میڈیا اور سوشل میڈیا، بچوں کا بچپن کھانے والی چڑیلیں


چند دنوں سے یوٹیوب اور فیس بک پہ ایک بہت معصوم گپلو سے بچے احمد کی وڈیو وائرل ہے۔ احمد کا انداز دل موہ لینے والا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اسے اس انداز میں بات کرنے پہ اکسانے والے درست ہیں؟ اسے تنگ کر کے لطف لیا جارہا ہے۔ پھر وڈیو وائرل ہوتے ہی یہ بچہ احمد ٹی وی چینیلز پہ بھی نظر آنے لگا۔ ہر جگہ اس سے کوئی چیز چھین کر اسے اکسایا جاتا ہے کہ وہ اپنی معصومانہ انداز اور کچی پکی اردو میں چیزیں واپس مانگے۔

اور یہ پہلا بچہ نہیں آپ ایک دفعہ یوٹیوب پہ جائیے تو آپ کو ملکی و غیر ملکی سینکڑوں ایسی وڈیوز مل جائیں گی جہاں بچوں کو مخصوص رویے پہ اکسایا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ویوز لیے جاسکیں۔ بچوں کے نام کے چینیلز بنے ہیں۔ اور ان میں چند بہت مشہور پاکستانی و غیر ملکی سیلیبرٹیز کے بچے بھی ہیں۔ ایک صاحب جو اپنے مذہبی حوالے کی وجہ سے معتبر سمجھے جاتے ہیں ہر جگہ اپنی بیٹی لے کر آتے ہیں جس کی کوئی منطقی وجہ نظر نہیں آتی، چند ایک مشہور میڈیا سے متعلق افراد بچوں کو چند چیزیں رٹوا کر اولاد کو پبلسٹی اسٹنٹ کے طور پہ استعمال کرتے بھی نظر آرہے ہیں۔

ایک اور بچی بھی ہے جس کی اپنی والدہ سے بحث بہت مقبولیت حاصل کر رہی ہے بچی کے سیاسی حوالوں کے ساتھ والدہ کی بے عزتی کو عوام بہت پسند کر رہے ہیں جبکہ واضح نظر آرہا ہے کہ بچی کو سب سکھایا گیا ہے۔ کچھ اور وڈیوز اس قسم کی بھی ہیں جس میں صرف روتے بچوں کے مزاحیہ جواب سننے کے لیے انہیں انتہائی نامناسب انداز میں ڈانٹا یا مارا جارہا ہے۔ اور ہاں سب سے افسوسناک وڈیوز جو اس حوالے سے نظر سے گزریں وہ کملیش کی تھیں۔ ایک بچہ جو کہ بے گھر ہے اور معاشرے کی سفاکیت کی بھینٹ چڑھ کر نشہ کا عادی ہوگیا اس پہ بنی ایک معلوماتی ڈاکیومنٹری کے میم بنا کر مزے لیے گئے۔ اس قسم کے افراد کو اپنی ذہنیت کے گھٹیا ہونے پہ خود ہی شرمندگی سے مر جانا چاہیے۔

چلیے ہم نے مان لیا کہ آپ نے اپنی اولاد کی زندگی کے اہم لمحات فلم بند کیے۔ اور وہ آپ کو اتنے پسند آئے کہ لوگوں کو بھی دکھائے لوگوں کو بھی وہ پسند آئے یہاں تک معاملہ قابلِ قبول ہے لیکن بچے کی معصومیت کو کاروبار بنا لینا بچے کی معصومیت کا قتل ہے ایک بار جو رویہ اس نے معصومیت میں دکھایا وہی رویہ اسے مصنوعی طور پہ بار بار کرنے پہ مجبور کیا جاتا ہے تاکہ عوام زیادہ سے زیادہ دیکھے۔ بچے کو عام زندگی میں کھیل کود سے روک کر، سیکھنے کے عمل سے روک کر شوٹنگز میں لگا دیا جاتا ہے۔ اس سے بچوں کی شخصیت پہ کتنا منفی اثر پڑتا ہے یہ بھی کچھ ہی عرصے میں نظر آنے لگتا ہے۔

وہی بچہ یا بچی جو شروعات میں سادگی اور معصومیت سے بات چیت کرتے تھے کچھ عرصے بعد ان کی بات چیت میں بڑوں جیسی بناوٹ اور مصنوعی پن آجاتا ہے۔ اور اس نہج تک پہنچتے پہنچتے وہ بچے کتنی ذہنی اذیت سے گزرے ہیں اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دینا چاہتا۔ اور کیوں کہ اس بچے کا بچپن نمائش پہ رکھ دیا گیا ہے اس لیے ہر دیکھنے والا اس بچے پہ اپنی رائے بھی دیتا ہے کوئی کھلے الفاظ میں بچے کو بدتمیز اور بدتہذیب کہتے ہیں کچھ والدین کو موردِالزام ٹہراتے ہیں۔ کچھ لوگ اتنے نامناسب الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ اگر وہ بچہ انہیں سن لے یا اتنا بڑا ہے کہ پڑھ لے تو ممکن ہے کہ اس کے لیے یہ رائے ہمیشہ کے لیے مینٹل ٹرامہ بن جائے۔ اور یہ سب صرف شہرت اور پیسے کے لیے کیا جارہا ہے۔ تو حضرات اگر آپ کو مشہور ہونے کا اتنا شوق ہے تو اپنے اور دوسروں کے بچوں کو سیڑھی نا بنائیں اگر صلاحیت ہے تو اپنی اسی صلاحیت کے بل بوتے پہ اپنی جگہ بنائیے۔ بچوں کی معصومیت نا چھینیے۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima