وہ معصوم ہمارے میڈیا کی نظر میں آنے کہ بعد چوبیس گھنٹوں میں تین بڑے چینلز کے پروگرامز کی زینت بن چکا ہے۔ اے آر وائی کے مارننگ شو میں ندا یاسر اس کی بدتمیزی پر نہ صرف اس کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کرتی دکھائی دے رہی ہیں بلکہ یہ بھی کہہ رہی ہیں ”اتنا غصہ ہاہاہاہا کہاں سے سیکھا؟ “ جیسے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا جارہا ہو۔

بجائے یہ سوال کرنے اور سوچنے کہ اتنی کم عمر کا بچہ اس قدر مشتعل ہے اور آنکھیں نکالتا گھور رہا ہے مگر نہیں۔ آگے سے ندا یاسر بلند ٹھٹھے مار رہی ہیں۔ ندا بچہ کو چھیڑتے ہوئے کہہ رہی ہیں بائے ہم جارہے ہیں تو احمد کہتا ہے چپ ہوجا بائے کا بچہ۔ اس بات پر احمد کو پیار سے سمجھانے کے بجائے ندا پھر میزبانوں کے ساتھ مل کر کھی کھی کرتی دکھائی دے رہے ہیں۔ اسٹیج پر دیگر اور بھی بچے تھے مگر مکمل فوکس احمد کی بد تہذیبی تھی۔

دیگر یہ منظر دیکھنے والے بچوں کو یہ پیغام جارہا ہے کہ سب کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ احمد کے والدین اساتذہ اور خاص کر میڈیا مالکان سے لے کر پورے سماج کو سوچنا ہوگا کہ ہم کس سمت جارہے ہیں؟ کیا ندا اپنی اولاد کو یہ طرز اپنانے کی تربیت دیں گی؟ کیا میڈیا مالکان کی اتنی بھی ذمہ داری نہیں کہ وہ سماج میں اگر مثبت پیغام نہیں دے سکتے تو کم سے کم ریٹنگ کے چکر میں نسلیں تو نہ اجاڑیں؟

کیا والدین کا فرض نہیں کہ وہ اپنے ہر احمد نامی بچے کو سمجھائیں اور روکیں کہ یہ درست نہیں۔ کاش احمد کے والدین اپنے بچے کو میڈیا کے سامنے پیش ہی نہ کرتے اور اُس ٹیچر کے خلاف اسکول انتظامیہ کو شکایت لگاتے کہ یہ ہماری اولاد کی تربیت کرنے کہ بجائے اس کی بدتمیزی بڑے فخریہ انداز سے پرموٹ کررہی ہیں۔

بجائے اس کے ہم اپنے بچوں کو سائنس، طبیعیات، سماجی علوم، آرٹ، کلچر، دین و دُنیا، علوم و فنون سکھائیں بلکہ بدتمیزی سیکھائی جارہی ہے جو ناقابل برداشت عمل ہے اور اس کی فوری روک تھام کا فرض پیمرا کا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).