جمہوریت رے جمہوریت تیری کون سی کل سیدھی


جمہوریت کی تعریف کے حوالے سے دیکھا جائے تو کچھ کچھ، جتنے منہ اتنی باتیں، قسم کی صورتحال سامنے آتی ہے۔ پولیٹیکل سائنس کی کتابوں میں سابق امریکی صدرمسٹر ابراہام لنکن کے الفاظ میں اسے کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ
Democracy is a government, of the people, by the people, for the people.
یعنی جمہوریت میں حکومت عوام کی ہوتی ہے، عوام پر کی جاتی ہے اور عوام کے لئے کی جاتی ہے۔ تاہم یہ جمہوریت کی ایک مثالی صورت ہے جو ازحد ترقی یافتہ ممالک میں بھی شاذ ہی دکھائی دیتی ہے۔ اسی لئے تو اس کے منصف مزاج مداحین اس تعریف کے لئے ایک دلچسپ پیرایہ اختیار کرتے ہیں کہ ”جمہوریت ایک بدترین نظام حکومت ہے، سوائے ان نظاموں کے جو اس سے پہلے آزمائے جا چکے ہیں“۔ یہ بات ایک ایسے ملک کا مدبر وزیراعظم (سرونسٹن چرچل) کہہ رہا ہے جو جمہوریت کی ماں (انگلستان) کہلاتا ہے۔ وہ مجبوری ظاہر کرتا ہے کہ سردست اس سے بہتر کوئی اور نظام نہیں ہے۔

کلیمِ بے تجلی، مسیحِ بے صلیب اور پیغمبرِ بے جبرائیل، ڈاکٹرکارل مارکس کے نزدیک جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کی ایک عالمگیر سازش ہے جس کے ذریعے عوام کو تبدیلی کے نام پر صرف، استحصال کرنے والوں کے درمیان، انتخاب کا حق دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں چونکہ جمہوری ثقافت ابھی اس درجے پر نہیں پہنچ پائی جس پر مغربی اقوام فائز ہیں لہذا یہاں جمہوریت اور آمریت جڑواں بہنوں کی طرح ایک دوسرے سے چہرے اور اطوار ادلی بدلی کرتی ہیں۔ مغربی مفکر ایلن کورینک کا کہنا ہے کہ ”جمہوریت میں عوام اپنے لئے اپنی پسند کا آمر چنتے ہیں“۔ ان کا یہ قول ہمارے ہاں فی الوقت کی جمہوریت پر صادق آتا ہے۔

بہتری کی توقع ہر چند ہے لیکن ہمارا قومی معدہ ابھی خاصا کمزور ہے اور اس کے علاج کے لئے جو معجونِ مرکب ہمیں دیا جاتا ہے وہ لوٹاکریسی، فلورکراسنگ، برادری ازم، ہارس ٹریڈنگ تھانہ، کچہری، الزام تراشی اورسبز باغ وغیرہ جیسے اجزاء میں دھونس، دھاندلی اور جھرلو جیسی مقویات کا جزوِاعظم ڈال کر تیار کیا جاتا ہے جس کے استعمال سے تما م قومی اعضائے رئیسہ میں انتشار رونما ہوجاتا ہے۔

جنوبی افریقہ کے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا کے مطابق ”حقیقی قائد کی یہ فطرت ہوتی ہے کہ وہ فتح کے موقع پر ہمیشہ پیچھے رہتا ہے تاکہ دوسرے آگے آئیں اور اگر مرحلہ خطرناک ہو تو اپنی چھاتی سب سے آگے رکھتا ہے“۔ لیکن یہ نیلسن منڈیلا ہیں، ایسا کہہ سکتے ہیں، ہم کیا کریں؟ کس دیوارِگریہ سے سر پھوڑیں؟ ہمارے ہاں تو یوں ہے کہ قائد، مالِ غنیمت، پر سب سے پہلے جھپٹتا ہے اور جب سرکٹانے کا مرحلہ درپیش ہو تو اس کے پاس بے شمار احمقوں کے سرہمہ دم موجود ہوتے ہیں، لیکن ذرا سوچئے! کیا سارا کیا دھرا ان فضیلت مآب قائدین ہی کاہوتا ہے؟

خدا لگتی تو یوں ہے کہ ہم عوام بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ ہم خود ہی لیڈر صاحب کو مسند اقتدارپر بٹھاتے ہیں پھر اپنا جوتا اتار کر پیش کرتے ہیں اور انتہائی لجاجت کے ساتھ اپنا سر تسلیم خم کرتے ہیں اور عرض گزرانتے ہیں کہ ”حضور! شوق فرمائیے“۔ اب اچھا لیڈر تو وہی ہے جو عوام کی خواہشات کا احترام کرے۔ ”جیسی روح ویسے فرشتے“ ایسوں ہی کے لئے کہا جاتا ہے اور اسی نوع کی جمہوریت کے لئے آرٹ سپینڈرنے کہا تھا کہ ”جمہوریت میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ ہر ووٹر کو حماقت کا ایک موقع ضرور دیتی ہے“۔ خیر اس طرح کے اقوال کے باعث جمہوریت سے بے زار ہونے کی ضرورت نہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود کو جمہوریت کے شایانِ شان بنائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).