مرد بےوفا کیوں ہوتے ہیں؟


اس گتھی کو سلجھانے کے لیے نجانے کتنی تحقیقات روز ہوتی ہیں اور ہر روز ایک نئی کہانی سننے کو ملتی ہے۔ جیسے یہ ہارمونز کا کیا دھرا ہے، کوئی کیمکل جسم میں پیدا ہوتا ہے جو مرد کو بےوفائی پر اکساتا ہے۔ حالات سے اسے کوئی تحریک ملتی ہے کہ وہ بہک جاتا ہے۔

”می ٹو“ کے ہوتے مرد کو بڑا بدنام کیا جا رہا ہے، حالانکہ جاننے کی ضرورت ہے کہ مرد ایسا نہیں ہوتا، یہ تو کئی عوامل ہیں جو اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور کچھ تحقیقات جو کہ مستند سائنسی طریقوں اور سروے سے کی گئی ہیں، ان کا مختصر تذکرہ میں یہاں پیش کرتا ہوں۔

تحقیق یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ساتھ کام کرنے والی خواتین کی بدولت ایسا ہوتا ہے۔ اب آگ اور تیل کو اکٹھا کیا جائے تو بندے کا کیا قصور؟
کچھ مرد کو تجسس کا پرندہ کہتی ہیں کہ مرد نت نئے جہاں دریافت کرنے نکل پڑتا ہے۔ اب جناب یہ تو اس کی بناوٹ ہے، انسان تجسس میں اگر کسی نئی سے راہ روابط کر لیتا ہے تو اس میں اس کا کیا گناہ؟ یاد رہے کہ اسی تجسس کی بدولت تو دنیا کی ترقی ہوئی ہے۔

کچھ رپورٹیں اس کا الزام خاتون خانہ پر ڈالتی ہیں کہ اگر خاتون گھر داری میں شوہر کو وقت نہ دے، اپنا دھیان نہ رکھے، خود کو مین ٹین نہ کرے تو مرد کیوں نہ باہر منہ مارے۔ عورت کو اپنا کرداربخوبی نبھانا چاہیے، کچن میں ماں، گھر میں بیوی اور بیڈروم میں گرل فرینڈ ہونا چاہیے۔ اب اگر وہ بیڈروم میں ماں اور کچن میں گرل فرینڈ بن جائے تو مرد تو بھاگے گا کہ نہیں؟

یہ فطرت ہے کہ مرد خود چاہے جس بھی عمر کا ہو، اسے لڑکی اٹھارہ سے پچیس کے درمیان کی بھاتی ہے، تو اس میں اس کا کیا قصور کہ اس کی بیوی جسے اٹھارہ میں بیاہ کر لایا تھا، اب پینتیس کی ہو چکی ہے اور تمام رعنائی چولہے میں غرق ہو چکی ہے۔ جو کبھی کلی تھی، اب گلستان کا نام نشان نہیں۔ اپنی چندیا اور توند سے نظر چرائے، بیوی کے وزن پر الزام دینا تو عام سی بات ہے۔

ایک تاثر یہ بھی دیا جاتا ہے کہ مرد کا چونکہ باہر آنا جانا ہوتا ہے تو اس کو جابجا حسن بےحجاب دکھتا ہے۔ گھریلو خاتون کا دن کا بیشتر حصہ یا یوں کہہ لیں کہ زندگی کا بیشتر حصہ گھر کی چار دیواری میں گزر جاتا ہے تو اسے وہ مواقع میسر نہیں آتے حسن و جوانی کو تکنے کے، اس لیے مرد جب متواتر حسن کے روبرو ہوتا ہے تو پگھل جاتا ہے۔ حسن بھی تو ان دنوں کچھ زیادہ ہی بہتات میں ہے اور بےجھجھک بھی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ رابطے بہت آسان ہو چکے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ کچھ حسن حجاب میں بھی ہوتا ہے مگر مرد کی تصوراتی قوت خاصی قوی ہے، وہ تصور میں مطلب کا نقشہ تراش لیتا ہے۔

مرد فطرتاً مضبوط اور عورت کمزور ہوتی ہے تو مرد کا ہی قدرتی فرض ہے کہ کمزور کوسہارا دے۔ اس لیے مرد عورت کو ہر موقع پر سہارا دینا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ چاہے یہ مالی، جذباتی ہو یا جسمانی ہو، روتی عورت کو کندھا دینے کو فوری حاضر۔ چاہے اسے درکار نہ ہو تو پہلے اسے احساس دلاؤ کہ کندھا لینے میں ہی عافیت ہے، تھوڑی زبردستی کرنا پڑے تو کوئی برائی نہیں، اس کے فائدے کے لیے تو سختی کرنا پڑ رہی ہے۔ مان جائے توپھر کندھا آفر کر دو۔ نیکی میں شرم کیسی؟

یہی وجہ ہے کہ راہ چلتی عورت کو لفٹ کی آفر کی جاتی ہے کیونکہ مرد کی اپنی ماں بہن بےشک پیدل جائے مگر وہ کسی کی بہن کو پیدل جاتا نہیں دیکھ سکتا۔ یہ احساس ہمدردی نہیں تو اور کیا کہلائے؟

