خاشقجی کے بیٹے اور بھائی سے شاہی تعزیت کی تصویر


تصویریں بولتی ہیں، مگر یہ عکس تو چیخ رہا ہے، سینے میں دبی اور گھٹی ہوئی چیخ، جسے سینہ خانے کی بند دیواروں ہی میں مرجانا ہے، دھڑکنوں کا سلسلہ جاری اور سانسوں کا ردھم سلامت رکھنا ہو تو ایسی چیخوں کو حلق کنارے ہی مار دینا پڑتا ہے، جیسے ناجائز بچے پیٹ میں مار دیے جاتے ہیں، پھر ایسی چیخیں تو ان سے بڑھ کر حرام قرار پاتی ہیں، جو جنم لے لیں تو وقت کے کچرادان میں مرُدہ حالت میں پڑی ملتی ہیں، اور کچھ کے تو یوں ٹکڑے کیے جاتے ہیں کہ ملتی ہیں نہیں۔

یہ منظر ریاض کے چمکتے دمکتے عالی شان شاہی محل میں کیمرے سے نکلتی روشنی کی گرفت میں آیا۔ بے جان کیمرا تو کجا اسے استعمال کرتا فوٹو گرافر بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ دو افراد کا مصافحہ نہیں عہدحاضر کی پوری نئی الف لیلہ تصویر کر رہا ہے۔ وہ چینی کہاوت مات کھا گئی کہ ایک تصویر ہزار الفاظ پر بھاری ہوتی ہے، یہ عکس تو پوری داستان کہہ گیا۔

بادشاہوں کی رحم دلی اور رعایا پروری کے قصے تو بہت سُنے تھے، مگر صاحب آج اس تصویر کی صورت دیکھ بھی لیے، جان بھی لیے اور مان بھی لیے۔ اور یہ حکایت تو ان سارے قصوں پر بازی لے گئی۔ یہ تصویر سامنے نہ آتی تو کون یقین کرتا کہ سعودی عرب کا بادشاہ اور اس کا شاہ سے زیادہ شاہ ولی عہد ایسا درد بھرا دل رکھتے ہیں کہ اپنی مملکت کے ایک مقتول صحافی جمال خاشقجی کے بیٹے اور بھائی کو محل میں بُلا کر ان سے تعزیت کی۔ کیا اخلاق ہے، کیا عجزوانکساری ہے۔ قربان جائیے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ تعزیت کے لیے مرنے والے کے لواحقین کے پاس جایا جاتا ہے، انھیں بُلایا نہیں جاتا۔ کتنی فضول سوچ ہے آپ کی، کیا یہ کم ہے کہ بادشاہ سلامت اور ان کے شہزادے نے یمن سے شام تک پھیلے بکھیڑوں، خاشقجی کے قتل پر روٹھے امریکیوں کو منانے رجھانے کی کاوشوں، قاتلوں کے کُھرے ڈھونڈتے اور دنیا کو دکھاتے طیب اردگان سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف ہونے کے باوجود وقت نکالا اور جمال خاشقجی کے بیٹے اور بھائی کو غالباً اس طرح کا فرمان بھیج کر تعزیت کے لیے مدعو کیا، مَلِکِ معظم اور محترم ولی عہد تم سے تمھارے والد کی وفات پر ہم دردی کرنا چاہتے ہیں، حاضر ہو کر تعزیت وصول کرو، وقت کا خیال رکھنا، وقت کو شاہی خاندان کا بُرا وقت سمجھ کر کہیں کچھ بَک مت دینا۔

خیر، جمال خاشقجی کا بیٹا صالح اور بھائی ساحل تعزیت وصول کرنے محل میں حاضر ہوئے۔ اس موقع پر لی گئی تصویر میں ولی عہد محمد بن سلمان مقتول کے فرزند صالح سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ دونوں کے ہاتھ دیکھ کر صاف لگتا ہے کہ سعودی شہزادہ امورمملکت کی طرح یتیم لڑکے کا ہاتھ گرفت میں لیے ہوئے ہے اور صالح کراہیت کے ساتھ مجبوراً ہاتھ ملا رہا ہے۔ جس ہاتھ سے باپ کے خون کی بو آرہی ہو اسے ہاتھ میں لینا کتنا مشکل ہوتا ہے، یہ تصویر بتارہی ہے۔

