وزیراعظم صاحب! ”کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے“ والا رویہ مناسب نہیں


وہی ہوا جس کا مجھے خدشہ تھا۔ بدھ کی شب قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان صاحب نے اپنے دورئہ سعودی عرب کی بدولت پاکستان کو ملے سہارے پر ربّ کا شکریہ ادا کرنے کے بعد قوم کو مزید راحت پہنچانے کی اُمید دلانے پر توجہ مرکوز نہیں رکھی۔

اپنی تقریر کا بیشتر حصہ ”چوروں اور لٹیروں“ کی نذر کردینے کے بعد ”انہیں چھوڑوں گا نہیں“ کی ضد میں مبتلا نظر آئے۔ انہیں یقینِ کامل ہے کہ نواز شریف و آصف علی زرداری وغیرہ اپنے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کی حکومت کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کی خاطر یکجا ہورہے ہیں۔ ان کو گماں ہے کہ اپوزیشن کا یوں اکٹھے ہوجانا عمران خان صاحب کو خوفزدہ کردے گا۔ وہ گھبرا کر انہیں معاف کردیں گے۔

وزیر اعظم نے مذکورہ خوش گمانی کو جھٹلانے میں بہت وقت صرف کردیا۔ بارہا دہراتے رہے کہ ان سے کوئی NROکی اُمید نہ رکھی جائے۔ NROکا ذکر کرتے ہوئے لیکن وہ یہ حقیقت فراموش کرگئے کہ ان ہی کی حکومت مسلسل ہمیں یاد دلاتی رہتی ہے کہ نیب ایک خودمختار ادارہ ہے۔

احد چیمہ اور فواد حسن فواد جیسے سرکاری افسران اور شہباز شریف وخواجہ سعد رفیق جیسے سیاستدان عمران حکومت کے بنائے مقدمات کی وجہ سے نہیں نیب کی جانب سے ہوئی تحقیقات کے سبب جیلوں اور حوالات میں بند ہیں۔ کچھ لوگوں پر آئی مشکلات کی اصل وجہ ہماری اعلیٰ عدلیہ کی ازخود نوٹس کے ذریعے اٹھائیں پیش قدمیاں ہیں۔ ایسی عدلیہ کے ہوتے ہوئے عمران خان صاحب کی حکومت دل وجان سے چاہتے ہوئے بھی شکنجے میں آئے کسی سیاستدان کو مدد فراہم نہیں کرسکتی۔

4اپریل 2016کی صبح اس ملک کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوکر اقتدارواختیار کے مالک بنے بیٹھے نوازشریف۔ کسی آسمانی آفت کی طرح پانامہ دستاویزات کی زد میں آ گئے اس کے بعد جو ہوا حالیہ تاریخ ہے۔اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ سیاسی انتقام کے الزامات سے محفوظ رہنے کے لئے پاکستان ہی نہیں دُنیا کے کسی بھی ملک کی منتخب حکومت نیب جیسے خودمختار ادارے اور آزاد عدلیہ کی طلب گار ہوتی ہے۔

عمران خان صاحب خوش نصیب ہیں کہ ا نہیں ایسا بندوبست ورثہ میں ملا ہے۔ وہ مگر اس سے مطمئن نظر نہیں آرہے۔ بدھ کے روز اپنے قوم سے کئے خطاب کے ذریعے تاثر بلکہ انہوں نے یہ فراہم کیا کہ پاکستان کی معاشی مشکلات کے سبب سعودی عرب سے مدد فراہم کرنے کی درخواست نے وزیراعظم کو دُکھ پہنچایا ہے۔ وہ اس دُکھ کا ازالہ ”چوروں اور لٹیروں“ کو احتساب کی چکی سے گزارنے کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں۔

وزارتِ داخلہ وزیر اعظم نے اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔ بدھ کی شب اس حقیقت کو یاد دلایا اور یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ ایف آئی اے کی جانب سے منی لانڈرنگ کے بارے میں ہوئی تحقیقات کی براہِ راست نگرانی کررہے ہیں۔

ان کی جانب سے بیان ہوئی اس حقیقت نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ چند ”چور اور لٹیرے“ سیاست دانوں کی گرفتاری کا کریڈٹ اب وہ خود لینے کو بے چین ہیں تانکہ ان کے چاہنے والوں کو یقین آئے کہ ان کے محبوب رہ نما نے بدعنوان سیاست دانوں کے احتساب کا معاملہ فقط نیب کے لئے نہیں چھوڑا۔ نہ ہی متحرک عدلیہ کے ازخود نوٹسوں پر تکیہ کیا۔ ”چوروں اور لٹیروں“ کا بذاتِ خود تعاقب کرکے انہیں سزائیں دلوانے کو یقینی بنایا۔

وزیر اعظم کا بدھ کے روز ہوا قوم سے خطاب اپنے انداز ا ور پیغام کے حوالے سے اس بے ساختہ خطاب سے قطعاََ مختلف تھا جو 25جولائی 2018کے انتخاب کے بعد انہوں نے تحریک انصاف کے سربراہ کی حیثیت میں کیا تھا۔ اس وقت وہ متوقع وزیر اعظم تھے۔ اپنے منصب سے چند روز کے فاصلے پر بیٹھے عمران خان صاحب ماضی کو فراموش کرتے ہوئے اپنی جماعت کو ووٹ نہ دینے والوں کو بھی اپنے ساتھ ملاکر آگے بڑھنے کی خواہش میں مبتلا نظر آئے تھے۔

