بچوں کو شو پیس بناکر بچپن نہ چھینیں


آپ نے ٹھیلے پر پھل، سبزی، جوتے، کپڑے وغیرہ وغیرہ کو آواز لگا کر بیچنے کا منظر دیکھا ہو گا، آج کل ایک بازار اور وجود میں آیا ہے۔ وہ ہے انٹرنیٹ کا سوشل میڈیا بازار۔ یہاں خبر جھوٹی سچی ہونے کی کوئی تصدیق نہیں کرتا بس بک جاتی ہے۔ آگے سے آگے بڑھتی ہے اور وائرل کا درجہ پاتی ہے۔ اسی طرح اچھے، برے فنکار بھی وائرل ہو جاتے ہیں۔

لوگ اپنے خاندان کی شادی بیاہ، جنازوں تک کی تصاویر یا ویڈیو وائرل کرنا چاہتے ہیں۔ بچوں سے مار پیٹ یا بڑوں سے ہاتھا پائی کے کارنامے بھی وائرل ہو جاتے ہیں مگر ایک نیا رجحان بھی آیا ہے۔ بچوں سے اسکرپٹڈ اداکاری کروا کر ان کی معصومیت کو وائرل کی بھینٹ چڑھانے کا۔ اس ضمن میں دو بچوں کا ذکر یہاں ہو گا۔ ایک بچی فاطمہ جس کی ویڈیو غالبا ان کی والدہ بناتی ہیں اور ایک بچہ احمد۔ جن کی پہلی ویڈیو شاید ان کے استاد نے بنائی اور اب ان کے گھر والے انہیں وائرل کونٹینٹ کی لائن میں کھڑا رکھتے ہیں۔

آپ دونوں بچوں پر غور کریں۔ دونوں معصوم ہیں اور اس میں ان کا کمال نہیں ان کی عمر کا تقاضہ ہے۔ اس عمر میں بچے ہنسیں، روئیں، شرارت کریں یا سوال۔ سب کیوٹ لگتا ہے۔ دونوں بچوں کا لہجہ اور انداز گفتگو قابل تعریف نہیں کہا جا سکتا کیونکہ انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مسلسل اپنے ایک ہی ایکشن یا ادا کو دہرائیں۔ فاطمہ بچی کو سیاسی بحث میں ڈال کر ان کی والدہ نے اپنی بچی کو تنقیدی بازار میں خود ہی ڈال دیا۔ ظاہر ہے مخالفین تو اس کو مختلف القاب سے نوازیں گے ہی مگر ایسا موقع والدہ صاحبہ نے خود فراہم کیا۔

احمد کو اے آر وائی کے بے ترتیب مارننگ شو کی اناڑی میزبان ندا یاسر نے مدعو کیا۔ اس شو کی کلپ نکال کر دیکھیں تو واضح ہے کہ محترمہ بلا وجہ بچے کو غصہ دلا رہی ہیں اور باقی بچوں کو بھی اکسا رہی ہیں کہ آپ لوگ بھی غصہ کریں۔ جب احمد کو احساس ہوتا ہے کہ میں نوٹس ہو رہا ہوں تو وہ مزید اشتعال کے ساتھ غصہ کر کے باقی بچوں کو ڈرانے کی بھی کوشش کرتا ہے۔

اب آتے ہیں اصل موضوع پر۔ غصہ، جھنجھلاہٹ اور مایوسی یہ وہ عناصر ہیں جو ہمارے معاشرے میں اجتماعی الجھن کے طور پر موجود ہیں۔ جب آپ بچوں کے غصے کو ہوا دیتے ہیں تو وہ آہستہ آہستہ اپنے چڑچڑے پن کو تشدد میں بدلتا ہے اور یہ تشدد پہلے گھر والوں اور ہم عمر سے ہوتا ہوا پھر مزید ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔

آپ بچوں میں توجہ طلبی (اٹینشن سیکنگ) کا لالچ ڈال رہے ہیں جو ان کی ذات کے لئے نقصان دہ ہے۔ ان کی ذہنی تربیت اور صلاحیتیں صرف اس وجہ سے دب سکتی ہیں کہ وہ اپنی توجہ حاصل کرنے کی عادت کو سمجھتے سمجھتے بہت دیر کر چکے ہوں گے۔ جب توجہ حاصل نہیں کر پائیں گے تو منفی طریقے یا خطرناک طریقے بھی اپنا سکتے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں خاندان اور معاشرے کی جانب سے سزا کا سامنا ہو گا۔ ہمارے یہاں سزا عام طور پر تشدد کا نام ہے۔

