زمین کی منفی توانائی، ذہنی دباؤ کا سبب بنتی ہے


انسان کا زمین سےتعلق انتہائی قدیم ہے۔ جہاں دھرتی اس کے جینے کا اسباب مہیا کرتی ہے، اس کی فکری و روحانی ارتقا کا باعث بھی ہے۔ زمینی حالتیں اور ماحول کا اثر انسان کی ذہنی و روحانی نشونما پر بھی مرتب ہوتا ہے۔ طبعی، ذہنی و روحانی بہتری اور بھلائی کے لئے انسان کو زمین کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنی پڑتی ہے۔ انگریزی کے شاعر ولیم ورڈز ورتھ کے مطابق زمین کی حیثیت انسان کے لیے ماں کی سی ہے۔ ماں کی طرح زمین بھی انسان کو غذا فراہم کرنے کے ساتھ اسے جسمانی تحفظ عطا کرتی ہے۔

ہر موسم میں مختلف اثرات پائے جاتے ہیں جو انسانی طبیعت و مزاج میں تغیرکا باعث بنتے ہیں۔ Geopathic Stress کوالیکٹرو میگنیٹ فیلڈ کا نام دیا گیا ہے، جس کی فریکوئنسی، انسانی ذہن کی ’الفابرین ویوز‘ کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔ یہ لہریں انسان کی صحت و شفایابی کے لیے مؤثر سمجھی جاتی ہیں۔

لیکن زیر زمین تعمیرشدہ عمارتیں اور انڈرگراؤنڈ ریلوے اسٹیشنز، موٹر ویز، کانیں، سرنگیں، بجلی و پانی کی لائنیں وغیرہ جیوپیتھک (Geopathic Stress) زمیں کی منفی لہروں کے تناؤ کی وجہ بنتے ہیں۔ یہ زمین کی فطری فریکوئنسی میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔

جیوپیتھک لفظ یونانی ہے۔ ”Geo“ کے مطلب زمین اور ”Pathos“ کے معنی بیماری یا تکلیف کے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مفہوم ہو ”زمین کی تکلیف“ ہو۔ اس کو جیسے منفی توانائی یا زمین کو نقصان پہنچانے والی دھارا بھی کہا جاتا ہے۔ زمین کی توانائی، اچھی، بری یا غیرجانبدار ہوتی ہے۔

صنعتی اور ٹیکنالاجی کے انقلاب آنے کے بعد دھرتی غیر فطری اور صحت کے لئے نقصانکار بن گئی۔ موجودہ دور میں ماحولیاتی، آلودگی بھی فطری ماحول سے کھلواڑ کا نتیجہ ہے۔ ایسے ماحول میں وقت گذارنے والا انسان غیرمحسوس طور پر الجھنوں کا شکا ر ہوجاتا ہے۔ چین اور جپان کے لوگوں نے جیومنسی(Geomancy) کے علم سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ جیومینسی زمینی حالتوں کو سمجھنے کا علم ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ چین کے لوگ جیوپیتھک اسٹریس کو ”اژدھے کا پنجہ“ کہتے ہیں۔ کچھ قومیں زمین کی اس کیفیت کو اس کی بدروح کہتی ہیں۔ ہیپوکریٹس بلڈنگ کے لئے صحیح مقام منتخب کرنے پر زور دیا ہے۔ 1952ء میں جرمنی سے تعلق رکھنے والے فزکس کے ماہر سائنسدان نے زمین کی میگنیٹک فیلڈ اور اس کے انسانی صحت پر اثرات کے متعلق معلومات فراہم کیں۔ لیکن ہمارے ملک میں تعمیرسازی کے فن پر کوئی توجہہ نہیں دی گئی۔ اکثر گھر ہوا و روشنی سے محروم دکھئی دیتے ہیں۔ ویسے دیکھا جائے تو انسان کا جسمانی نظام ایک آہنگ میں چلتا ہے۔ کوئی بھی ایک عضو اگر ٹھیک سے کام نہیں کرتا تو پورا جسمانی نظام انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔

اسی طرح اس کائنات میں چیزوں کا ایک دوسرے سے تانا بانا جڑا ہوا ہے۔ یہ ایک دوسرے پر دارومدار رکھتی ہیں۔ زمین کی ہریالی بادلوں کی محتاج ہے اور بادل سمندر کے۔ اس طرح یہ فطری چکر کسی مرکز کے گرد گھومتا معلوم ہوتا ہے۔ انسان اسی طرح زمین و کائنات سے جڑا ہوا ہے۔ چاہے وہ اس اکائی سے بے خبر ہی کیوں نہ ہو۔

زمین کے علم کے مطابق، زمینی حالتیں انسان کے مزاج اور رویوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ جیومینسی کا علم، یورپ میں Protestant Reformation کے دوران متعارف ہوا تھا۔ اجتماعی شعور کی ارتقا، حقیقت پسندی اور صنعتی ترقی نے انسانوں کے اندر وجود اور ماحول کا شعور بیدار کیا۔ فینگ شوتی بھی جیومینسی کی ایک شاخ ہے، جو کہ چین میں پروان چڑھی۔

