پاکستان، سعودی عرب کو جواب میں کیا دے گا؟


میں بین الاقوامی تعلقات کی پیچیدگیوں کا ماہر نہیں اور نہ ہی میں ان گھمن گھیریوں کا پریکٹیشنر ہوں۔ بہت ہوا تو اک طالب علم ہوں اور اپنے سے زیادہ علم رکھنے اور جاننے والوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا اپنا فخر سمجھتا ہوں۔ بین الاقوامی تعلقات کی پیچیدگیوں کا بہت ہوا تو میرا علم ان کتابوں کے مطالعہ پر مشتمل ہوتا ہے جنوبی ایشیا، بشمول افغانستان، کی سیاست اور تاریخ پر لکھی گئی ہوتی ہیں۔

اب دیکھیے نا کہ کیا ہی عجب سادگی ہے خادم کی کہ نوجوانی کے غلط العام میں گزارے سارے سال اس بات پر بینیظر بھٹو اور چوہدری اعتزاز احسن کو گالیاں دیتے آیا کہ پاکستان جو کشمیر حاصل کرنے سے صرف “دو انچ” کی دوری پر تھا۔ اور اسلام آباد کے ڈھوکری چوک پر موجود اک کتبہ ہٹانے، جس پر “سرینگر 150 کلومیٹر” لکھا ہوا تھا، کی وجہ سے کشمیر آزاد نہ کروا سکا۔ یہ کتبہ، بقول بزرجمہران، مبینہ طور پر بی بی شہید نے جناب راجیو گاندھی کے پاکستان دورہ کے دوران ہٹایا تھا کہ جیسے وہ اردو پڑھ سکتے تھے۔

پھر اسی طرح جناب اعتزاز احسن نے 3،000 سکھوں کی فہرست ہندوستان کے حوالے کی، جس کی وجہ سے مشرقی پنجاب، خالصتان نہ بن پایا۔

دونوں معاملات میں تو کہیں بہت بعد میں جا کر معلوم ہوا کہ کشمیر، ہندوستان، ایران، افغانستان، چین، امریکہ اور سعودی عرب کے معاملہ پر الیکٹڈ، یا سیلیکٹڈ وزرائے اعظم کا اختیار اتنا ہی ہے، جتنا اختیار میرا نظامِ شمسی میں گھومنے والی زمین کی گردش پر ہے۔ اور پھر جناب دِیلیپ ہِیرو کی کتاب، دا لانگیسٹ آگست (2015)، میں یہ درج ہے کہ سکھوں کی لسٹیں، محترم جناب حمید گل صاحب نے اپنے ہندوستانی ہم منصب کے حوالے کیں اور بدلے میں ہندوستان کی جانب سے پاکستان میں کروائی جانے والی شورش پر رعائتیں چاہیں۔ دونوں اہلکاروں اور ممالک نے اپنے اپنے مفاد کے تحت، افراد کی بلی چڑھائی۔

دی سپائی کرانیکلز تو کل کی بات ہے۔

قسم سے میں تنقید نہیں کر رہا۔ میری مجال جناب؟ میں مانتا ہوں کہ میں اک بزدل اور ڈرپوک شخص ہوں۔

میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ بین الاقوامی تعلقات کی گھمن گھیریاں دِکھنے میں “سجی” لگتی ہیں، مگر اپنی اصلیت کی بنیاد پر برآمد ہو جانے والے نتائج میں یہ “کھبی” مارتی ہیں۔

میرا بےچارہ وطن، پاکستان، جس کی دنیا میں اصل پوزیشن اور سماجی و معاشی ترقی کے اعشارئیے ان ممالک میں جا کر اک لطیفہ ہی محسوس ہوتے ہیں جو پاکستان کے ساتھ یا بعد میں آزاد ہوئے تھے، اور کہاں سے کہاں جا پہنچے۔ چین، کوریا، ملایشیا، سنگاپور، عرب امارات وغیرہ چند مثالیں ہیں۔ کبھی یہ لوگ ہمارے ہاں ملازمتوں کے لیے آیا کرتے تھے، اب ہمارے اقبالی شاہیں ڈنکیاں لگا کر وہاں جاتے ہیں اور اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ وہاں جا پہنچے ہیں۔

اور ہم؟

ہم سجیوں اور کھبیوں میں ہی پھنسے رہے۔

سیٹو ہو، سینٹو ہو، عرب-اسرائیل جنگ ہو، انڈیا-چائنہ جنگ کے دروان کشمیر پر فیصلہ کن چڑھائی کا اک موقع ہو، افغان “جہاد” ہو یا پھر آج کل چلنے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ، کیا وجہ ہے کہ میرے ملک نے ہمیشہ گھاٹے کا سودا ہی کیا؟ ہزاروں لاکھوں قتل ہو گئے، اربوں ڈالر اور کھربوں روپوں کا نقصان ہو گیا، میرے وطن کا پاسپورٹ دنیا کا تیسرا بدترین پاسپورٹ بن گیا، پاکستان کے بارے میں جو خبر جب بھی کہیں بین الاقوامی میڈیا پر چلی، بیشتر منفی ہی چلی، پاکستانی ہونا اور عام شہری کا پاکستانی پاسپورٹ پر بیرون پاکستان سفر کرنا شرمندگی کا سبب بن گیا۔ شام کا پاسپورٹ پاکستانی پاسپورٹ سے بہتر ہے۔