بدھ کی شب قوم سے خطاب کرنے والے وزیر اعظم ایک بار پھر Core Constituencyکو یقین دلاتے سنائی دیے کہ ”چوروں اور لٹیروں“ کو کسی صورت بخشا نہیں جائے گا۔ ان کے مداحین حوصلہ رکھیں۔ ان پر اعتبار کریں۔ خلقِ خدا کو مہنگائی اور دیگر مشکلات سے بچانے کے لئے انہوں نے کسی واضح حکمت عملی اور عزم کا اظہار نہیں کیا۔

ان کے کئی چاہنے والوں کو بھی بلکہ یہ محسوس یہ ہوا کہ وہ وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے تین ماہ بعد بھی اپوزیشن کے کنٹینر سے نیچے نہیں اُترے ہیں۔اپنی مخالف ٹیم کو پویلین میں بھیج کر بھی کپتان چین سے نہیں بیٹھا ہے۔ شاید یہ چاہتا ہے کہ مخالف ٹیم خوف کے مارے پویلین ہی میں دبک کر بیٹھی رہے۔ کھیل کے میدان میں لوٹنے کی ہمت نہ دکھائے اور کپتان اکیلا ہی میدان میں انہیں للکارتا نظر آئے۔

ملکی سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ عمران صاحب کی اپوزیشن میں بیٹھے ”چور اور لٹیرے“ ان کی حکومت کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کے خواہش مند نہیں۔ وہ یکجا ہوکر کوئی قدم اٹھانا چاہیں تب بھی عمران حکومت کو کسی سٹریٹ ایجی ٹیشن کے ذریعے گھر بھیجنے کی فی الوقت گنجائش موجود نہیں ہے۔

عمران خان کا 126دن والا دھرنا بھی نواز شریف کو ہٹا نہیں پایا تھا۔ وزیر اعظم کو سپریم کورٹ نے تاحیات نااہل قرار دے کر بھیجا تھا۔ نواز شریف کی نااہلی کے باوجود ان کے نامزد کردہ شاہد خاقان عباسی نے مسلم لیگ نون حکومت کی پانچ سالہ آئینی مدت ختم کرنے کے بعد ہی اقتدار نگران حکومت کے حوالے کیا تھا۔

موجودہ اپوزیشن کو عمران خان جیسی کرشماتی شخصیت میسر نہیں۔ پیپلز پا رٹی کے ”جیالے“ عرصہ ہوا ایجی ٹیشن کی سیاست بھول چکے ہیں۔ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ عوامی احتجاج کے قابل نہیں۔ نواز شریف نے پہلی بار احتجاجی انداز کو تھوڑے عرصے کے لئے اس وقت اختیار کیا تھا جب صدر اسحاق نے ان کی پہلی حکومت کو فارغ کیا۔

1993میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے قائم ہوجانے کے بعد انہوں نے ”تحریکِ نجات“ چلانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔بعدازاں ڈرائنگ روم سازشوں کی بدولت پیپلز پارٹی کے لگائے صدر فاروق لغاری کے ذریعے 1996میں محترمہ کی دوسری حکومت کو فارغ کروایا گیا تھا۔

جنرل مشرف کی حکومت بھی کسی تحریک کے نتیجے میں نہیں بلکہ وکلاءکی افتخار چودھری کی حمایت میں چلائی تحریک کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوئی تھی۔ جنرل مشرف کی زیر نگرانی 2002میں قائم ہوئی قومی اسمبلی نے لیکن اپنی آئینی مدت مکمل کی۔ اس کے پانچ سال ختم ہونے کے بعد ہی 2008کے انتخابات ہوئے تھے۔اس سے قبل نہیں۔

ٹھوس حقائق پر مبنی یہ تاریخی تناظر عمران حکومت کے لئے باعثِ اطمینان ہونا چاہیے۔ عوام کے ووٹوں اورخوش گمانی کی محتاج حکومتیں ایسے ماحول کی دُعامانگتی ہیں۔ اپنے اقتدار کے استحکام پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی Constituencyیا حمایت کو بڑھانے اور پھیلانے کی کوشش کرتی ہیں۔ سیاسی مخالفین کو للکار کر اشتعال دلانے میں وقت ضائع نہیں کرتیں۔ عمران خان صاحب مگر خود کو ایک کرشماتی اور انقلابی رہ نما شمار کرتے ہیں۔

آج کی دنیا میں کئی ممالک کے حکمران بھی اپنے بارے میں یہ محسوس کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ترکی کا ”سلطان اردوان“۔ اردوان مگر کئی برس تک اپنے ملک کی معیشت پر بھرپور توجہ دینے کے بعد اس مقام تک پہنچا ہے۔ ٹرمپ اپنی من مانیوں کو Affordاس لئے کرسکتا ہے کہ امریکی معیشت اس وقت مستحکم ہے۔

اس کے باوجود خدشہ ہے کہ اگلے ماہ کے آغاز میں امریکہ کی قومی اسمبلی جسے وہ ہاﺅس کہتے ہیں کے لئے ہوئے انتخابات کے دوران شاید اس کی جماعت اکثریت حاصل نہ کر پائے۔ڈیموکریٹ کثیر تعداد میں وہاں پہنچ گئے تو ٹرمپ بھی اپنی اوقات میں آجائے گا۔ پاکستان کی معیشت اس وقت آکسیجن ٹینٹ میں ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کو اسے ICU سے باہر لانے پر اپنی توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ ”کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے“والا رویہ ان کے کام نہیں آئے گا۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).