اسلامی جمعیت نے مجھ پر تشدد نہیں کیا


درویش گریجویشن کی تعلیم کے لئے گورنمنٹ کالج لاہور پہنچا۔ آوارہ خیالی کی کہانیاں گوجرانوالہ سے لاہور پہنچ چکی تھیں۔ مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے۔ جوانی میں کچھ گرم جوشی اور بہت سی نادانی ہوتی ہے۔ گورنمنٹ کالج ایک ٹیلے پر تعمیر کیا گیا معبد ہے۔ درویش اسے ودیا سر پکارتا ہے۔ یہاں سے کچھ میل دور امرت کا تالاب تھا۔ اسے امرت سر کہتے تھے۔ امرتسر اب بہت دور چلا گیا ہے۔ ودیا سر لاہور کے حصے میں آیا۔ 140 برس پہلے لاہور شہر سے باہر ایک ٹیلہ کاٹ کر وہ سڑک نکالی گئی جسے اب لوئر مال کہتے ہیں۔ ٹیلے پر ایک طرف ضلع کچہری اور دوسری طرف کالج بنایا گیا۔ غیر ملکی حکمران انگریز ہماری بھلائی کے لئے اس طرح کی چائنا کٹنگ کرتا تھا۔ پھر ہم نے قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان بنا لیا جہاں ہم نے خود مختاری کے جذبے سے ٹیلوں پر قبضہ کرنے اور سرکاری اراضی کی آزادانہ چائنا کٹنگ کے فن کو نئی جہتیں عطا کیں۔

گورنمنٹ کالج 1864 میں قائم ہوا۔ یہ عمارت کوئی پندرہ برس بعد تعمیر کی گئی۔ علم کے اس دوارے سے ہر برس پانی کے چھوٹے چھوٹے ان گنت دھارے ڈھلوان کے رخ بہتے ہوئے لاہور کو سیراب کرتے ہیں، پاکستان کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں۔ پانی کے کچھ ٹھنڈے میٹھے دھارے موج اڑاتے دنیا کے دوسرے کناروں تک پہنچ جاتے ہیں، امریکا کی درس گاہوں میں علم بانٹتے ہیں، فن لینڈ کی سردی میں زندگی دینے والی دھوپ بن جاتے ہیں۔ سعودی عرب میں وہاں بھی زندگی کا نشان بن جاتے ہیں جہاں ریل کی پٹڑی بھی نہیں پہنچتی۔ ودیا سر کا فیض عام ہے۔

گورنمنٹ کالج کے مینار سے ڈھلوان کے رخ چلنا شروع کریں تو بائیں ہاتھ پرنسپل کا کمرہ اور محبت کرنے والوں کا کنج نظر آتے ہیں، دائیں ہاتھ اوول کا میدان ہے۔ بڑے دروازے تک پہنچیں تو شہر کا جنگل نظر آتا ہے۔ اس جنگل میں دو راستے نکلتے ہیں۔ آپ کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کے سامنے سے گزرتے ہوئےزمزمہ توپ تک آ جائیں۔ یہاں بہت سے کبوتر نظر آتے ہیں۔ آپ بھی ایلفرڈ وولنر کے مجسمے کے پیروں میں بیٹھ جائیے۔ یہاں سے جامعہ پنجاب کا گھڑیال نظر آتا ہے۔ اس گھڑیال کی سوئیاں مدت سے ساڑھے چار پر ٹھہر چکی ہیں۔ اگر آپ نے دوسرا راستہ لیا تو فاصلہ ایک جیسا ہے مگر آپ پیسہ اخبار کی گلی کے سامنے سے عورتوں اور مردوں کے ایک سمندر سے گزرتے ہوئے نیلا گنبد آ پہنچے۔ یہاں مریم مقدس کا ایک بہت پرانا گرجا بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک مدت سے ہم نے گرجا گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے اندر کی نیکی کو آنکھ سے جھانکنے کی اجازت نہیں دی۔ معلوم نہیں کہ نیکی مسجد، مندر اور گرجا کی عمارت میں ہوتی ہے یا عبادت کرنے والوں کے دلوں میں جنم لیتی ہے۔

