عورت شجر ممنوعہ


ایک ایسے وقت میں جب دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اور ٹکراکے بازی لینے والے مفکرین ففتھ جنریشن جیسی جنگ کی پیشنگوئی کرچکے ہیں، اور باقاعدہ عالمی سطح پر تہذیبوں پر قابو پاتے ہوئے زیر اثر لانے کے عملی اقدامات میں مصروف ہوچکے ہیں، ایسے وقت میں گلگت بلتستان کے ثقافت کے حوالے سے ایک لہر دوبارہ اٹھ گئی ہے۔ اس لہر کوزیر بحث لانے میں قومی ٹی وی چینل کی اینکر صنم بلوچ کا گلگت میں منعقد ہونے والا پروگرام اور اس میں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کی کچھ طالبات کی جانب سے مخلوط ناچ پیش کرنے کا اہم کردار ہے، الزامات اور خدشات کا سلسلہ بڑھ کر قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی تک بھی جاپہنچا اور شنید ہے کہ وائس چانسلر قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی نے اس معاملے پر بھی نوٹس لے کر کمیٹی قائم کردی ہے اور تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

تیسری دنیا کے ممالک اور خطوں میں ثقافت ہمیشہ المیہ کے طورپر سامنے آیا ہے، گلگت بلتستان جیسے دوردراز علاقے میں جہاں پر ثقافتی ورثہ کا تحفظ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہے وہاں پر اگر یہ خیال کیا جائے کہ ثقافت محفوظ ہوں تو ایں خیال است تو محال است والی بات ہوگی، اسی وجہ سے گزشتہ کئی دہائیوں سے گلگت بلتستان میں ثقافت کا لفظ صرف اور صرف مقامی موسیقی اور ناچ تک کے لئے محدود و مخصوص ہوکررہ گیا ہے، فنکار برادری بھی ہمیشہ ثقافتی پروگرام کے نام پر کبھی کوئی گانا جاری کرتی ہے تو کبھی کوئی البم جاری کیاجاتاہے۔

ثقافت کا موضوع ایک مضمون یا کالم میں نہیں سمویاجاسکتا ہے اور نہ ہی برداشت کیا جاسکتا ہے۔ ثقافت بیرون دنیا میں علاقے کی پہچان ہوتی ہے، ثقافت کے مضبوطی کے تعین کرنے میں جہاں فوج، معیشت اور سیاست جیسے عناصر بھی شامل ہوتے ہیں، وہی پر ماہرین نے مذہب کو بھی ثقافت کے زیر اثر اور زیرنگیںقرار دیا ہے اسی لئےثقافت کے موضوع کو اتنا معمولی اور آسان سمجھ کر اگر گفتگو کی جائے یا لکھا جائے تو تیسری دنیا کے ’مذہبی ممالک ’میں انتشار کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا، جہاں پر معاشرتی ہی نہیں بلکہ حکومتی امور میں بھی مذہبی عمل دخل غالب رہتا ہے۔ ثقافت کا ایک اہم جز ذبان ہوتی ہے جسے دنیا میں یہ اعزاز ہے کہ اسے ماں سے منسوب کردیا گیا ہے، اور یہاں حالت یہ ہے کہ زبانوں کا تحفظ تو دور کی بات ہے، طعنہ زنی کے ذریعے ایک پوری زبان کو دارفانی کی طرف روانہ کرچکے ہیں۔ غرض یہ کہ ثقافت عملی طور پر صرف ناچ گانا تک ہی محدود رہ چکی ہے باقی لفظ ’ثقافت‘ مذموم مقاصد کے پیچھے ڈھال بن چکی ہے۔

گلگت بلتستان میں مخلوط ڈانس اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں مخلوط نظام تعلیم اور فحاشی قابل بحث باتیں ہیں۔ فحاشی کا موضوع ہر معاشرے میں الگ الگ حیثیت رکھتا ہے، بعض معاشروں میں خواتین کی آنکھیں نظر آنے کو بھی فحاشی سے تشبیہ دی جاتی ہے تو بعض معاشروں جدید پوشاک پہننے کو بھی فحاشی نہیں سمجھا جاتا ہے اب تو دنیا میں ’ہم جنس پرستی‘ اور ’میرا جسم میری مرضی‘جیسے نعرے اور نظریات وجود میں آگئے ہیں۔ سماجی تفریقات کی وجہ سے یکطرفہ کسی بھی چیز کو فحاشی یا اس کے اسباب میں شمار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بعض علاقوں میں اب بھی خواتین کی تعلیم کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں خواتین کو ہراساں کرنے کے الزامات متعدد مرتبہ زبان زدعام آچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک تشویش پیدا ہوچکی ہے جن کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کی بھی ضرورت ہے، تاہم چند ایک واقعات کی بنیاد پر اسے پورے یونیورسٹی پر ’فٹ‘ کرنا دانشمندی نہیں ہے۔ اپنے دور کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو پر بھی فحش مضمون نگاری کا الزام لگایا گیا وجہ صرف یہی تھی کہ اسے پردوں اور سماجی سرحدوں کا خوف نہیں تھا۔