کیوں؟

کیوں میری ریاست، میرا وطن، میرا معاشرہ اور میرے لوگ بےوزن ہو گئے، بے قیمت ہو گئے اور بےعزت ہو گئے؟ کیوں؟ اور میری ریاست، میرے وطن اور میرے لوگوں کو بقول قدرت اللہ شہاب “ذلت کے گڑھے کے کنارے” پر لا کھڑا کرنے کے فیصلے کرنے والوں میں سے ننانوے فیصدی لوگوں کے خاندان اور نسلیں کہیں دور دیسوں میں جا بسے یا پھر مشروب ساز فیکٹریاں لگا کر، تحریک انصاف میں شامل ہو کر پاک صاف ہو گئے؟

تحریک انصاف کے یار دوست جو پچھلے کئی ہفتوں سے مونہہ اور سر چھپائے چھپائے پھر رہے تھے، کل سے پھر بازو لہرا لہرا کر نعرے مار رہے ہیں۔ کیونکہ ہمارے خوددار، اور قرض یا بھیک مانگنے پر خودکشی کی خواہش رکھنے والے “ہینڈسم” وزیراعظم سعودی عرب سے دائروں کے اندر دائرے رکھنے والی ڈیل کے تحت: تین ارب ڈالر لا رہے ہیں، چھ لا رہے ہیں، نو لا رہے ہیں، نہیں بارہ لا رہے ہیں، ڈیڑھ واپس کرنے ہیں، نہیں، ساڑھے تین واپس کرنے ہیں وغیرہ وغیرہ کی اک بےکار خوشی ہے جس پر بنیاد کرتی ہوئی بحث، بہت ہوا تو اخروٹ کا چھلکا ہے۔

اخروٹ کا مغز کیا ہے؟

پاکستان، جواب میں سعودی عرب کو کیا سہولتیں اور خدمات مہیا کرے گا؟ کون جانتا ہے؟

عرب اور عجم کی باہمی کشمکش نے پچھلے چالیس برس میرے ملک میں اپنے اپنے مرضی کے مسالک کی اخلاقی، سفارتی اور مالی مدد کی جس کی وجہ سے مسلسل شورش رہی۔ انہوں نے پاکستان میں اپنے اثر کو بڑھانے کے لیے ایسے لوگوں سے بھی روابط رکھے جن کے لکھے،کہے اور کیے ہوئے پر میرے بھائی، بیٹے اور بچے قتل کر دئیے گئے۔ درجنوں نہیں ہزاروں۔ کہنے کو یہ پاکستان کے برادر اسلامی ممالک ہیں، مگر اپنے اپنے علاقائی مفاد کے تحت ان کے سامنے پاکستان کی حیثیت اک طفیلی کلائینٹ ریاست اور پاکستانیوں کی حیثیت صرف کر دئیے جانے والی اشیاء کے برابر ہی رہی۔

میں نے اپنی ہوش کے بالکل اوائل سے ہی انجمن سپاہِ صحابہ (لشکرِ جھنگوی) اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ (سپاہ محمد) کی باہمی چپلقش میں مساجد اور امام بارگاہوں میں درجنوں قتل ہوتے ہوئے بھی پاکستان میں دیکھے ہیں۔ کیا میری گزاری ہوئی زندگی کا Repeat  مجھ سے اگلی دو نسلیں بھی دیکھیں گی؟ کیوں؟ بنیادی اندازے کے لیے آپ مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کی یہ رپورٹ دیکھ لیجیے

: http://www.mei.edu/content/map/saudi-iran-factor-pakistan-s-sunni-shia-conflict

آپ تین، چھ، نو، بارہ ارب وغیرہ لے کر تو آ رہے ہیں، جواب میں کیا دیجیے گا؟ اور جواب میں جو دیجیے گا، اس سے میرے وطن کو طویل مدت میں کیا ملے گا: خوشحالی یا خون؟ پاکستانیوں کے خون پر ہی فیصلہ سازوں، ان کے خاندانوں اور ان کے بچوں کی خوشحالی کیوں بنیاد کرتی چلی آئی ہے؟ کیا یہ سلسلہ پھر سے جاری ہو جائے گا؟

میرے وطن اور میرے لوگوں کا کیا قصور ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).