بعدمیں یہ رجحان یورپ میں مقبول ہوا تھا، جس کے مطابق انسانی قوت، مرکزی طاقت اور شفا کے ہنر کو دریافت کرنا شروع کیا۔ اس کی مثال گھروں کے اندر باغ (Lawn)ہے۔ لان ہمیں گھر کے مرکز کے قریب لے کر آتا ہے۔ فینگ شوئی کے مطابق زرخیز زمین پر گھر بنائے جانے چاہئیں۔ کیوں انسانی جلد ہی زمینی توانائی سے یکسانیت یا دوستی اختیار کر لیتا ہے۔ جب تک لوگوں اور زمین کے درمیاں طاقتور رشتہ پیدا نہیں ہوتا، وہ بیچین ہی رہتا ہے۔ جب کہ ریتیلی یا پھتریلی زمین پر بنے گھر مختلف ہوتے ہیں۔ ان گھروں میں رہنے والے لوگ زمین سے تعلق میں کمی کی بنا پر بیماریوں میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔ لہٰذہ کہا جاتا ہے کہ سبزے کی توانائی، دریاہ، سمندر، پہاڑاور خوبصورت مناظر کی قربت انسان کو ذہنی و جذباتی طور پر استحکام عطا کرتی ہے۔

جیوپیتھک اسٹریس کا حل یہ ڈھونڈا گیا کہ زندگی کو فطرت کے قریب لایا جائے۔ اس لئے ایسےگھروں میں فینگ شوئی چیزیں جیسے کہ انڈور پلانٹ، آئینے، ڈور بیلز کے ساتھ ہوا اور روشنی کے گزر کو بھی فعال بنایا جاتا ہے۔ کائنات میں توانائی کی لہروں (Vibrational Force) ہر وقت تحرک میں رہتی ہے۔ چاند، سورج، ستارے اور سیارے وقت کے پھیرے اور آسمانی قوتوں کے مظہر ہوتے ہیں۔ یہ کائناتی اثرات، زمین، نباتات اور انسانوں پر حاوی رہتے ہیں۔ اسی طرح زمین کے اندربرپا ہونے والے کیمیائی اثرات اور زیر زمین پانی کے بہاؤ بھی انسانی مزاج کو متاثر کرتے ہیں۔

گھر، ایک ایسی جگہ ہے، جس سے اپنے پن اور قربت کا انوکھا رشتہ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ گھروں کے اندر روشنی اور ہوا کا مناسب انتظام بھی وہاں موجود توانائی کی دھارا کو رستا فراہم کرتا ہے۔ کمرے کے ماحول سے ہم آہنگی پیدا نہ ہونا بے خوابی کا سبب ہونے کی ایک وجہہ ہو سکتا ہے۔

گھر ہو یا آفس، جب تک اس جگہ موجود توانائی سے انسان کا رابطہ نہیں جڑتا، وہ جگہ ذہنی و جسمانی بیماریوں کا سبب بنی رہتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ انسانی منفی سوچ کا اثر بھی ماحول پر پڑتا ہے، جس کی وجہ سے فینگ شوئی کے مطابق بنے گھروں میں دروازے اور کھڑکیوں کو کشادہ رکھا جاتا ہے۔ کھڑکیوں کو بھی آمنے سامنے ہونا چاہیے تاکہ انسانی منفی توانائی کو باہر نکلنے کا رستہ مل سکے۔ کوئی بھی منفی سوچ رکھنے والا انسان لوگوں کے درمیان بی چینی پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس طرح جگہوں میں قید منفی توانائی، مزاج اور صحت کو متاثر کرتی ہے۔ ایک باغ ہے اور ایک قبرستان ہے، دونوں جگہوں کی قوتی دھارا بلکل مختلف ہوتی ہے۔ باغ میں انسان کو ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے، جبکہ قبرستان میں وحشت کا احساس ہوتا ہے۔ ویسے ہی جنگ کے میدان ہوتے ہیں، جہاں ایک منفی قوت کا بہاؤ ذہن کو الجھا دیتا ہے۔ اگر کسی گھر میں خدانخواستہ قتل کی واردات ہوجاتی ہے یا کسی گھر میں جھگڑے وغیرہ عام طور پر ہوتے رہتے ہیں تو وہاں پر جیوپیتھک اسٹریس وقوع پذیر ہوتا ہے۔ جب تک جسم، روح اور ذہن میں وحدت پیدا نہیں ہوجاتی، تب تک انسان مثبت ماحول کے اثر سے غافل رہتا ہے۔ کسی بھی گھر یا جگہ پر ناخوشگوار حادثہ، واقعہ، نا اتفاقی یا جذباتی گھٹن کے اثرات موجود ہوں تو Space clearing Techniques (جگہ کو شفاف بنانے کے طریقے) جیسے حل ڈھونڈے جاتے ہیں۔

