ایک صدی پہلے پرانے لاہور کا ایک ملحد کردار


 

اس باغ میں لوگ آتے تھے، ایک دوسرے کے دلوں میں جھانکتے تھے، ایک دوسرے کا درد بانٹتے تھے۔ اور یُوں اپنا بوجھ ہلکا کر کے گھروں کو روانہ ہو جاتے تھے۔

یہ باغ اپنے پودوں کے پھول، اپنے پیڑوں کے سائے، اپنی گھاس کی تروتازگی اور ٹھنڈی ہوا کے نگہت بار جھونکے سب آنے والوں کے لئے وقف کر دیتا تھا اور اس میں کسی بھی امتیاز اور فرق کو روا نہیں رکھتا تھا۔ یہاں بحث مباحثے ہوتے رہتے تھے، اس سے کچھ اور نہ سہی، دل کا غبار تو دُھل ہی جاتا تھا، ان بحث کرنے والوں میں وہ شخص بھی شامِل تھا جس کا نام شریف تھا۔ دبلا پتلا آدمی، رنگ سیاہ، ہر وقت سادہ لباس پہنے ہوئے یہ شخص خُدا کو نہیں مانتا تھا۔ اور جو لوگ بھی باقاعدگی سے باغ میں آتے تھے ۔ انہیں معلوم تھا کہ شریف ”ناخُدا“ ہے۔ ناخدا، ملاح کے معنی میں نہیں، خدا کو نہ ماننے والے کے مفہوم میں۔

شریف بڑے تحمّل سے گفتگو کرتا تھا، وہ اپنے حریفوں کی باتیں بڑی دلچسپی سے سُنتا رہتا تھا، ان کے دلائل رّد کرنے کی بھی کوشش کرتا تھا، مگر باغ میں آنے والا بڑے سے بڑا عالم بھی اسے خدا کا قائل نہ کر سکا تھا۔

اس سے بحث کرنے والے کبھی کبھی کج بحثی پر بھی اُتر آتے تھے، مگر شریف کو میں نے کبھی تلخ کلامی کرتے ہوئے نہیں پایا تھا۔ دو تین گھنٹوں کی بحث کے بعد اس کا صرف ایک جواب ہوتا تھا : ”اگر خدا ہے تو وہ میری جیب سے گھڑی نکال کر میری ہتھیلی پر رکھ دے۔

سامعین میں سے کوئی کہتا :

میں یہ گھڑی تمہاری جیب سے نکال کر جہاں چاہو پھینک سکتا ہوں۔

اس پر وہ بڑے آرام سے کہتا؛

گویا تم خدا ہونے کا دعویٰ کر رہے ہو۔

چیلنج دینے والا بگڑ جاتا، لیکن شریف بدستور پرسکون رہتا۔

ایک بار سارے باغ میں یہ خبر پھیل گئی کہ باہر سے ایک بڑے مولانا آئے ہیں جو ناخدا کو خدا کا قائل کر کے ہی چھوڑیں گے۔

شریف جو بحث کرنے سے کبھی نہیں گھبراتا تھا، مولانا سے بحث کرنے پر آمادہ ہو گیا ۔ ایک شام میں نے دیکھا کہ ایک فربہ اندام مولانا، سر پر بڑا سا پگڑ باندھے، ہاتھ میں ڈنڈی لئے باغ میں داخل ہورہے ہیں اور ان کے پیچے چھوٹے بڑوں کا ایک مجمع بھی ہے ۔ معلوم ہوا یہی حضرت شریف سے بحث کریں گے، شریف بھاگنے والا آدمی تھا ہی نہیں۔ وہ آدھ گھنٹہ پہلے ہی اپنی مخصوص جگہ پر پہنچ گیا تھا۔

مولانا نے بیٹھتے ہی خدا کو نہ ماننے والوں کو خدا کے عذابِ شدید ڈرایا اور پھر خدا کی ہستی کے اثبات کے سلسلے میں لمبی تقریر کر ڈالی۔ اس تقریرکے دوران میں انہوں نے بار بار شریف کا مذاق اُڑایا۔ اس کی پست قامتی، سیاہ رنگت اور اور ایسی کئی کمزوریوں کو خدا کے عذاب پر محمول کیا۔ سُننے والے مسلسل تالیاں بجا رہے تھے اور خوش ہو ہو کر مولانا کو دادِ فصاحت دے رہے تھے ۔

شریف چپ بیٹھا رہا۔ اس کا چہرا کسی مرحلے پر بھی متغیّر نہ ہو سکا، تاہم ہم لوگ جو مولانا کی دھواں دھار تقریر سُن چکے تھے، دل میں یہ یقین رکھتے تھے کہ آج شریف خدا کا قائل ہونے کا اعلان کر ے گا اور اپنی پچھلی حماقت، بلکہ جہالت کے لئے پروردگارِ عالم سے معافی مانگ لے گا۔

