نواز شریف کی خاموشی


محترمہ کلثوم نواز کے سانحہء ارتحال کے بعد نواز شریف بالکل چپ ہیں۔ محترمہ کے قید حیات و بند غم سے رہا ہونے کے کچھ ہی دن بعد نواز شریف کے لیے بھی عارضی طور پر قفس کے دروازے وا کر دیے گئے اور وہ جاتی امرا میں گوشہ نشین ہو کر اپنی وفادار، مخلص، بہادر اور فہمیدہ و جہاندیدہ اہلیہ کے ساتھ گزارے طویل ماہ و سال کی یادوں کی راکھ کریدنے بیٹھ گئے۔ لوگوں نے اپنی اپنی سمجھ بوجھ، فہم و فراست اور افتاد طبع کے مطابق ان کی اس خاموشی کو مختلف معنی پہنائے۔

اکثر نے تو اسے اس وقفہءخاموشی کو وفاشعار رفیقہء حیات کے چل بسنے کا سوگ قرار دے کر کسی ایسے سانحے کے موقعے پرانسانی نفسیات کی مختلف جہتوں سے رمز آشنا ہونے کا ثبوت دیا۔ کچھ نے بازاری انداز سیاست کا چلن اپناتے ہوئے ان کی خاموشی کو کسی مبینہ ڈیل یا ڈھیل کا شاخسانہ قرار دیا۔ کئی ستم ظریفوں نے اسے نواز شریف کی بزدلی اور کم ہمتی پر محمول کیا۔ کسی نے اسے میاں صاحب کے سیاست سے توبہ تائب ہونے کا اشارہ سمجھا اور بہتوں نے ان کی اس خاموشی سے یہ معنی نکالے کہ انہوں نے اپنا مشہور زمانہ بیانیہ تبدیل کر لیا ہے۔ غرض جتنے منہ تھے اتنی باتیں۔ بقول شاعر

نکالے گئے اس کے معنی ہزار
عجب چیزتھی اک مری خامشی

چالیس روزہ سوگ اور چہلم کے بعد بھی نواز شریف قریب قریب خاموش ہی ہیں۔ سوائے ٹیکسلہ کے جلسے کے نہ کوئی دبنگ پریس کانفرنس کی نہ کو دھماکہ خیز بیان داغا نہ کوئی گھن گھرج والا نعرہ سامنے آیا نہ اپنے مشہور بیانیے کی للکار سنائی دی اور نہ ہی اداروں کو برا بھلا کہا گیا۔ بولتے وہ پہلے بھی زیادہ نہیں تھے تاہم اپنی نا اہلی کے بعد جس طرح انہوں نے احتجاج، مزاحمت اور جرات مندانہ موقف متعارف کروا کر مقتدر قوتوں اور ان کے ہالی موالیوں کی نیندیں حرام کی تھیں، اس سب کو دیکھتے ہوئے سب کو یقین تھا کہ محترمہ کلثوم نواز کے چہلم کے بعد میاں صاحب نے کشتوں کے پشتے لگا دینے ہیں۔

بلا سے کوئی کہے دن کورات چپ رہنا
تم اپنے ہونٹوں پہ رکھ لیناہات چپ رہنا
تمہاری چیخ تمہیں بے پناہ کر دے گی
شکاری کب سے لگائے ہے گھات چپ رہنا

اب تو میاں صاحب کی خاموشی باقاعدہ ان حلقوں کو بھی چبھنے لگی ہے جو ان کے بولنے پر ہمہ وقت معترض رہتے تھے۔ میاں صاحب نے اگر لب سی ہی لیے ہیں اور زبان و آنکھیں بند کرکے کان کھلے رکھنے کا فیصلہ کرہی لیاہے تو ان کے مخالفین اور حریفوں کو کیوں تکلیف ہونے لگی ہے۔ وہ میاں صاحب کو کسی حال میں بھی خوش کیوں نہیں دیکھنا چاہتے؟ میاں صاحب بولیں تو بھی وہ ناراض میاں صاحب ہونٹوں پہ تالے لگا لیں تب بھی یہ نالاں!

