اورحان پاموک، ناول برف اور آمریت


(درج ذیل گفتگو انجیل گرآقنتانا کے کیے گئے دِپیرس ریویو (سرما2005) کے لئے طویل انٹرویو کے متن سےلی گئی ہے، اس گفتگو میں ترکی کے نوبیل انعام یافتہ ناول نگار اوحان پاموک نے اپنے شہرہ آفاق سیاسی ناول ’برف ’ کے متعلق بتایا ہے کہ اس ناول کو کس جذبے کے ساتھ لکھا گیا اور اس پر ترکی میں کیسا ردعمل آیا۔ آمریت کے خلاف ایک ادیب کا سلوک اور برتاؤ کیسا ہونا چاہیے، اس بات کی وضاحت بھی گفتگو کے ضمن میں در آئی ہے، مکمل انٹرویو ایک ادبی رسالے کے لئے کیا گیا ہے جو جلد ہی شائع کیا جائے گا)

انٹرویور: برف آپ کی اب تک سب سے زیادہ سیاسی مطبوعہ کتاب ہے، آپ کو اس کا تصور کیسے آیا؟

پاموک: 1990 کے وسط میں، جب میں ترکی میں مشہور ہونا شروع ہوا، تو اس وقت کرد گوریلاز کے خلاف جنگ شدت سے جاری تھی۔ دائیں بازوں کے بوڑھے ادیب اور جدید لبرل نے مجھ سے ایک پٹیشن پر دستخط کے لئے مدد چاہی۔ انہوں نے مجھے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر اصرار کیا جو میری کتابوں سے تعلق نہ رکھتی تھیں۔ جلد ہی اس پٹیشن کے خلاف کردار کشی کے ساتھ مہم شروع ہوگئی، انہوں نے مجھے گالیاں دینا شروع کردیا۔

مجھے بہت غصہ تھا، کچھ عرصے بعد میں نے سوچا کہ کیا ہوا؟ اگر میں ایک سیاسی ناول لکھوں جس میں اپنے تمام روحانی مسائل کو بیان کروں جو ایک اپر مڈل کلاس خاندان سے تعلق رکھنے اور ان لوگوں کی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ جن کی سیاسی ترجمانی موجود نہیں ہے۔ میں ناول کے فن پر یقین رکھتا ہوں۔ یہ ایک عجیب شے ہے جو آپ کو اجنبی بنادیتا ہے۔ میں نے خود سے کہا کہ میں ایک سیاسی ناول لکھوں گا۔ جیسے ہی میں نے ’سرخ میرا نام‘ ختم کیا میں اسے (برف) لکھنا شروع ہوگیا۔

انٹرویور: آپ نے اس ناول کے مقام کے لئے کارز کے چھوٹے سے قصبے کا انتخاب کیوں کیا؟

پاموک: وہ علاقہ بدنامی کی حد تک ترکی کا سرد ترین اور غریب ترین قصبہ ہے۔ اسی کی دہائی میں، بڑے اخباروں کے مکمل فرنٹ پیج کارز کی غربت کے متعلق شائع ہوئے۔ کسی نے تخمینہ لگایا کہ پورے قصبے کو تقریباً ایک ملین ڈالر میں خریدا جاسکتا ہے۔ جب میں وہاں جانا چاہتا تھا اس وقت سیاسی موسم بہت مخدوش تھا۔ قصبے کے قرب و جوار میں زیادہ آبادی کردوں کی ہے لیکن مرکز میں کرد، آزربائیجان، ترک اوردوسری قوموں کے لوگ موجود ہیں۔

وہاں روسی اور جرمن بھی ہوا کرتے تھے۔ وہاں مذہبی اختلاف بھی موجود ہے، سنی اور شیعہ۔ ترکی حکومت کرد گوریلاؤں سے جو جنگ لڑرہی تھی وہ بہت شدید تھی اسی لئے وہاں بطور ایک سیاح جانا ناممکن تھا۔ میں جانتا تھا کہ میں بطور ایک ناول نگار وہاں نہیں جاسکوں گا چناں چہ میں نے ایک اخبار کے ایڈیٹر سے، جس سے میری جان پہچان تھی، علاقے کے دورے کے لئے پریس پاس کے لئے رابطہ کیا۔ وہ بڑے اثرورسوخ والا تھا اور اس نے ذاتی طورپر میئر اور پولیس چیف کو فون کیا تاکہ انہیں میرے آنے کی خبر دے۔

