ٹوٹی ہوئی دیوار – ناول قسط چھ


چھٹا باب

وقت: بارہ بج کر تیس منٹ رات
تاریخ: 7 نومبر، 2015

مقام: مسی ساگا۔ کینیڈا

دروازے کے کھلنے کی دھیمی سی آواز اور مما کی دھاڑتی ہوئی تیز آوازیں جو آپس میں ملیں تو ثانیہ کے سارے بدن میں ایک خوف کی لہر سی دوڑ گئی۔ اُسے لگا جیسے ایک طوفان کسی چیتے کے مانند گھر کے جنگل میں دبک کر اُس کی واپسی کے انتظار میں اُسے دبوچنے کے خاطر تیار بیٹھا ہوا تھا۔ مگر یہاں صرف چیتا ہی نہیں تھا بلکہ اُس کے پیچھے ایک شیر بھی غصے میں کھڑا ہوا میں ہانپ رہا تھا۔ مما کے پیچھے پپا دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں کس کر کھولتے ہوئے اُسے غصے سے گھور رہے تھے کہ جیسے ابھی اسے چیر پھاڑ کر اُسے کھا جائیں گے۔

”آگئی بے حیا پو چھیں اِس سے کیا گل کھلا رہی تھی اِس وقت آدھی رات میں وہاں اسٹار بکس میں؟ “ پپا نے اُس کو دیکھتے ہوئے چیخ کر اپنے سامنے ہی کھڑی ہوئی مما کو دیوار کی گھڑی دکھاتے ہوئے کہا۔

”مجھ سے مت کہیے۔ اوہ خدایا۔ ’ ’، مما جو شاید ابھی ابھی آدھی نیند سے اُ ٹھائی گئی تھیں، اُنھوں نے اُسے گھورتے ہوئے دیکھا اور پھر دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ کرلیونگ روم کی ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔

” بے شرمی بے حیائی کی حدیں ہوتی ہیں! یہ پٹ جائے گی میرے ہاتھوں سے۔ اس سے کہو دور ہو جائے میری نظروں کے سامنے سے۔ ”پپا نے شعلے برساتی ہوئی آنکھوں سے اُسے گھورتے ہوئے کہا، اُن کے منہ سے اُڑتا ہوا تھوک اُسے دور سے دکھائی دے رہا تھا۔

” تمھیں شرم نہیں آرہی تھی اُس سکھ لڑکے کے ساتھ؟ کیا بے شرمی تھی وہ سب؟ ”مما نے چنگھاڑتے ہوئے اُسے کہا

ثانیہ کے تو وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنی خوبصورت رومانی ملاقات کا انجام ا س قدر درناک ہونے والا تھا۔ اُس نے فرش کو تکتے ہوئے کہا، ’ ’ مما اُس کا نام دلیپ ہے میری ہی یو نیورسٹی میں پڑھتا ہے۔ اور ہم دونوں اچھے دوست ہیں۔ “ اور پھر اُس نے ایک لمحے کا وقفہ دے کر جھٹکے سے کہہ دیا، ”ہم دونوں ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔ “

”چپ ہوجا کمبخت دوزخ کی آگ میں جلے گی تو۔ “ مما نے جواب میں چیخ کر کہا۔

” میں نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسی بے حیا، بے غیرت اولاد ہوگی میری؟ “ پپا اب سر پر اپنا ہاتھ رکھ کر اُسے گھو رتے ہوئے زور سے بڑبڑانے لگے تھے، ”پہلے تو کسی کے ساتھ شادی سے پہلے ملنا ہی گناہ ہے پھر وہ بھی غیر مسلم سے۔ اور وہ بھی باہر چائے خانوں میں سب کے سامنے۔ اخ تھوں کتنی شرم کی بات ہے، ایسی اولاد پیدا ہونے سے پہلے مر کیوں نہیں جاتی ہے؟ کل تک میں لوگوں کی ایسی اولادوں کا سنتا تھا تو اُنہیں سمجھاتا تھا اور آج میری اپنی ہی اولاد یہ گل کھلا رہی ہے۔ ” پپا نے ’یہ‘ پر زور دے کر چیختے ہوئے کہا ”اس سے پو چھو نیلوفر۔ “ پپا نے اب کی بار مما کو مخاطب کرتے ہوئے چیخ کر کہا، ”اس کو ہم نے یونیورسٹی میں عشق لڑانے بھیجا تھا یا تعلیم حاصل کرنے؟ ارے اولاد اگر ایسی دھوکے باز ہو تو کوئی کیا کرے؟ “

