غریب بچے جن رہا ہے یا غلام


بس غلاموں کی منڈیاں نہیں لگ رہیں، ورنہ کمسن غلاموں اور لونڈیوں کی خریدوفروخت آج بھی جاری ہے۔ جہاں چند ٹکوں کے عوض ان کی زندگیاں خرید لی جاتی ہیں ان کے جسم پر حکومت کرکے آقا بننے کے شوقین نفسیاتی مریض خوراک کے نام پر چند ٹکڑے ان کے سامنے پھینکتے ہیں۔ اپنی تمام حاجات بشمول جنسی خواہشات بھی ان ننھے غلاموں سے پوری کی جاتی ہیں۔ اور یہ خواہش صرف مرد نہیں عورت کا روپ لئے ڈائنیں بھی پوری کرواتی ہیں۔ لیکن حرفِ شکایت کیسے زبان پر لایا جائے کہ ان معصوم غلاموں کے نزدیک زندگی شاید اسی کا نام ہے شدید غربت کا شکار والدین بچے نہیں طبقہ امراء کے لیے غلام پیدا کر رہے ہیں۔

جانے اس کا قصور کیا تھا، کم سن ہونا، کم زور ہونا، غریب ہونا یا ملازم ہونا۔ شاید معاملہ قصور یا خطا کا نہیں، مسئلہ اندھی طاقت کا ہے، المیہ قانون کی بے بسی، بے حسی، بے کسی اور بے چارگی کا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے دیس میں زورآور کو مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ کم زور کے ساتھ جو چاہے سلوک کرجائے۔ اس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔

پنجاب کے پر سکون شہر سمندری سے تعلق رکھنے والی11 سالہ کنزہ ہوش سنبھالنے کے بعد سے اس احساس سے ناواقف ہے کہ آخر سکون کہتے کسے ہیں۔ اس کے ننھے ذہن میں یہ تصور پختہ ہوچکا ہے کہ زندگی اسی کا نام ہے جس میں اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جاتا ہے جیسا سڑکوں پر پلتے لاوارث جانوروں سے، کنزہ اتنی تکلیفیں برداشت کرچکی ہے کہ وہ یہ تمیز ہی نہیں کرسکتی کہ جسم پر چوٹ نہ ہو تو کیا جسم خوبصورت ہوسکتا ہے؟ اسے اپنے جسم پر پڑے نشانات اس کی خوبصورتی معلوم ہوتے ہیں۔

کنزہ ایک ”معزز پڑھے لکھے“ گھرانے میں بچوں کو سنبھالنے کا کام کرتی تھی۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ گھر ایسے طبیبوں کا گھر تھا جو ایک معصوم کی خواہشات کا کلیجہ ہر ہر روز چباتے تھے۔ یہ طبیب ہر شام لوہے کی سلاخ سے اس کے جسم پر وار کرتے اور زخم دیکھ کر اپنے وجود میں چھپے درندے کو خوش کرتے۔

غریب والدین یہ سوچ کر اپنے بچوں کو امیر گھرانوں کے یہاں گھریلو ملازم کے طور پر بھیج دیتے ہیں کہ کسی ورک شاپ، ہوٹل، کارخانے یا بھٹے پر کام کرنے کی بہ نسبت کسی گھر میں جھاڑو پوچا کرنا، کھانا پکانا، برتن دھونا اور دیگر کام کرنا آسان ہوتا ہے، انھیں کیا معلوم کہ ان کے معصوم بچے اونچے اونچے محلوں کی چاردیواری میں کیا کچھ سہتے ہیں، کیا کچھ برداشت کرتے ہیں، جہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا کہ ان چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے۔ دولت اور طاقت کے غرور میں مدہوش لوگ ان بچوں کو زرخرید غلام سمجھتے ہوئے ذراذرا سی بات پر انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے، جس کے نتیجے میں ہلاکتیں بھی ہوتی ہیں، لیکن معصوم بچوں پر ظلم ڈھانے والے اور ان کی جان لینے والے دولت کا سہارا لے کر بچ جاتے ہیں۔

کسی کمسن گھریلو ملازم پر بے رحمانہ تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ ہر کچھ عرصے بعد کوئی ایسا واقعہ سامنے آتا ہے اور پھر وقت کی دھول میں کھوجاتا ہے۔ تیرہ سالہ اختر علی کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس سے وہ زخموں کی تاب نا لاکر اس دنیا کی بدصورتی سے ہمیشہ کے لئے منہ موڑ گیا۔ اس کے ساتھ اس کی بہن عطیہ بھی مستقل تشدد کا نشانہ بنتی رہی۔

