عکس در عکس


انسان کا سفر انفرادی نہیں اجتماعی ہے، تہذیب اور خیال یعنی فکر دونوں ملُ کر انسان کی پرورش کرتے ہیں۔ تہذیب ہر وقت ارتقا میں ہے، کہ اس کی تکمیل اس کی موت ہے ”حیات“ خاکی جسم میں ہے اور یہ ریت اور ٹیلوں، مٹی اور کیچڑکے علامتی نشانات میں ظاہر ہو کر رہتی ہے۔ لیکن اس کے باوصف ہمارے خیالات جن کےوجود کی رفتار تیز بھی ہے اور وہ ارتقائی منازل سے بھی گزرتی ہے مگر رہتی اپنی اصل شکل میں ہے۔ دراصل ”وہ“ ہے تو میں ہوں مگر تبدیلی تو خاک کی صفات میں آتی ہے۔

گویا انسانی حالت میں قوانین کو توڑیں تو سزا پاتے ہیں، لمحہ بھر جو سوچیں کہ فطرت سے ہی منحرف ہوں یا اس کو نا مانیں تو خیال کرتے ہیں کہ وہ بھی ہمیں نہیں پہچانتی۔ تب ہی تو ہم فطرت اور اس کے رویوں سے باغیانہ انداز میں منہ موڑ نے کی ناکام کوشش کرتے پیں، اور پھر درویش در درویش، تخلیق سے خالق، اور خالق سے مالک کا سفر طے کرنے میں مصرف ہو جاتے ہیں۔
ہم بےبس ہیں، مجبور ہیں، جوابدہ ہیں گنہگار نہیں۔

جب محبت کے فلسفۂ زندگی کو ذاتی تجربوں اور واقعات میں تلاش کریں تو پہچان کے کرب سے باہر نکل جاتے ہیں، پھر جواب عذاب نہیں بنتے بلکہ بے حساب علم کے ذخیروں کے در کھول دیتے ہیں۔

فاصلے طویل ہیں مگرمسافر بے کل ؛ تب ہی تو زمان و مکاں ان کی دیلیز پر بے بس کھڑا ہے ڈاکیا بن کر۔ یعنی رومانیت کا طوفان برپا ہے اور اس کی لہر کا بہاؤ مغرب سےمشرق کی طرف نہیں بلکہ انسانی ذہن کی مہم جوئی، روایت شکنی اور کھلے دل سے سینے میں بند سچ کو کہہ جانے کا انمول نتیجہ ہے۔

یہ تحریر دوستی، حیرت، سچ، محبت، رشتوں کی بنیاد ”دانائی، دولت، شہرت، دانائی اور کائنات کے نظام کے گرد کسی بھنورے کی مانند گھوم رہی ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل اور رابعہ الرباء اپنی اپنی کہانیوں میں سچ تلاش کر رہے ہیں۔ مگر دونوں حیرتوں میں گم ہو جاتے ہیں کہ سچ کی شکل وہ نہیں جو ہم خود بناتے ہیں، سچ کی حقیقت ہمارے تخیل سے ہم پر اس طرح ظاہر ہو گی۔ اس کا شاید ان دونوں مسافروں کو بھی ادراک نہ ہوا، اس کے ڈیرے اینٹ اور مٹی کی مضبوطی سے نہیں توکل سے جڑے ہوتے ہیں۔

اس تحریر کے دونوں کردار اپنے اپنے باطنی اور داخلی ماحول اور معاشروں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے جڑیں ذہن کی زمین کے اندر اس قدر دھنسی ہیں کہ وہ اعتراف کے نئے سچ کے بیج بو کر ان میں جینیٹک انجینئرنگ کی مدد سے نیا نمونہ دیکھنے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔

جذبہءُ محبت اور ولولہ ء عشق کی تازگی کے واسطے معاشی اور معاشرتی دونوں کے پہرے اس قدر سنگین ہوتے ہیں کہ آرزوؤں کا کرب تصور کی شکل میں نظروں میں گھومتا ہے مگر ذہن کے دریچوں میں گھر نہیں کرتا۔ اگر کرب کو آرزو بنا لیں تو افکار کے چہرے سے“ پردہ ”ماحول نہیں محبوب اٹھاتا ہے۔ ہماری مجبوریاں ہمارے راستے ہیں، ہماری خواہشیں پرندے ہیں اور ہمارے جذبے ہماری تقدیریں ہیں۔ گویا راستوں کو سیدھا، پرندوں جو اڑا کر اور تقریروں کو تعبیروں میں رنگ بھرنے سے عین فطرتی انداز میں محبوب سے ملاپ ممکن ہے۔ اور یہ محبوب ’ہم‘ خود ہیں۔ یعُی خود شناسی کے سفر پر ہمیں کوئی دوسرا نہیں بلکہ اپُنے جیسے ہی تمام چہرے اندر باہر، اوپر نیچے اور آگے پیچھے نظر آتے ہیں۔
ان دونوں مسافروں نے آئینے میں دیکھا تو ایک دوسرے کا عکس ہی بنا!

بینا گوئندی
Latest posts by بینا گوئندی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).