”کرے کیا جی۔ “ مما نے پپا کا ہی جملہ دہرایا اور پھر اُسی لہجے میں ڈپٹ کر کہا ’لڑکی کی شادی کردو بس۔ بہت ہوگیا پڑھنا لکھنا، کوئی اچھی سی احمدی فیملی دیکھو اور اسے رخصت کرو۔ میں تو کہتی ہوں اگر یہاں اچھا رشتہ نہ ملے تو پاکستان چلو، بس بہت ہوا ہوگئی سب تعلیم وغیرہ، اِس کی یونیورسٹی ختم آج سے۔ ”ثانیہ کو لگا جیسے مما آج ہی اُس کے مستقبل کو ٹھکانے لگاد یں گی۔

” ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔ کوئی ضرورت نہیں کل سے یونیورسٹی جانے کی بیٹھو گھر میں بی بی، بہت ہوگیا یہ ڈرامہ تعلیم کا۔ ”پپا نے بھی مما کی طرح وہی کچھ کہا جو مما سننا چاہ رہی تھی۔

” اونہہ، گھر میں بیٹھو۔ ”ثانیہ نے دل میں سوچا مگر منہ سے نہیں کہا، اُسے لگا کہ اگر اس وقت اُس نے ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو اُس کے مما پپا بس اُسے کچا ہی چبا جا ئیں گے۔ یہ سوچ کر وہ اپنے کمرے میں جانے کے لیے آہستہ آہستہ سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھانے لگی مگر پیچھے سے مما کی چیختی ہوئی آواز نے پھرسے اُس کے قدم روک لیے، “ کہاں جارہی ہو تم، ابھی ہماری بات ختم نہیں ہوئی ہے، ہمیں بتاؤ یہ سلسلہ کب سے چل رہا ہے؟ ”مما کی زبان آگ اُگل رہی تھی۔

” پچھلے دو سال سے۔ ”ثانیہ جہاں تھی وہی رک گئی اور پھر مما پپا کی طرف دیکھے بغیر ہی آہستہ سے جواب دیا

” تو دو سال سے تم ہماری آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہو؟ ”

” مما میں کوئی دھول نہیں جھونک رہی ہوں۔ آپ نے پوچھا نہیں اسی لیے میں نے بتایا نہیں اور مجھے یہ پتہ تھا کہ آپ لوگ ایسے ہی ر ی ایکٹ کر ینگے۔ ”ثانیہ کی آنکھوں میں اب آنسو آنے لگے تھے اور آواز بھی بھرانے لگی تھی، “ کیونکہ وہ سکھ ہے میں مسلم اور وہ بھی احمدی اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ آپ لوگ احمدیوں میں ہی میری شادی کرنے کے پابند ہیں، کیونکہ آپ ہمیشہ سے یہی کہتی رہی ہیں مجھ سے، جب سے میں بڑی ہوئی ہوں تاکہ میں اس بات کو یاد رکھو ں کہ ہمارے یہاں ارینجڈ میرج ہوتی ہے اور وہ بھی صرف اپنے ہی لوگوں میں، اب اگر میں یہ آپ کو بتا دیتی کہ مجھے ایک لڑکا پسند ہے اور وہ سکھ ہے تو آپ نے کب مجھے معاف کر دینا تھا، آپ وہ ہی اُس وقت کرتی نا جو آج کر رہی ہیں۔ مما ہم نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے، ہاں ہم ایک دوسرے سے ملتے ہیں کیونکہ ہم ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔ ”ثانیہ نے جیسے ایک سانس میں ہی اپنے دل سے سارا طوفان نکال دیا اور پھر سے فرش کو تکنے لگی۔