رابرٹ فراسٹ نے لکھا تھا کہ جنگل سے دو راستے نکلتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج کے بڑے دروازے سے بھی دو راستے نکلتے ہیں۔ ایک نیلا گنبد کی طرف نکلتا ہے اور ایک استاد وولنر کے قدموں تک لے آتا ہے۔ 36 برس قبل درویش یہاں پڑھنے پہنچا اور اس در سے ہر طرح کی خوش نصیبی پائی۔

حرم میں آ ہی نکلے ہیں تو فانی

یہ کیا کہیے کہ نیت تھی کہاں کی

یہاں درویش نے ڈاکٹر نذیر سے ہاتھ ملایا۔ یہاں آر اے خان کی زیارت نصیب ہوئی۔ فٹ پاتھ سے کتابیں خرید کر چلا آ رہا تھا۔ آر اے خان صاحب سامنے سے نکلے۔ دریافت کیا کہ کون سی کتابیں خریدی ہیں۔ کیمبل جانسن کی کتاب ”مشن ود ماؤنٹ بیٹن” تھی۔ اس کتاب کا ذکر ہفتہ بھر پہلے خان صاحب نے کیا تھا اور کچھ تفصیل بھی ارزاں کی تھی۔ خوش ہوئے کہ طالب علم استاد کی بات دھیان سے سنتا ہے۔دوسری کتاب دیکھی۔ ہیرلڈ رابنز کا ناول تھا۔ وہی سستا فکشن جس میں ہر چند صفحے کے بعد ایک جنسی منظر درج ہوتا ہے۔ خان صاحب نے دونوں کتابیں دیکھ کر واپس تھما دیں۔ استاد جانتے تھے کہ جنگل سے دو راستے نکلتے ہیں۔

گورنمنٹ کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ موجود تھی۔ محمد فہیم اس کا لیڈر تھا۔ اٹھارہ برس کی عمر میں شیر پاؤ پل پر موٹر سائیکل کے حادثے میں مر گیا۔بہت بڑا دماغ تھا۔ اگر جیتا تو بہت روشنی دیتا۔ دولت تھی، ہاتھ سے نکل گئی۔ محمد فہیم خوبصورت تھا۔ خوش لباس تھا۔ درویش ان گھڑ دیہاتی تھا۔ اچھا لباس خریدنے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ ذوق بھی نہیں تھا۔ محمد فہیم سٹوڈنٹ یونین کے الیکشن میں اسلامی جمعیت طلبہ کا امیدوار تھا۔ درویش انسانی جمعیت طلبہ سے تعلق رکھتا تھا۔ فہیم شائستگی سے اختلاف کرتا تھا۔ میری اقبال حیدر بٹ سے دوستی تھی۔ اقبال حیدر میں خوئے دل نوازی تھی۔ قصور سے آنے والا سادہ مگر ذہین دوست چوہدری اکرم تھا۔ کچھ بھکر، میانوالی کے اہل سادات تھے۔ کچھ ٹوانے تھے۔ گجرات کے لالی تھے۔ کچھ دوسرے سیاسی گھرانوں کے بیٹے تھے۔

صحافت میں اب ناصر اقبال اور عامر متین کا بڑا نام ہے۔ یہ درویش کے ہم جماعت تھے۔ یہ سب اچھے لوگ اسلام پسند تھے یا ترقی پسند تھے مگر بنیادی طور پر پڑھے لکھے اور شریف لوگ تھے ۔ درویش کو اس ہتھ جوڑی میں مزہ نہیں آیا۔ جامعہ پنجاب کے گھڑیال میں ساڑھے چار کا استعارہ استاذی رضی عابدی سے درویش تک پہنچا تھا۔ یہ زوالِ عصر کا وقت تھا۔ اطلاع یہ تھی کہ جامعہ پنجاب میں جمعیت تشدد کرتی ہے۔ مار کٹائی کے منظر ہوتے ہیں۔ لڑکیوں سے بات نہیں کرنے دی جاتی۔ درسگاہ میں اساتذہ خوف زدہ رہتے ہیں۔ درویش نے علم کے مدینہ سے مکہ کے کفر کی طرف ہجرت کا فیصلہ کیا۔ فیصلہ ہوا کہ پنجاب یونیورسٹی چلو۔ لڑنا نہیں آتا سو مار کھائیں گے، اس میں ثواب ہو گا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2