یہاں اصل موضوع سماج میں خواتین کی حیثیت کا ہے، جو کہ یقینا ناقابل بحث موضوع ہے اورشجر ممنوعہ قراردیا جاچکا ہے، جن پر لب کشاہی کرتے ہی ’غیرت ’ جاگ جاتی ہے، خواتین کو زیر نگیں رکھنے کا معاملہ معاشرے اور ملکی ترقی سے جڑا ہوا ہے۔ موجودہ وقت میں خواتین نے کوئی ایسا شعبہ نہیں چھوڑا ہے جس میں انہوں نے مردوں سے مقابلہ نہ کیا ہو۔ تاہم گلگت بلتستان میں یہ صورتحال اتنی عمومی نہیں ہے کہ وہاں پر خواتین کو اس حد تک آزادی دیں کہ وہ مردوں کے مقابلے میں آئے یا پھر شانہ بشانہ کام کریں، دلچسپ امر یہ ہے کہ جن اضلاع میں خواتین کی تعلیم اور گھروں سے باہر نکل کر کام کرنے کا رواج ہے وہاں سے سب سے زیادہ خودکشیوں کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ اگر گلگت بلتستان میں روایت پسندی کے تحت خواتین کو عزت کا نشان سمجھتے ہوئے حصول ڈگری تک محدود رکھنا ہے تو جدید ضروریات اور تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے گھریلو تعلیم کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اگر جدت پسندی اور ترقی کی جانب جانا ہے تو خواتین کو ایک فرد کے طور پر لینا ہوگا، ان کا ہر عمل قدم اتنا ہی جوابدہ ہوگا جتنا ایک مرد ذمہ دار اور جوابدہ ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان میں اب بھی کئی مقامات میں شادی بیاہ کے معاملات میں پوچھا تک نہیں جاتا ہے۔ پیداواری اور پیدائشی صلاحیات کی تقسیم کی وجہ سے باصلاحیت خواتین بھی صرف گھروں تک محدود رہتی ہے۔

جب معاشرے میں اور گھروں میں لڑکوں کو تعلیم، اخراجات اور دیگر ضروریات میں ترجیح دی جائے، زمانہ قدیم کے تصورات کے مطابق خواتین کو جاگیر کے طور پر دیکھا اور رکھا جائے، گھر سے باہر نکلتے ہی مشکوک نظر سے دیکھا جائے۔ گھروں میں لاڈ پیار، معاشرے میں اپنا وجود ثابت کرنے کے لئے تربیت نہ دیا جائے اور حیثیت میں تفریق کی جائے تو یقینا ایسے خواتین حصول تعلیم میں بھی ہچکچکاہٹ کا سامنا کریںگی، اور شہری یا نسبتاً آزاد ماحول دیکھ کر خود کو کوستی رہیںگی۔ اگر معاشرے میں خواتین کو عزت سے جینے کا درس نہ دیا جائے تو یقینا ایسے خواتین کو راہ سے پھسلانا آسانی سے ممکن ہوسکے گا۔ ایسی کوئی مثال نہیں مل سکتی ہے کہ کسی کو گھر میں بہترین تربیت دی جائے، برابری کی حیثیت دیتے ہوئے معاملات میں تفریق نہ کی جائے، ایسی خواتین نے کبھی معاشرتی سرحدوں کو توڑا ہے۔ اگر دنیا کی رفتار سے قدم بہ قدم چلنا ہے ففتھ جنریشن وار، ہم جنس پرستی جیسے نعروں اور نظریات کو مدنظر رکھ کر تربیت دینی ہوگی اور ثقافت جیسے موضوعات کو ایک بار پھر سے ترتیب دینا ہوگا۔ انسانی فطرت بھی ایسی ہی ہے کہ جس کام کو سمجھائے بغیر روکا جائے اس کی طرف طبیعت زیادہ مائل ہوتی ہے۔ جس قسم کی تربیت دی جائے گی اس قسم کی ہی عکاسی کسی میں دیکھی جاسکتی ہے۔
عورت کا ذہن مرد کی اس کائنات میں
اب تک ہے الجھنوں کا نشانہ بناہوا

خواتین کے اس موضوع کو ثقافت سمجھنا سرے سے ہی غلط ہے۔ جس کام کو معاشرے میں عمومیت حاصل نہیں ہوتی ہے اس کام کے کرنے کو معیوب ہیسمجھا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان میں مخلوط ڈانس کا یہ پہلا واقعہ اگر چہ نہیں تھا اس سے قبل متعدد ملکی جامعات اور مقامی تقریبات میں مخلوط رقص کی ویڈیوز بڑی شہرت بھی پاچکے ہیں، ان تمام کی مذمت اس لئے نہیں کی جاسکتی ہے کہ کوئی بھی دوسرا یا تیسرا بندہ کسی خاتون کا نہ ذمہ دار ہے اور نہ ہی جوابدہ ہے، البتہ ایسی رقص یا محفلوں کو اجتماعیت سے تشبیہ دینا سراسر غلط ہے کیونکہ ابھی یہاں پر اتنی ترقی نہیں ہوئی ہے۔ صنم بلوچ کا پروگرام عین چہلم کے موقع پر لائیو نشر ہونے کی وجہ سے بے ادبی کا خیال غالب آگیا ہے، صنم بلوچ یا اس کی ٹیم کو غالباً گلگت بلتستان بالخصوص گلگت شہر میں چہلم کی حساسیت اور مسائل کا علم نہیں ہوا ہوگا لیکن محکمہ سیاحت کے وزیر اور سیکریٹری، جو سٹیج پر تشریف فرما تھے، کو اس حوالے سے یقینا خیال رکھنا چاہیے تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).