ماحول کو شفاف بنانے کی خاطر نمک کا چھڑکاؤ، موم بتیوں کا جلانا یا موسیقی کے ذریعے فضا کو صاف کیا جاتا ہے۔ ڈور بیلز کی ایجاد کابنیادی مقصد بھی یہی تھا۔ موسیقی ماحول کے منفی اثر کو منتشر کردیتی ہے۔ انسان کو جب محسوس ہونے لگے کہ اس کا گھر یا کوئی بھی ایسی جگہ جہاں اس کا وقت زیادہ گزرتا ہو اور وہ اس کی ذہنی و جسمانی صحت کے غیر موافق ہے تو اسے اس جگہ کو تبدیل کر لینا چاہیے۔ کیوں کہ اکثر ایسی تبدیلیوں کے اندر مثبت نتائج پوشیدہ ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کسی سبب ایسا کرنا ممکن نہیں ہیے تو جیوپیتھک اسٹریس پر قابو پانے کے لیے باغ میں وقت گذارنا چاہیے۔ جس سے ہر قسم کی ذہنی و جسمانی دباؤ سے نجات مل سکتی ہے۔ خوبصورت جگہوں کو فطری توانائی کے مراکز (Energy Power Centers) کہا جاتا ہے، اگر وہاں کچھ وقت گذارا جائے تو وہ بھی انسانی مزاج اور رویوں کے توازن کو برقرار رکھنے میں کافی مدد دیتے ہیں۔

باغ فطری توانائی کا مرکز ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں نہ ہونے کہ برابر ہیں۔ عام کاروباری ذہنیت والے لوگ پلازہ، شاپنگ سینٹرز اور ریسٹورنٹس کی تعمیر میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور باغات کی تعمیر کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔

ذہنی بیماریوں سے بچنے کے لیے یورپ نے تعمیری و روحانی مشغلے اپنائے جس میں چرچ جانا، خدمت خلق کے کاموں میں حصہ لینا، کتابیں پڑھنا اور باغبانی وغیرہ شامل ہیں۔ جنگ کے زمانے میں نفرت، تعصب اور خونی کھیل سے انھوں نے سبق سیکھا اور مہذب رویے اپنا لیے۔ امریکا کے مقابلے میں یورپ میں کچن گارڈنز زیادہ پائے جاتے ہیں۔ فرانسیسی کچن گارڈنز میں جڑی بوٹیوں کو اگاتے ہیں اور یہ روایت یونان اور روم سے چلی آ رہی ہے۔ یونان و روم کے باغات خوبصورت ترین ہیں جنھیں تصاویر، مجسموں، فواروں اور مچھلیوں کے تالاب سے سجایا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں ابھی تک کچن گارڈنز کی طرف دھیان نہیں دیا گیا، حالانکہ گھروں میں کافی جگہ ہونے کے باوجود لوگ اس صحت بخش مشغلے کی اہمیت کو سمجھ نہیں سکے۔ یہاں پر صورت حال یہ ہے کہ جراثیم کش ادویات کے استعمال کے فوراً بعد سبزیاں مارکیٹ میں لائی جاتی ہیں جو کہ صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ یورپ، امریکا، ایشیا اور چین و جاپان میں خاص طور پر گھر کے باغ میں جو سبزیاں اگائی جاتی ہیں وہ کیمیائی زہر کے مضر اثرات سے عاری ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان کے لوگ باغبانی کو روحانی مشغلہ سمجھتے ہیں، جو انھیں خوش اور چاق و چوبند رکھتا ہے۔ ۔

ان کے خیال میں زرخیز زمین کے پاس فطری توانائی کا بہاؤ انھیں صحت مند رکھتا ہے۔ وہاں پر میڈیٹیشن (مراقبہ) بھی فطرت کے قریب زیادہ پراثر سمجھا جاتا ہے۔ جس میں وہ اپنی سوچ کو پھول، سبزے، درختوں اور لہروں پر مرکوز کر کے ان سے تحرک حاصل کرتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق پودوں سے نکلنے والی پرسکون قوت انسان کو ذہنی دباؤ سے نجات دلاتی ہے۔ علاوہ ازیں ذہنی دباؤ اور تھکن سے نجات کے لیے Visualization Techniques بتائی جاتی ہیں جن میں فطرت کے خوبصورت مناظر کو تصور میں لاتے ہوئے احساس کو تازگی بخش کر اعتدال پر لایا جاتا ہے۔ اسی طرح سرسبز علاقوں میں پیدل چلنے کی مشقیں صحت افزا سمجھی جاتی ہیں۔

انسان نے دور جدید میں، زمین پر ہر طرح کے ظلم ڈھائے ہیں۔ جنگ و جدل، کیمیائی ہتھیار، بجلی کے آلات و دیگر مصنوعی طریقے اختیار کرکے اس حسین کرہ ارض کو خواھشات کا جہنم بنادیا ہے اور جلد ہی یہ آگ کی طرح دہکنے لگے گا۔ مگر اس سے بھی مھلک ذہنی آلودگی کا عذاب ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).