تقریر ختم ہونے کے بعد مولانا نے دودھ کا گلاس پیا اور چُبھتی ہوئی نظروں سے اپنے حریفِ مقابل کو دیکھا۔ یہ حریفِ مقابل سب کی نظروں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ سب کا خیال تھا۔ شریف لمبی چوڑی تقریر کرے گا مگر وہ خاموش بیٹھا تھا۔

بولو، بولو۔ “ مجمع سے آوازیں آئیں۔

شریف نے زبان سے ایک لفظ تک نہ نکالا۔ جیب سے ایک سکہ نکالا۔ اسے اپنی دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھ لیا اور مولانا سے مخاطب ہو کر کہا:

اپنے خدا سے کہئیے اسے واپس میری جیب میں لے جائے۔

ایک دم سب سامعین پر سناّٹا چھا گیا ۔ کوئی بھی یہ سوچ نہیں سکتا تھا کہ شریف، مولانا کی تقریر سے غیر متاثر رہے گا، مگر وہ غیر متاثر تھا۔ اور مولانا کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے وہ اور تو کچھ نہ کر سکے۔

شریف کو بے حیا، ابو جہل، اندھا، بہرہ اور نہ جانے کیا کچھ کہہ دیا۔۔۔۔

لیکن شریف کی یہ حالت تھی کہ وہ پہلے کی طرح بڑے سکون سے بیٹھا تھا اور ابھی تک وہ سکہ اس کی ہتھیلی پر نظر آ رہا تھا جسے اس نے دو تین منٹ بعد واپس اپنی جیب میں ڈال لیا اور اُٹھ کر چلا گیا۔

شریف، باغ میں ہر روز نہیں، کبھی کبھی آتا تھا اور جب بھی آتا تھا ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا تھا۔ پھر لوگوں نے اسے نظر انداز کرنا شروع کر دیا اور اس کے بعد وہ پہلی سی ہنگامہ خیزی بھی قریب قریب ختم ہو گئی۔ اب دوسروں کی طرح میں بھی اس کی آمد پر کسی خاص ردّعمل کا اظہار نہیں کرتا تھا۔ بہت مدت بعد ایک دن ایسا آیا اور میں نے اسے دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔

ان دنوں میں موہنی روڈ پر رہتا تھا ۔ شریف بھی اسی محلے میں آ گیا ۔ اس کے قریبی ہمسائیوں نے مجھے بتایا کہ شریف بڑا نیک نفس، نیک نیّت اورخاموش طبع آدمی ہے ۔ ایک ذمہ دار شوہر اور نہایت شفیق باپ ہے اور جو شخص کسی دفتر میں اس کے ساتھ کام کرتا تھا، اس نے اطلاع دی ہے کہ شریف سے بڑھ کر فرض شناس افسر کوئی نہیں ہے۔

یہ باتیں سن کر میں دل ہی دل میں شریف کا احترام کرنے لگا، مگر اس نے ابھی تک میرے دل کے نازک گوشوں کو نہیں چھوا تھا۔ ایک اتوار کو جب دھوپ بہت تیز اور اذیت ناک تھی، میں نے گھر کی طرف جاتے ہوئے دیکھا کہ شریف اپنے گھر کی ٹوٹی ہوئی دیوار خود مرمت کر رہا ہے۔ پسینہ پسینہ ہو رہا ہے اور دیوار پر گارا لگا کر اینٹیں جوڑ رہا ہے، میرے قدم وہیں رک گئے۔ یہ وہ چند لمحے تھے جب میں نے خدائے بزرگ و برتر کی رحمتِ تمام کا بہ دل و جان قائل ہو گیا۔ وہ خدا کتنا رحیم اور کس قدر مہربان ہے جو اپنے منکر کے دل میں بھی نیکی کا ایسا احساس پیدا کر دیتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے لئے سراپا رحمت بن جاتا ہے۔

میں دھوپ میں دو تین منٹ سے زیادہ کھڑا نہ رہ سکا اور گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔

باغ میں سب سے زیادہ مجمع ہیر سُننے والوں کا ہوتا تھا ۔ اس مجمع میں کبھی کبھی تو تیس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو جاتے تھے۔ جب گرمیوں کی دھوپ کی تپش کم ہو جاتی تھی اور سردیوں میں ابھی دھوپ ہی ہوتی تھی کہ ایس۔ پی۔ ایس کے ہال کے بالمقابل باغ کا جو حصہ واقع ہے۔ اس کی درمیانی جگہ ایک بوڑھا آدمی آتا تھا اور اپنے تولیے سے وہ جگہ جھاڑ دیتا تھا ۔ وہ اس کام میں مصروف ہی ہوتا تھا کہ اس کا ہم عمر ایک آدمی آتا تھا۔ اس نے ہاتھ میں چٹائی اٹھائی ہوتی تھی ۔ وہ چٹائی یہاں بچھا دیتا تھا ۔ حاجی صاحب آتے تھے ۔ وہ اپنی بغل میں وارث شاہ کی ہیر لے کر آتے تھے جسے وہ چٹائی کے ایک کونے میں رکھ کر خود ان دونوں بوڑھوں کے پاس بیٹھ جاتے تھے ۔ وہ عمر میں ان سے چھوٹے تھے مگر بوڑھے انتہائی احترام کے ساتھ مخاطب کرتے تھے۔

لوگ آتے جاتے تھے اور مجمع کی رونق بڑھتی جاتی تھی ۔ پھر وہ شخص آتا تھا جس کا سب لوگ بیٹھے بڑی بے تابی سے انتظار کیا کرتے تھے۔ یہ ہیر خواں تھا ۔ لمبا تڑنگا آدمی ۔ عمر زیادہ سے زیادہ تیس برس ۔ کُرتا اور دھوتی پہنے ہوئے۔

وہ ابھی کافی فاصلے پر ہی ہوتا تھا کہ قریباََ سارا مجمع پکار اُٹھتا تھا : ” آ گیا “۔

mirza adeeb – mushfiq khawaja

ہیر خواں سلام کرتا تھا اور پورا مجمع بڑے زور سے جواب دیتا تھا ۔ وہ اپنی مخصوص جگہ یعنی چٹائی کے اوپر بیٹھ جاتا تھا۔ کسی سے اس کا یا کسی بیمار کا حال پوچھتا، کسی سے مذاق کرتا اور کسی سے محض ہاتھوں یا آنکھوں کے اشاروں ہی سے حال دریافت کرتا پھر دو زانو ہو کر بیٹھ جاتا ۔ کتاب اپنی گود میں رکھ لیتا ۔ ایک آدھ منٹ ورق گردانی کرتا ۔ پھر اس کی انگلیاں حرکت کرنے سے رک جاتیں کل جو کچھ سنایا تھا وہ مختصر طور پر بیان کرنے کے بعد اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی دائیں کان میں ڈال کر پڑھنے لگتا۔

اسکی آواز پاٹ دار، گھمبیر اور توانا تھی۔ اس میں ایسا رس بھی ہوتا تھا جو وہ دوسروں کے دلوں میں گھولتی جاتی تھی جو کچھ سناتا تھا، اس کے اثرات اس کے چہرے پر نقش ہو جاتے تھے۔

ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں مینوں لے چلے بابلا لاے چلے۔

اس کی آواز دردو غم میں ڈوب جاتی ۔ اور مجمع میں سے دو چار ذکی الحِس آدمی سچ مچ رونا شروع کر دیتے۔

کئی منٹ تک مجمع کی حالت میں کوئی فرق نہ پڑتا۔ حاجی صاحب ہیر خواں کو آگے پڑھنے کے لئے کہتے اور پھر حالت سنبھلنے لگتی۔

آدھ پون گھنٹے کے بعد ایک شخص گرمیوں میں فالودے کا گلاس اور سردیوں میں گرم دودھ کا پیالہ لاتا، ہیر خواں یہ پی کر تازہ دم ہو جاتااور کتاب کھول کر دوبارہ پڑھنے لگتا۔

شام کا ندھیراسرکنے لگتا ۔ درختوں پر پرندے اپنے اپنے گھونسلوں میں دبک جاتے۔ سامعین جو اپنے ماضی میں نہ جانے کتنی دور نکل گئے ہوتے، بیتے سمے کی دھندلاہٹوں میں سے گزرتے ہوئے واپس آنے لگتے ۔

اس وقت حاجی صاحب جو غالباََ مجمع میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ گردانے جاتے تھے، بلند آواز سے کہتے۔

  اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر

  پھر ملیں گے اگر خدا لایا

مجمع بکھرنے لگتا ۔ دوبارہ ملنے کی اُمید دلوں میں لے کر وہ ایک دوسرے سے رخصت ہونے لگتے۔ پہلا بوڑھا کندھے پر ہاتھ پھیرکر یقین کر لیتا کہ تولیہ موجود ہے، دوسرا چٹائی سمیٹ لیتا ۔ حاجی صاحب ہیر اپنی بغل میں محفوظ کر لیتے اور باغ میں اندھیروں کا قافلہ اُترنے لگتا۔ پھیلنے لگتا۔  

     ٭٭٭

 (اقتباس از مٹی کا دیا: مرزا ادیب )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).