دین بھی مرد کو چار چار نکاح کی اجازت دیتا ہے۔ فی زمانہ چونکہ معاشی حالات چار بیویوں رکھنے کی اجازت نہیں دیتے تو دوستی کر لینے میں کیا حرج ہے۔ خودار قسم کے مرد ایسی دوستیاں بھی مفت میں نہیں کرتے بلکہ اس کے لیے قیمت، تحائف اور وقت دیتے ہیں یہ کیا کم ہے۔ نادان عورت کیا جانے کہ اس کی خاطر اکثر بچوں کی سکول کی فیسیں لیٹ ہو جاتی ہیں۔
پرانے وقتوں میں کنیزوں سے رجوع کرنے کی اجازت ہوا کرتی تھی، اب کنیزیں ناپید ہو چکی ہیں تو زیرسایہ کام کرنے والی خواتین سے امید رکھنا کیا غلط بات ہے؟

کچھ کا زور روپے پیسے پر جا کر ٹوٹتا ہے کہ جب پیسہ ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو مرد اسے خرچنے کو بےتاب ہوتا ہے اور ایسے میں اس پیسے کو بٹورنے کے لیے عورت دستیاب ہوتی ہے۔ وہ اس مرد کی عمر اور شکل سے قطع نظر اس پر جھپٹ پڑتی ہے اور اس پیسے کو لے اڑتی ہے جو اس مرد کے حقیقی ورثا کا حق ہوتا ہے۔ تو قصور تو اس عورت کا ہوا نا مرد کی کیا خطا؟
ایک جواز یہ ہے کہ میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر فحاشی اور عریانی کی فراوانی نے مرد کو بگاڑ دیا ہے۔ رہی سہی انٹرنیٹ نے پوری کر دی ہے اور کبھی مرد جو نظارہ کرائے کے وی آر پر کبھی کبھار کیا کرتا تھا، اب با آسانی ڈاؤن لوڈ کر کے اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔ اس اخلاق باختگی کی وجہ سے مرد نے گھریلو عورت سے کئی امیدیں ایسی قائم کر لی ہیں جن کو پورا کرنا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے اور اس صورت میں وہ گھر سے باہر متوجہ ہوتا ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اکثر مرد دیکھا دیکھی بھی ایسا کرتے ہیں کہ بھئی شیخ صاحب نے کارنامہ انجام دے دیا تو میں کیا کسی سے کم ہوں، ہم بھی ماشا اللہ جوان ہیں، ہم بھی ایسا کر کے یار دوستوں میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔

دوم، ہر کسی کا اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے۔ کہ بھئی ہم نے کیا گناہ کیا بس چیٹنگ ہی تو کرتے ہیں، لوگ تو ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ملاقاتیں کرنے والے کا جواز ہو گا کہ میاں مل بیٹھتے ہیں تو کیا ہوا، اس سے آگے تو نہیں جاتے، لوگ تو نجانے۔ اس سے اگلے مرحلے والے کے پاس دل کو بہلانے کو خیال ہو گا کہ کوئی بات نہیں کونسا گھر میں ڈال لیا، باہر کی باہر ہی تو رکھتے ہیں۔

ایک بڑا حسین جواز کام کا دباؤ ہے۔ بندہ کام میں سر کھپائے اور چند کھڑی کی دل پشوری کر لے تو کیا مضائقہ؟ اتنی محنت کے بعد کچھ لمحوں کی تفریح کا تو حق ہے نا مرد کو، کہ نہیں؟
کبھی کبھار یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ اب بھی ہم میں دم خم باقی ہے یا نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جو وجاہت دس سال پہلے تھی، وہ اب کسی کی نظر میں ہے یا نہیں؟ توکیوں نہ آزما کر دیکھا جائے کہ اب بھی لیڈی کلر والا ٹائٹل برقرار ہے یا گل ہوا؟

بدلہ، یعنی بیوی نے کل ٹھیک سے بات نہیں کی۔ کوئی بات نہیں اب اسے جب یہ معلوم ہو گا کہ میرے موبائل پر کسی دوسری کی کالیں اور میسجز آئیں گے تو خود ہی دماغ ٹھکانے ہو گا۔ اسے احساس ہونا چاہیے کہ مرد کی عمر کوئی نہیں دیکھتا۔

ٹائم پاس، یہ سب سے بہترین لاجک ہے۔ مطلب بیوی بچوں اور کام کاج سے تو فرصت نہیں ملتی، نماز کا وقت بھی جمعے کو ہی ملتا ہے مگر بار بار بندہ وٹس ایپ دیکھ سکتا ہے اور اس میں کچھ زیادہ وقت بھی صرف نہیں ہوتا۔ اگر سامنے والا جواب دیتا رہے تو رات کے دو ایک بج بھی جاتے ہیں تو کوئی نہیں دفتر میں سویا جا سکتا ہے۔

سب سے آخری جواز ہے، دستیابیِ زن۔ اگر مرد کو عورت میسر ہی نہ ہو گی تو وہ کیسے بےوفائی کرے گا۔ مگر جب اسے کوئی نہ کوئی ایسی مل ہی جائے گی جو اس کی پذیرائی کرے تو کوئی اتنا پارسا ٹھہرا کہ آفر کو ریجیکٹ کرے۔
بہرحال ان سب باتوں کے ساتھ بڑی اہم وجوہات ہیں، کم ظرفی، بدنیتی، بدکرداری، تربیت اور خود غرضی۔ اگر ان کا کوئی جواز ہوتا تو بندہ ضرور سوچ کر شائع کرتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).