سزا سدھار کے لئے ہوتی ہے بگاڑ کے لئے نہیں۔ سزا کا مقصد بری عادت کو زبردستی روکنا نہیں بلکہ بری عادت کے ارادے کو مرضی سے نہ کہنا ہے۔ مگر ہمارے معاشرے کی بد قسمتی ہے کہ سزا کو تشدد سے جوڑ دیا گیا ہے۔ اب چاہے یہ سزا مدرسے کے قاری صاحب چھٹی کرنے پر ہاتھ توڑ کر دیں، اسکول کے سر یا میڈم ہوم ورک نہ کرنے پر ہاتھ لال کر کے دیں یا گھر پر ابو ماموں یا چاچا حکم بجا نہ لانے کے نتیجے میں کمر پر نشان ڈال کر دیں۔ ڈنڈے، چمڑے، بید اور چپل کے سائے میں بڑے ہونے والے خود سے آگے والی نسل کو بھی اسی لاٹھی سے نہیں ہانکیں گے تو کیا کریں گے؟

تلقین، تنبیہ اور تربیت کے مقابلے ’تشدد‘ نسبتاً کم وقت اور کم محنت لیتا ہے۔ یہ غصہ، توجہ طلبی، خود کی بات منوانے کی ضد، اشتعال انگیز مزاج ہی کی بدولت ہمیں تعلیم یافتہ طبقے کی جانب سے ایسے کارنامے سننے کو ملتے ہیں کہ خاکی میڈم نے ملازمہ پر بیہیمانہ تشدد کیا، جج صاحب کی بیگم نے ملازمہ نیل و نیل کر دی، معزز ایم پی اے صاحب ہڈیاں جوڑتے جوڑتے تھک گئے تو شہری پر تھپڑوں کی بارش کر دی کہ حضور کے رستے میں آیا کیسے؟ قاری صاحب نے بازو توڑ دیا، استاد نے ٹانگ توڑ دی، شوہر نے سر پھاڑ دیا، ماں نے شوہر کا غصہ بچوں کو ذبح کر کے دے دیا۔

بچپن کا تقاضہ ہے کہ اسے معصوم رہنے دیا جائے اور تربیت کا تقاضہ ہے کہ یہ صبر آزماء اور وقت طلب ہوتی ہے۔ معاشرے کی عدم برداشت اور تشدد پسندی کو دیکھتے ہوئے اب یہ لازم ہے کہ بچپن سے ہی بچوں کو سکھایا جائے کہ غصے پر قابو کیسے کرتے ہیں اور غصہ یا مطالبہ ظاہر کرنے کے کیا کیا طریقے ہو سکتے ہیں؟ یہ ذمہ داری والدین، اساتذہ، خاندان اور ہمسائے ہم سب کی ہے کیونکہ یہ بچے ہم سب کا مستقبل ہیں۔ ہر بچہ اپنی جگہ خاص ہے۔ اسے خاص بنانے کے لئے لائیک، شیئر، ریٹویٹ یا فالوورز کی ضرورت نہیں۔

اپنے بچوں کو سکھائیں کہ انہیں اپنی حفاظت کیسے کرنی ہے، آرٹ میں دلچسپی لینی ہے، قدرت کی نعمت اور خوبصورتیوں کی قدر اور تعریف کرنی ہے، برابری، دوستی اور محبت کی بات کرنی ہے۔ اپنے بچوں کو وائرل کونٹینٹ بناکر اس بھوکے، جنونی معاشرے کے فارغ دماغوں کے سامنے مت پھینکیں۔ یہ آپ کے بچے کا اعتماد اور عزت نفس مجروح کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ جو آج کیوٹ کہہ رہے ہیں دو سال بعد بے شرم اور بے حیا بھی کہہ سکتے ہیں۔ آپ کا بچہ کوئی شو پیس نہیں جس کے لیے آپ ہمیشہ داد ہی وصول کرنا چاہتے ہیں۔ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھاریں اور انہیں حقیقی دنیا کا کارآمد حصہ بنائیں۔ یہ ان کا حق اور آپ کا فرض ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).