چپ جو رہیں ہم تو وہ رنجیدہ ہو جاتے ہیں
بولیں تو حالات کشیدہ ہو جاتے ہیں

خاموشی کی کوئی تو حدہوگی جو بھرپور قوت گویائی کی مظہر ہو گی۔ صوفیانہ مسلک میں جن کو خبرہوجاتی ہے وہ چپ ہوجاتے ہیں۔ میاں صاحب نے آنے والے وقتوں میں کیا کسی انہونی کی سناؤنی کی سن گن لے لی ہے؟ ایک خاموشی مظلوم کی بھی ہوتی ہے، جو جب آہ رسا میں ڈھلتی ہے توعرش بھی ہل جاتا ہے۔ کیونکہ چپ سے بڑی کوئی بددعا نہیں ہوتی۔ جب بندہ بولتا ہے تو قدرت خاموش رہتی ہے اور جب بندہ خاموش ہو جاتا ہے توقدرت انتقام لیتی ہے۔ کبھی کبھی خاموشی خود چپ سادھ لینے والے کے لیے زہرقاتل بن جاتی ہے۔ ضبط لازم سہی مگر اس سے بعض اوقات دم بھی گھٹنے لگتا ہے۔ زبان گنگ ہو جائے تو خاموشی کی چیخیں انسان کو اندر سے زخمی کردیتی ہیں۔

خموش رہنے کی عادت بھی مار دیتی ہے
تمہیں یہ زہرتواندرسے چاٹ جائے گا

کیا میاں صاحب خاموش رہ کر اپنے بولنے کا تاوان ادا کر رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ان کی یہ خاموشی بعید از وقت ہے۔ جب چپ رہنے کا وقت تھا وہ ہنگامہ برپا کیے رہے اب بولنے کاوقت آیاتو مہربلب ہیں۔ کیا وہ کسی دانا کے قول پر عمل پیرا ہیں کہ جس نے کہا تھا کہ میں جب بھی پچھتایا اپنے بولنے پر پچھتایا، خاموشی پرکبھی نہیں پچھتایا۔ خاموشی غصے کا بھی بہترین علاج ہے۔ ممکن ہے میاں صاحب اپنے منہ زور غیض و غضب پر قابو پانے کی ریاضت کررہے ہوں۔ جولوگ انہیں یہ طعنہ دے رہے ہیں کہ غالب غزل سرا نہیں ہوا وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ خاموشی اعلی ظرفی اور بلند حوصلگی کی علامت بھی ہوتی ہے۔

کہہ رہاہے شوردریاسے سمندرکاسکوت
جس کاجتناظرف ہے اتناہی وہ خاموش ہے

کچھ لوگوں کی خاموشی رنگین و مسجع و مقفع گفتگو پر بھاری ہوتی ہے۔ اگر نوازشریف کی طویل خاموشی سے لوگ طرح طرح کے مطلب نکال رہے ہیں تو یہ ان کے سکوت کی فتح ہے۔ خاموشی کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ جب یہ بولتی ہے تو نقار خانے دم سادھ لیتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ خاموشی طوفان کاپیش خیمہ بھی ہوتی ہے۔ کیا میاں صاحب کی خاموشی واقعی کسی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے؟

طاری ہے ہرطرف جویہ عالم سکوت کا
طوفاں کا پیش خیمہ سمجھ، خامشی نہیں

بہر کیف میاں صاحب کو بہت جلد لب اظہار کے تالے کھولناہوں گے۔ بے زبانی کوزبان دیناہوگی۔ وہ عمران خان نہیں جنہیں قدم قدم پر اپنے ادا کیے گئے لفظوں کا تاوان یو ٹرن کی صورت میں بھرناپڑے گا۔ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ میاں صاحب کے سیاسی اور ”غیر“ سیاسی حریف ان کی چپ پر اس قدر چیں بہ جبیں ہو رہے ہیں تو اس وقت کیا عالم ہو گا جب میاں صاحب نے واقعی دوبارہ بولناشروع کردیا! آخر میں میاں صاحب کی خدمت میں صرف یہ عرض کریں گے کہ نہ وہ صوفی ہیں نہ سالک نہ درویش نہ سادھو نہ جوگی نہ تارک دنیا قلندرنہ پہنچے ہوئے بزرگ، وہ اول آخر سیاستدان ہیں جن کی بہت بڑی متاع قوت گفتار ہے۔

خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے
تڑپ اے دل تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).