جیسے ہی میں کارز پہنچا تو میں میئر سے ملنے گیا اور میں نے پولیس چیف سے ملا تاکہ وہ مجھے گلیوں سے نہ اٹھائیں۔ درحقیقت، کچھ پولیس والے نہیں جانتے تھے کہ میں وہاں ہوں تو انہوں نے مجھے پکڑ لیا اور اپنے ساتھ لے گئے تاکہ وہ مجھ پر تشدد کرسکیں۔ اچانک میں نے انہیں نام بتائیں، میں میئر کو جانتا ہوں، میں چیف کو جانتا ہوں۔ میں ایک مشکوک کردار تھا۔ اگرچہ نظریاتی طور پر ترکی ایک آزاد ملک تھا لیکن کسی بھی غیرملکی پر 1999 تک شک کیا جاسکتا تھا۔ مجھے امید ہے کہ حالات اب آج پہلے سے بہتر ہیں۔

کتاب کے زیادہ تر لوگ اور مقامات نقل بمطابق اصل ہیں۔ مثال کے طور پر، مقامی اخبار جو 252 شمارے بیچتا ہے، اصلی ہے۔ میں کارز میں ایک کیمرے اور وڈیو ریکارڈر کے ساتھ گیا۔ میں نے ہر شے کی عکس بندی کی اور پھر میں استنبول لوٹا اور اسے اپنے دوستوں کو دکھایا۔ ہر کوئی سوچتا کہ میں تھوڑا پاگل ہوں۔ یہاں اور بھی چیزیں ہیں جو وقوع پذیر ہوئیں۔ اس گفتگو کی طرح جو چھوٹے اخبار کا ایڈیٹر ’کا‘ سے کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس نے پچھلے دن کیا کیا تھا۔ کا نے اس سے پوچھا کہ وہ کیسے یہ سب کچھ جانتا ہے تو پھر ایڈیٹر نے انکشاف کیا کہ وہ پولیس کی واکی ٹاکی سنتا رہتا ہے اور پولیس ہر جگہ کا کا تعاقب کررہی تھی۔ یہ بھی حقیقی ہے اور پولیس میرا پیچھا کررہی تھی۔

مقامی اینکر نے مجھے ٹی وی پر بلایا اور کہا کہ ہمارے معروف ادیب قومی اخبار میں مضمون لکھ رہے ہیں اور یہ بہت اہم شے تھی۔ میونسپل الیکشن قریب تھے چناں چہ کارز کے لوگوں نے اپنے دروازے میرے لئے کھول دیے۔ وہ تمام قومی اخبار کو اپنی غربت کے متعلق آگاہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ میں ان سب کو ایک ناول میں ڈال دوں گا۔ انہوں نے سوچا کہ میں ایک مضمون لکھوں گا۔ مجھے ضرور یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ یہ میرے لئے نہایت سخت اور ناپسندیدہ عمل تھا اگرچہ میں ان پر ایک مضمون لکھنے کا بھی سوچ رہا تھا۔

چار سال گزر گئے، میں بار بار وہاں گیا۔ وہ ایک چھوٹی سی کافی شاپ تھی جہاں میں اکثر لکھتا اور اپنے نوٹس لیتا۔ میرا ایک فوٹوگرافر دوست، جسے میں نے کارز بلایا کیوں کہ برفباری میں کارز خوبصورت بن جاتا ہے، اس نے کافی شاپ میں ایک گفتگو بار بار سنی۔ جب میں لکھ رہا ہوتا تو لوگ آپس میں گفتگو کرتے ہوئے کہتے یہ کس قسم کا مضمون لکھ رہا ہے، تین برس گزر گئے، اتنا وقت تو ایک ناول کے لئے کافی ہے۔ انہوں نے شاید میرے ارادے بھانپ لئے تھے۔

