افغان عورتوں کی رومانی اور مزاحمتی شاعری


افغانستان میں عورتوں کی شاعری کبھی قابل قبول نہیں رہی۔ اِسے ماننا یا سراہنا یا اس کی حوصلہ افزائی کر نا تو بہت دور کی بات ٹہری یہ اُن کے لئے شجر ممنوعہ ہی نہیں اسے ایک جرم اور گناہ گردانا جاتا رہا ہے۔ یہ کوئی طالبان دور کی بات نہیں ایسا صدیوں سے ہو رہا ہے۔ حکومتی و ریاستی یا معاشرتی جبر تو رہا ایک طرف شاعرہ کے اپنے والدین اور عزیز و اقارب بھی اِس سلسلہ کی سب سے بڑی رکا وٹ شمار ہوتے تھے اور ابھی بھی ہیں۔

سوال ہے کہکبھی یا کہیں ریاستی جبر، پابندی اور سختی انسانی سوچ پر پہرے بٹھانے یا ان کے دھارے بدلنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ یقینا جواب نفی میں ہوگا۔ گٹھن خواہ گھریلو ماحول کی ہے، ریت اور رواجوں کی ہے یا ریاست کی۔ تخلیق کے سر چشموں کے بہاؤ کو کبھی کوئی بہنے سے روک نہیں سکا۔ ان کا اظہار ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ لفظ جونہی ذہنی گچھاؤں سے ذرا ہونٹو ں کی راہ سے باہر آئے۔ آپ ڈراور خوف کے پہروں میں اُنہیں جتنا مرضی قید کر لیں۔ وہ قید نہیں ہوں گے۔ انہیں ہوا کے جھونکوں کی طرح بکھرنا ہوتا ہے اور وہ بکھرتے ہیں۔ اِس حقیقت کی گواہی دینے کے لئے بّر صغیر کا ادب کیا دنیا کا ادب ڈھیروں ڈھیر مثالوں سے موجود ہے۔ اظہار کے راستوں پر کبھی بند نہیں باندھے گئے اور یہ کبھی نہیں رُکے۔

کہیں سینہ بہ سینہ، کہیں مُنہ سے مُنہ، کہیں کان سے کان تک زمانہ قدیم کی افغانی دیہاتی عورتوں نے اپنے اندر کے جذبات و احساسات، سماج کی نا انصافیوں اور ظالمانہ رویّوں، نا اسودہ جنسی جذبات و خواہشات کے اظہار کے راستے ڈھنڈ لئے تھے۔ مردانہ جبرکے تعّفن زدہ معاشرے نے انہیں اپنا ٹیلنٹ چھپانے کی ترغیب دی تھی۔ کہیں انہوں نے مردوں کانام استعمال کیا، کہیں اپنی شناخت پر پرد ہ ڈال دیا۔

شاعری کی ایک خاص صنف جو افغانی پختون روایت سے جڑی ہوئی ہے۔ جسے لینڈی Landai کام نام دیا گیاہے۔ پہلے پہل افغانی عورتوں نے شاعری کی اس صنف میں پناہ ڈھو نڈی۔ یہ نظم کی وہ قسم ہے جو دو شعروں پر مشتمل ہائیکو سے چھوٹی ہوتی ہے۔ اِسے پنجابیوں کے ٹپّوں سے بھی ملا سکتے ہیں۔

جنسی احساسات کی ترجمانی کرنے والی، ظلم جبر اور مذہبی تعصبات اِسکا ذریعہ اظہار ٹھہرے ہیں۔ عورتوں نے گمنامی کا سہارا لے کر اپنے جذبات کو اس میں ڈھالا اور اس نے سینہ بہ سینہ سفر کیا۔ افغانی ادب ایسی شاعری سے بھرا پڑا ہے۔ اِسے کن عورتوں نے تخلیق کیا؟ کون ا س کی خالق تھیں۔ کوئی نہیں جانتا۔ یہ راز اُن کے ساتھ ہی قبروں میں اُتر گیا ہے۔

ذرا دیکھیے۔ چشمے پر آؤ نا۔ پانی بھرتی ہوں وہاں۔ شوہرتو نہیں ہے یہاں۔
میرے عاشق کا نام میرے جسم پر لکھا ہو ا ہے
دھونا نہیں اِسے، کہیں غائب نہ ہو جائے۔

