لاس انجلیس کا پارکنگ لاٹ


ایسا نہیں کہ میں کہوں کہ میرا بہت عرصے کے بعد کچھ لکھنے کو من کیا۔ نہ۔ بلکل نہیں۔ در اصل میں اس وقت انتظار کر رہا ہوں۔ ایک طویل انتظار۔ اور میرے پاس نہ اپنا گٹار ہے بجانے کو اور نہ ہی انٹرنیٹ۔ صبح کے کوئی 4 بجے ہیں اور میں اس پارکنگ لاٹ میں اتنی گاڑیوں کے درمیان تنہا ہوں۔ اور ابھی تو انتظار کی گھڑیاں شروع ہوئی ہیں۔ ریڈیو پر ہلکی آواز میں جاز موسیقی کانوں سے ٹکراتی ہے۔ رات بڑھنے کے ساتھ ہی سردی میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ میرے پاس ایک کمبل ہے اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لئے۔ اور کچھ کرنے کو نہیں۔ تو سوچا کہ ہاں کچھ لکھا ضرور کا سکتا ہے۔ اب جب لکھنے بیٹھا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کیا لکھوں؟

کہنے کو ایک خزانہ ہے میرے پاس، گر کوئی سننے والا ہو تو۔ مجھ سے کسی نے پوچھا کہ زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا کہ میں اپنی موت کے بعد بھی زندہ رہنا چاہتا ہوں۔ مجھے دنیا کا ایک اور گمنام نہیں مرنا۔ میرا خیال تھا کہ یہ سوچیں صرف ان کو آتی ہیں جن کا پیٹ بھرا ہوتا ہے۔ میں غلط تھا۔ اوسط عمر کے حساب سے آدھی سے زیادہ عمر گزار چکا ہوں۔ کوئی ایسا خاص کارنامہ بھی کیا نہیں ابھی تک جس پر فخر کر سکوں۔ جو ”لوگوں“ کو دکھا سکوں۔ لیکن جب ارد گرد نگاہ دوڑاتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ ابھی کتنی دنیا دیکھنی باقی ہے۔ ابھی کتنا علم ہے جس سے آشنائی نہیں۔ تصویر کے کتنے رخ ہیں جو ابھی دیکھنا باقی ہیں۔ ابھی تو مجھے کچھ آتا ہی نہیں۔ احساس ہوتا ہے کہ یہ ایک زندگی اس دنیا کو جاننے کے لئے بہت تھوڑی ہے۔

اوپر نگاہ اٹھاتا ہوں اور کائنات کو خیال میں لانے کی کوشش کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کہیں ہم اتنی وسیع و عریض کائنات میں تنہا تو نہیں؟ اس خیال سے ہی جسم میں ایک بجلی سی دوڑ جاتی ہے۔ پھر سوچتا ہوں کہ ابھی ہم جانتے ہی کتنی کائنات کو ہیں؟ ابھی تو بہت کچھ ہے جاننے کو۔ ایک یقین سا ہے دل میں کہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم اتنی وسعتوں میں تنہا ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ یقین ہے یا دھندلی سی امید یا فقط میری چاہت؟ اتنی وسیع و عریض کائنات میں ہماری کہکشاں ایک نقطے کی مانند ہو شاید۔ اس نقطے میں زرے کی مانند ہمارا نظامِ شمسی۔ کائنات کے اس نقطے کے ایک ذرے میں گھومتے ایک چھوٹے سے نیلے سیارے کے ایک چھوٹے سے شہر کے ایک چھوٹے سے پارکنگ لاٹ میں بیٹھا میں۔ میں جو اپنی موت کے بعد بھی جیتا رہنا چاہتا ہوں۔

میں نے ایک وعدہ کیا تھا کہ وہاں نہیں مروں گا جہاں پیدا ہوا۔ کاش کہ میری زندگی میں وہ وقت بھی آئے کہ میں اپنے آپ سے یہ وعدہ کر سکوں کہ اس سیارے پر نہیں مروں گا کہ جہاں میں پیدا ہوا۔ جب تک یہ ممکن نہیں ہوتا تب تک اس چھوٹے سے نیلے سیارے میں بہت کچھ ہے دیکھنے کو۔ بہت کچھ ہے سیکھنے کو۔ تصویر کے ابھی کتنے ہی رخ ہیں جن سے ابھی یہ نگاہیں آشنا ہی نہیں۔ اپنی دنیا سے باہر نکلنے کی بات ہے بس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).