کبھی طیبہ کا درد ناک قصہ سامنے آتا ہے جس میں اسے کتنے ہی سالوں تک قید میں رکھ کر غیرانسانی سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔ ایسے واقعات تواتر کے ساتھ سامنے آتے رہے ہیں۔ کبھی کوئی بچی ستم کا نشانہ بنی تو کبھی کوئی بچہ ظلم کا شکار ہوا۔ یہ تو وہ کیسز ہیں جو سامنے آگئے ہیں۔ کنزہ اور ایسے ہی دیگر بچوں کی کہانی ہمارے ملک میں پھیلے غربت وافلاس کی کہانی سی جُڑی ہے، دوسری طرف ہمارے یہاں طاقت وروں کی من مانی کے خوف ناک چلن کی داستانیں بھری ہوئی ہیں۔

معاملہ امیر اور غریب، باعزت اور عزت نفس سے محروم سمجھے جانے والے طبقے اور کم زور اور زورآور کے درمیان ہے، اس لیے قانون اندھا ہوگیا اور اس کے لمبے ہاتھ ٹوٹ کر گلے کا ہار بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ملزمہ میجر عمارہ ریاض کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ اس معاملے کے سامنے آنے کے بعد سے ملزمہ میجر عمارہ ریاض پراسرار طور پر غائب ہے، جب کہ مقامی عدالت نے ملزمہ کے خاوند ڈاکٹر محسن ریاض کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کر لی ہے۔ رہی حکومت تو وہ بڑے بڑے منصوبوں او دیوہیکل مسائل میں الجھی ہے، اس کے پاس ایک چھوٹی سی بچی کے جسم اور روح پر آنے والے زخموں پر توجہ دینے کی فرصت کہاں۔ اگر سوشل میڈیا پر کنزہ کا کیس سامنے نہ آتا تو تشدد کا یہ معاملہ وقت کے غبار میں کھوچکا ہوتا اور میڈیا سمیت ہر ایک اسے بھول چکا ہوتا، بس اس کمسن بچی کے معصوم دل میں یہ سانحہ جلتا سلگتا رہتا۔

غربت میں زندگی کرتے ہمارے اپنے بچے تعلیم، عزت نفس اور تحفظ سے محروم ہیں۔ یہ بچے شہروں اور دیہات میں آباد افلاس زدہ گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ جنگل کے اندھیرے کی طرح مسلط بھیانک افلاس کے ساتھ بے روزگاری، بیماری اور دیگر مسائل ان گھرانوں کی قسمت بنے رہتے ہیں۔ ان حالات کا شکار والدین کے لیے جینے کا واحد راستہ یہ ہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں سے محنت مزدوری کروائیں۔

چناں چہ ماں باپ کی یہ مجبوری کہیں کسی ورکشاپ پر کام کرتے اور سیاہی میں لتھڑے ”چھوٹے“ کی صورت میں نظر آتی ہے تو کہیں کسی ہوٹل پر چائے اور کھانا لاتے اور برتن دھوتے کم عمر بچے کی شکل میں دکھائی دیتی ہے، کبھی یہ اینٹوں کے کسی بھٹے پر مشقت کرتے بچوں کی صورت میں دکھائی دیتی ہے تو کبھی کسی قالین بنانے کے کارخانے میں محنت کرتے ننھے مُنے ہاتھوں کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ غربت کی یہ فصل دولت مندوں کے لیے بڑی سودمند ثابت ہوتی ہے، اس کی وجہ سے مال دار افراد کو نہ صرف نہایت سستے مزدور بچوں کی صورت میں ہاتھ آتے ہیں بل کہ انھیں گھریلو ملازم کے طور پر بھی بہت کم معاوضے پر پورے پورے دن کے لیے اور ہر کام کے لیے بچے میسر آجاتے ہیں۔

اسی طرح بچوں پر تشدد کی بات کی جائے تو اسکولوں میں ذرا ذرا سی غلطیوں پر چھوٹے چھوٹے بچوں کو بے دردری سے مارنے پیٹنے کے واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں۔ تشدد بچے کے صرف جسم ہی کو مجروح نہیں کرتا بل کہ اس سے بھی بڑھ کر ستم یہ ہے کہ یہ اس کی روح کو ہمیشہ کے لیے گھائل کردیتا ہے اور وہ عزت نفس سے محروم ہوجاتا ہے۔ عزت نفس سے محروم فرد کسی بھی برائی کسی بھی جرم کی طرف جاسکتا ہے۔ مہذب ممالک اور معاشروں میں یہ حق والدین کو بھی حاصل نہیں کہ وہ بچوں کو تشدد کا نشانہ بنائیں، مگر ہمارے یہاں افلاس کا شکار بہت سے بچوں کا کوئی والی وارث نہیں، انھیں اپنی اولاد کہنے والے بھی نہیں۔

کنزہ کیس نے بچوں پر تشدد اور گھریلو ملازمین کے حوالے سے قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کی ضرورت کو دوچند کردیا ہے، ساتھ ہی کام کرنے والوں اور خاص کر گھریلو ملازمین کی عمر کے تعین کی ضرورت کو ایک بار پھر اجاگر کردیا ہے۔ کاش ہماری سیاسی جماعتیں اس اہم مسئلے پر توجہ دیں، کاش یہ معاشرہ کنزہ کے درد کو محسوس کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).