ذرا اور دیکھیے
کل تہوار ہے۔ نئے کپڑے سب نے پہنے ہیں
میں نے تو پرانے ہی پہنے ہیں
میرے محبوب کی خوشبو بھری ہے نا اُن میں

ایک اور نمونہ ملاحظہ کریں۔
رات خواب دیکھا۔ تم مرگئے تھے
صُبح میرے ہونٹ خشکی سے پھٹ گئے تھے۔

یہاں یہ بھی واضح نہیں ہوتا کہ وہ عورتیں جنہوں نے ایسی چیزیں تخلیق کیں واقعی اُ ن کے جنس مخالف سے مراسم تھے یا یہ محض ان کی ذہنی اپچ تھی۔ تاہم یہ ماننا پڑے گا کہ وہ جی دار عورتیں تھیں ایک ایسے ملک میں ایک ایسے معاشرے میں جہاں محبت پر پہرے بٹھانے کی ریت تھی۔ انہوں نے اِس کے خلاف جدوجہد کی۔

ہم مزید دیکھتے ہیں۔ قدیم افغان نسوانی تاریخ کی بے شمار اور بے مثل شاعرات میں سے ایک دلیر اور جی دار شاعرہ ربیعہ بلخی سامنے آتی ہے۔ اپنے نام اور پہچان کے ساتھ۔ افغانستان کے جنوبی حصّے کے ایک چھوٹے شہر قصدادی کے امیر ترین حکمران کی بیٹی جسے اپنے بھائی کے نوکر سے جو اُس کا بچپن کا ساتھی تھا محبت ہوگئی تھی۔ یہ ربیعہ کا بھائی تھا جس نے علم ہو جانے پر نوکروں سے کہا کہ اِسے باتھ روم میں بند کر کے اُس کی نسیں کاٹ دیں۔ جسم سے بہتے خون سے اُسنے دیواروں پر اپنے جذبات کو لکھا اور خود کو امر کر لیا۔ ذرا دیکھیے تو۔

تمہاری محبت نے تو مجھے جکڑ لیا ہے
اب بچنے کی کو شش لا حاصل ہے
محبت کا سمندر تو حدوں سے ماورا ہے
کوئی بھی عقلمند اس میں تیرنا تو نہیں چاہے گا

پر اگر تمہیں پیار کرنا ہے اس کے انجام تک
تو پھر وہ سب قبول کرنا ہوگا جسے پسند نہیں کیا جاتا ہے
مصیبتوں اور تکلیفوں کا ہنسی خوشی استقبال کرو
زہر پی جاؤ اور سمجھو تم نے شہد پیا ہے

تاریخ ایسی ہی داستانیں سناتے سناتے آگے بڑھتی ہے۔ نازیہ انجمن خوبصورت جواں سال شادی شدہ جو شاعرہ ہی نہیں صحافی بھی تھی۔ اپنے شوہر کے ہاتھوں قتل ہوتی ہے۔ اِس بے باک اظہار پر جو اُس کے شعروں کی صورت سامنے آیا۔ اور جس نے ایک ہیجان زدہ کیفیت کو جنم دیا۔

جب بہنیں اکٹھی بیٹھیں وہ ہمیشہ اپنے بھائیوں کے گُن گائیں۔
پر جب بھائی اکٹھے بیٹھیں وہ اپنی بہنوں کو بیچنے کی باتیں کریں۔

ذرا دیکھیے۔
بابا تم نے بیچ دیا مجھے۔ ایک بوڑھے آدمی کے ہاتھ۔
خدا تمہارا گھر تباہ کر دے۔ میں تمہاری بیٹی تھی

اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان عورتوں نے ابھی تک وہ آز ا دی حاصل نہیں کی جس کی اُن کے ملک کو ضرورت ہے۔ طالبان کا دور اُن کے لئے حد درجہ ذہنی اذیت اور کرب کا تھا۔ اُن کا خوف انہیں اپنے چہرے ڈھانپنے پر مجبور کرتا تھا۔ گرلز سکولوں پر پابندیاں انہیں بے کل رکھتی تھیں۔ یونیورسٹیوں میں داخلے سے روکنے پر وہ اضطراب اور گھٹن کا شکار تھیں۔ اُن کے مدرسے مسجدوں میں بدل گئے تھے۔ وویمن ٹیچرز کی تنخواہیں بند ہو گئی تھیں۔ اُن کے لٹریری حلقوں کے دروازے مقفل ہوگئے۔ لیکن کیا انہوں نے ایسے جبر کے ماحول میں جہاں آنکھ جھپکنے کے وقفے میں درجنوں لوگوں کو تڑ تڑ کرتی گولیوں سے بھون دیا جاتا تھا ہتھیار ڈال دیے؟

نہیں ایسی مسموم فضا میں بھی انہوں نے فکر و خیال کے نئے دیے جلائے رکھے۔ لٹریری حلقوں کے دروازوں کے باہر ”زنانہ سوزن طلائی“ کے بورڈ لٹکا دیے۔ اپنے اجسام پر طالبان کی مسلط کردہ یونیفارم جو ہلکے نیلے برقع کی صورت تھی پہن لی۔ بغیر ایڑی کے بھّدی وضع کے جوتے پاؤں میں ڈال لئے۔ ہاتھ میں پکڑے کروشیے کے تھیلوں میں قینچی، کپ۔ ڑا، سوئی دھاگہ، فریم تّلہ اور دبکے کے نیچے کاپی، قلم، کتاب، رسالہ چُھپا لئے او زندگی کے سنگ موت کو بھی ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہوئے ادبی مرکز میں داخل ہو جاتیں۔ یہاں آتے ہی اُن کے سروں سے برقعے اُتر جاتے، فرش پر بچھے گدّوں پر بیٹھ کر ممنوعہ مضامین یعنی ادبی تنقید، جمالیات اور فارسی شاعری پر اپنے استاد سے لیکچر سُنتیں۔ وہ شیکسپئر، جیمز جائس، ورڈذ ورتھ سے بھی متعارف ہوتیں۔

ذرا یہاں راحیلہ موسکا کے جذبات کا دلفریب اظہاریہ تو دیکھیے تم میرا قلم نہیں دیکھ سکتے میرا کاغذ بھی تمہاری نظروں سے اوجھل ہے برقعے کے نیچے میرے سینے میں چھپے ہوئے
میں افغان رائٹر ہوں
جسے آزادی کے گھر کی ضرورت ہے

افغانستان کی ابتر سیاسی حالت جس میں کسی اسلامی ملک نے طالبان کی انتہا پسندی کی مذمت میں ایک لفظ نہیں کہا۔ عورتوں کی تعلیم پر پابندی ان کے حقوق کی پامالی پر مجال ہے پاکستان سمیت مسلم دنیا نے کوئی مذمتی بیان جاری کیا ہو۔ ہاں ایران نے اپنا کر دار ضرور نبھایاہے۔ مگر افغانی عورت کی جّرات دیکھیے۔ اس کا اظہار سمیرا پوپلزئی کابل کی شاعرہ نے کس رنگ ڈھنگ سے کیا۔ دل ڈھیروں ڈھیر داد دینے کو چاہتا ہے۔

سیاست نے اپنے مہیب سایوں کے ساتھ
ایک بار پھر اپنا جھنڈا بلند کیا ہے
یہ تمہارے نوجوانوں کے خون سے رنگا ہوا

ظالمانہ انتہاؤں کو چھوتا ہوا
ہماری ہڈیوں کو چکنا چو ر کرتا ہوا
اور ہمیں مزید دھوکے دیتاہوا

راحیلہ یار جیسی شاعرہ جس کی شاعری کے تین مجموعے چھپ چکے ہیں۔ وہ کہتی ہے۔
کوئی دھماکوں کے لئے سامان لاتا ہے
کوئی خود کش بمبار ہے
کسی نے میری ووٹ ڈالنے والی انگلی کا ٹ دی ہے
خدایا کیاتم میر ے درد کی آواز نہیں سنو گے۔