محمد بن سلمان کے چہرے اور آنکھوں کو غور سے دیکھیے۔ کوئی دل داری کی رمق، ہم دردی کی جھلک، شفقت کی کوئی ننھی سی کرن، قُربت کا احساس دیتی مسکراہٹ، دُکھ کا دکھاوا ہی سہیکچھ بھی نہیں، سفاک اور سپاٹ چہرہ، بھنچے ہوئے ہونٹ اور آنکھوں میں خوف اُتارتی آنکھیں، جن میں زبان بند رکھنے کا خاموش پیغام ہے۔ دوسری طرف صالح کا چہرہ مجبوری اور بے بسی کی مکمل عکاسی کر رہا ہے، چہرے کو جذبات سے عاری کرنے کی کوشش احساس کی ترجمانی میں ڈھل گئی ہے، ہونٹ یوں بند ہیں جیسے آواز کو بھینچ لیا گیا ہو، لیکن ہر مصلحت کو پاوں کی ٹھوکر پر رکھنے والا غصہ آنکھوں میں بول پڑا ہے، مگر بہت دھیمے لہجے میں، ان آنکھوں میں ایک سوال لہریں مار رہا ہے کیوں کیا ایسا؟ ایک شکایت لاوہ بنی ہوئی ہے کم ازکم لاش تو سالم رہنے دیتے۔

یہ خبر اور قصر شاہی میں تعزیت عطا کرنے کی چند سطری خبر یہ تفصیل نہیں بتاتی کہ فریقین میں کیا گفتگو ہوئی، شاید اس طرح کا مکالمہ ہوا ہوگا:
شاہ سلمان: آپ کے والد اور بھائی کی وفات کا ہمیں افسوس ہے، جو اللہ کی مرضی، صبر کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے۔
صالح: جی اللہ کی مرضی۔

محمد بن سلمان: تو پھر یہ طے ہوا کہ آپ صبر کریں گے۔
ساحل: جی حضور، اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔

محمد بن سلمان: آپ لوگ سوگ کی حالت میں ہیں، اس لیے کسی کا مخاطب ہونا اور بات چیت کرنا آپ کو ناگوار گزرتا ہوگا، یہ سوچ کر ہم نے انتظام کردیا ہے کہ کوئی آپ سے رابطہ اور سوال جواب نہ کرے۔
صالح: آپ نے کیا ہے تو صحیح ہوگا۔

محمد بن سلمان: اپنی رعایا کا خیال رکھنا بہ طور شاہی خاندان ہمارا فرض ہے، چاہے رعایا کا کوئی فرد مملکت میں ہو یا کہیں باہر، بہ ہر حال آپ کا خیال ہم یہیں رکھ سکتے ہیں، لیکن ملک چھوڑنا چاہیں تو بتادیجیے گا ہم وہاں خیال رکھ لیں گے۔
ساحل: نہیں ہم کہیں نہیں جا رہے۔
صالح: ہمیں اسی زمین پر دفن ہونا ہے، یہاں کم ازکم سالم حالت میں دفن ہوا جاسکتا ہے۔

محمد بن سلمان: جن لوگوں نے اپنے طور پر اور اپنی مرضی سے آپ کے والد اور بھائی پر تشدد کیا، غلطی سے ان کی جان لے لی اور پھر سہواً ان کے ٹکڑے کردیے، انھیں اس خطا کی سزا ملے گی، بس ہم یہ نہیں چاہتے کہ ان گناہ گاروں کے ساتھ کسی بے گناہ کا نام جوڑا جائے، اتہام تو بہت بڑا گناہ ہے جس کی سزا کبھی کبھی دنیا میں بھی مل جاتی ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے۔
ساحل: جی بالکل سمجھ گئے۔

محمد بن سلمان: آپ کے والد کو بھی ان کی خیریت پوچھنے کے لیے منگوایا تھا، وہ آرام سے آجاتے تو خیریت سے ہوتے، خیر جو ان کی مرضی۔ دراصل مَلِکِ معظم اور میں بہت مہمان نواز ہیں، تعزیت ہو، عیادت یا خیریت پوچھنا، ہم یہ سارے فرائض جاکر نہیں بلاکر پورے کرنا چاہتے ہیں۔ چلیے اب ہاتھ ملائیے اور جائیے۔
اور پھر ملاقات کا اختتام اس تصویر پر ہوا، جو کہہ رہی ہے کہ جبر اور مجبوری سامنے آجائیں تو کیسے منظر بنتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).