انٹرویور: کتاب پر ردعمل کیسا تھا؟

پاموک: ترکی میں دونوں قدامت پرست یا سیاسی اسلامسٹ اور سیکولر ناراض تھے، اتنا نہیں کہ وہ کتاب پر پابندی لگوائیں یا مجھے نقصان پہنچائیں۔ لیکن وہ ناراض تھے اور انہوں نے اس پر قومی روزناموں میں لکھا۔ سیکولر تو اس وجہ سے ناراض تھے کہ میں نے لکھا تھا کہ ترکی میں ایک پکا سیکولر بننے کی قیمت یہ ہے کہ آپ یہ بھول جاؤ کہ آپ جمہوریت پسند بھی ہو۔ ترکی میں سیکولروں کو طاقت فوج سے ملتی تھی۔ اس نے ترکی میں جمہوریت اور برداشت کے کلچر کو تباہ کردیا۔ جب ایک مرتبہ سیاسی امور میں فوج کی مداخلت زیادہ بڑھ جائے تو لوگوں کی خود اعتمادی ختم ہوجاتی ہے اور وہ تمام مسائل کے حل کے لئے فوج پر انحصار کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔

لوگ کہتے ہیں، ملک اور معیشت تباہ ہوگئی ہے، چلو آرمی کوصفائی کے لئے بلاتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ صفائی کرتے ہیں ساتھ ہی برداشت کا کلچر ختم ہوجاتا ہے۔ کئی مشکوکوں پر تشدد کیا جاتا ہے، لاکھوں جیل جاتے ہیں اور یہ ایک نئی فوجی بغاوت کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے۔ ہردس سال بعد یہاں ایک نئی فوجی بغاوت ہوتی ہے، اسی لئے میں نے سیکولروں پر تنقید کی تھی۔ ان کو یہ بات بھی پسند نہیں آئی کہ میں نے اسلامسٹوں کو بطور انسان پیش کیا ہے۔

سیاسی اسلامسٹ اس لئے ناراض تھے کہ میں نے ان کے ایک اسلامسٹ کے بارے میں لکھا جو شادی کے بغیر جنسی عمل سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ یہ نہایت آسان شے تھی۔ اسلام پسندوں کو ہمیشہ سے مجھ پر شک تھا کیوں کہ میں ان کے کلچر سے نہیں آیا تھا اور میری زبان، چال ڈھال، یہاں تک کے انداز بھی ایک آسودہ حال مغربی کی طرح تھا۔ ان کی نمائندگی کے لئے اور مسائل بھی موجود تھے، وہ پوچھتے کہ یہ ہمارے بارے میں کیسے لکھ سکتا ہے؟ یہ ہمیں نہیں جانتا۔ یہ تمام میں نے اپنے ناول کے حصوں میں شامل کیا ہے۔

میں مبالغہ آرائی نہیں کرنا چاہتا، میں بچ گیا، ان سب نے کتاب کو پڑھا۔ اگرچہ وہ غصہ ہوئے لیکن یہ بڑھتے ہوئے لبرل رویے کی نشانی تھی کہ انہوں نے مجھے میری کتابوں کی طرح قبول کیا۔ کارز کے لوگوں کا ردعمل بھی منقسم تھا۔ کچھ نے کہا کہ بالکل، یہ اسی طرح ہے۔ اس کے برعکس ترک قوم پرست، میرے آرمینین کے ذکر پر پریشان تھے۔ وہ ٹی اینکر، مثال کے طور پر، اس نے کتاب کو ایک علامتی سیاہ بیگ میں ڈالا اور مجھے پوسٹ کردیا اور ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ میں آرمینین پروپیگنڈا کررہا ہوں، جوکہ، لازمی طور پر، احمقانہ ہے۔ ہمارے ہاں مقامی طور پر قومی کلچر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).