” توتمھارے ارادے کیا ہیں بی بی؟ ”مما نے یہ سن کر تنک کر کہا

” مما مجھے نہیں پتہ آپ کیا پوچھنا چاہتی ہیں اور آپ کو کونسی بات زیادہ بری لگ رہی ہے؟ یہ کہ مجھے ایک بندہ کیوں اچھا لگتا ہے؟ یا یہ کہ ایک سکھ کیوں اچھا لگتا ہے؟ یا یہ کہ میں نے آپ کو یہ سب پہلے کیوں نہیں بتادیا تھا؟ یا یہ کہ میں اُس سے چھپ کر کیوں ملتی رہی ہوں؟ تو ان سب باتوں کا بس ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ مجھے اس لیے اچھا نہیں لگتا کہ وہ سکھ ہے یا مسلمان، پنجابی ہے یا ہندوستانی بلکہ وہ مجھے اس لیے اچھا لگتا ہے کیونکہ وہ ایک بہت ہی اچھا انسان ہے۔ اب رہی بات اچھا لگنے کی تو آپ کو بھی تو پپا اچھے ہی لگتے ہوں گے تبھی تو آپ نے اُن سے شادی کی تھی‘ آہستہ آہستہ ثانیہ کا لہجہ بدلتا جارہا تھا، وہ اب مما پپا کے اچا نک حملے سے باہر آرہی تھی اور اُس کا اعتماد بڑھتا جارہا تھا۔

‘بکواس بند کرو ’، اب کی بار پپا نے زور سے چنگھاڑا ’ ضرورت نہیں ہے تمھیں اپنی بے ہودگیوں کو ہمارے سامنے جسٹیفائی کرنے کی بی بی۔ ہم دونوں احمدی مسلمان تھے اور ہمارے خاندانوں نے عزت و احترام کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ ہمارے رشتے ناطے جوڑے تھے اور ہم شادی سے پہلے ایک دوسرے سے ملتے نہیں تھے بے شرموں کی طرح، تمھاری مما سے شادی کے بعد میں نے پہلی بار اُس سے بات کی تھی اور چھوڑ دو یہ سب باتیں تمھارے سمجھ میں نہیں آنے والی، بس اب میرا فیصلہ سنو، آگے سے یہ سب کچھ ہونے نہیں والا اور سنو جی ’ اس بار پپا مما سے مخاطب تھے۔ ’تمھیں بھی اب اس سے زیادہ سوال جواب کرنے کی ضرورت نہیں، ہمیں اس سارے معاملے کو زیادہ بڑھاوا دینا ہی نہیں۔ بس سمجھو یہ بات یہی پر ختم ہوگئی ہے اور اب اس کی شادی کے لیے سنجیدہ کوشش شروع کرو‘ یہ کہ کر پپا نے دوبارہ اُس کی طرف دیکھا اور خشمگیں نگاہوں سے اُسے گھورتے ہوئے کہا ’چلو جا ؤ اپنے کمرے میں اور اب اس موضوع پر اس گھر میں کوئی بات نہیں ہونے والی‘ پپا نے چار جملوں میں اپنا فیصلہ سنا کر جیسے سارے جھگڑے کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور پھر دونوں ہاتھ جھاڑ کر جیسے اُس پر آخری مٹھی مٹی بھی ڈال دی اور پھر چپ چاپ زمین کو تکنے لگے۔

ثانیہ نے خالی خولی مگرگیلی آنکھوں سے دونوں کو دیکھا، تھوک نگلا اور چپ چاپ مگر تیز قدموں سے سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اپنے کمرے میں چلے گئی اور پھر ایک زور دار آواز کے ساتھ دروازہ بند کردیا۔ اُسے یوں لگا جیسے دروازے کی زوردار آواز نے اُس کے جذبات کو زبان دے دی ہے۔ ثانیہ کو لگا جیسے اُس کے اندر کی تکلیف، غصہ اور بیزاری دروازے کی چوکھٹوں کے راستے پل بھر میں گھر کی دیواروں میں اتر گئی ہے جس نے لمحے بھر کے لیے اُسے پرسکون تو کردیا مگر زندگی بھر کے لیے اس گھر سے بے گانہ بھی کردیا۔

کمرے میں آکر کچھ دیر تو وہ یونہی بستر پر بیٹھی کمرے کی دیواروں کو تکتی رہی مگر پھر کچھ سوچ کر اپنے بیگ میں سے سیل فون نکا لا اور دلیپ کو کال کرنے لگی مگر دلیپ کا فون مصروف تھا اُس نے میسج ریکارڈ کرا دیا: ’سنو دلیپ، مجھے کال بیک کرنا ایک بہت ہی اہم بات کرنی ہے ’ اور بستر سے اُٹھ کر کمپیوٹر کے سامنے آکر بیٹھ گئی اور بددلی سے مانیٹر کی اسکرین تکنے لگی۔

ٹوٹی ہوی دیوار ساتویں قسط اگلے ہفتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).