طالبان کے روبہ زوال سے افغانی عورت کو حوصلہ ملا ہے۔ وہ اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کسی نہ کسی رنگ میں کر رہی ہے۔ آفرین ہے تم پر اے افغان عورت۔ اُس نے مذہب سے لے کر سماجی موضوعات سب پر قلم اٹھا یا ہے۔ قارینہ shabra اُن سپاہیوں بارے لکھتی ہے جو طالبان کے ساتھ ہیں۔ جنہوں نے بندوقیں اُٹھائیں۔

میں تمہیں پھر سپاہیوں کے روپ میں دیکھتی ہوں
اپنے ہی ملک میں، اپنے ہی لوگوں کے خلاف
تم تو مجھے گم شدہ ہوئے لگتے ہو۔

دا د دیجیئے افغان وویمنز رائٹنگ پروجیکٹ جیسی تنظیم کو جس نے عورتوں کو بہت حوصلہ، دلیری اورجُرات دی ہے۔ اِس نے کم عمر بچیوں کو لکھنے پر مائل کیا ہے۔
آسمان ابابیلوں کا گھر ہے۔ یہ افغانی لڑکیوں اور عورتوں کی شاعری، مضامین اور کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ ذرا پڑھیے۔
ایک کم عمر بچی کیسے اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہے۔

میں اپنا قلم لیتی ہوں لکھنے کے لئے۔ میں خوف زدہ ہو جاتی ہوں کہ کیا لکھوں او ر کس کے بارے میں لکھوں۔ پھر لکھنے لگتی ہوں وہ سب جو میرے اندر ہے۔ اس نے مجھے آواز دی حوصلہ دیا کہ میں اپنے دکھ درد لوگوں کے ساتھ شیئر کروں۔ اس نے مجھے افغان لکھاری کا ٹائٹل دیا۔
رویا کہتی ہے یہ افغان عورتوں کی آواز ہے جو کم کم سننے میں آتی ہے۔

یہ کہانیاں ہیں خون، ظلم، نا انصافی، آنسوؤں اور قہقہوں کی آزادی اور استحصال کی۔ سولہ سال کی لڑکی کا قتل اس کی ما ں کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ ایک پندرہ سالہ بچی کا اس کے بہنوئی کے ہاتھوں استحصال کی درد ناک داستان ہے۔ ایک شاعرہ اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہے۔ ایک عورت سکول کھولتی ہے گلی کے بچوں کے لئے۔ ہم برقعے کے پیچھے سے وہ کچھ سُنتے ہیں جو ہم نے کبھی نہیں سنا۔

افغان عورتوں کی آوازیں
مجھے دیکھو، مجھے نہ دیکھو
لیکن میں یہاں ہوں

بہر حال شب ِ تاریک اب سحر میں بدلنے والی ہے۔ انشاء اللہ سکولوں پر لگے قفل ٹوٹ رہے ہیں۔ ادبی مرکز زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔
ہرات ثقافتی، تمّدنی پس منظر اور تہذیبی ورثہ رکھنے والا شہر پانچ ہزار سال سے افغان تہذیب کا نمائندہ، علم و فن کا مر کز کہ جس کے بارے میں پندرہویں صدی کے عظیم شاعر علی شیر نوائی نے کہا تھا۔ ہرات علم سے بھرا ہوا ایسا شہر ہے کہ کوئی آدمی یہاں اس لئے ٹانگ نہیں پسار سکتا کہ وہ کہیں آگے بیٹھے شاعر کی پشت سے نہ ٹکرائے۔

یہ ملکہ گوہر شاد جیسی علم دوست کا شہر جس کے در دیواروں پر اگر آرٹ بکھرا ہو ا تھا تو علم و فن کے مظاہرے گھروں اور گلی کوچوں میں ہوتے تھے۔ بیٹھکوں میں ادبی نشستیں جمتی تھیں ویسے ہی پھر آباد ہوگا۔ طالبان کا وہ تاریک دور انشا ء اللہ اپنی موت آپ مر جائے گا۔

تخلیق کے وہ دیے جو عورتوں نے جلائے، مزید جلیں گے۔ آفرین ہے تم پر اے افغان عورت۔ افغان عورت تو سلامت رہے اور جی داری کا جھنڈا لہراتی رہے اپنے حق کے لئے آواز اٹھاتی اور لڑتی رہے تاآنکہ تو کامیاب ہو جائے۔ آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).