پاکستان کا اولمپک گولڈ میڈلسٹ رنر


کچھ دن قبل ایک ہندی فلم ”M S Dhoni“ دیکھنے کا اتفاق ہوا جو کہ ایک انڈین کرکٹر کی زندگی پر بنائی گئی تھی فلم میں دکھایا گیا تھا کہ کس طرح دھونی ایک عام انسان سے بھارت کے لیے ورلڈ کپ جیتنے والا کپتان بنا اس فلم میں اس کا کرکٹ کے لیے جنون بھی دکھایا گیا ہے اور ساتھ ساتھ اس کی نجی زندگی کا یہ پہلو بھی بخوبی دکھایا گیا ہے کہ کس طرح شہرت ملنے کے بعدوہ ایک سے زیادہ خواتین کے ساتھ وابستہ رہا۔ اس فلم میں کرکٹ کے علاوہ اس کی زندگی کاکوئی قابل ذکرکارنامہ نظر نہیں آتا۔

لیکن پھر بھی اس فلم کے ذریعے ہندوستان والوں نے اپنے اس ہیرو کو حیات جاودانی بخش دی ہے۔ 2013 ء میں بھارت نے اپنے ایتھلیٹ ملکھا سنگھ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بھاگ ملکھا بھاگ کے نام سے ایک فلم بنائی۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ ہم پاکستانی اپنے ایک حقیقی معنوں میں ہیرو عبدالخالق کے بارے میں جانتے ہی نہیں۔ یہ عظیم ہیرو اورپاکستان کا قابل فخر اثاثہ ضلع چکوال کے ایک گاؤں جنڈ اعوان سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ ایتھلیٹ صوبے دار عبدالخالق تھے۔

صوبے دار عبدالخالق ریس کی دنیا کا بادشاہ تھا۔ ملکھا سنگھ نے عاملی مقابلوں میں پانچ گولڈ میڈل جیتے جبکہ پاکستان کے اس شیر دل کھلاڑی نے ریس کے بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کے لیے 36 گولڈ میڈلز، 15 سلور میڈلز اور 12 برانز میڈل جیتے۔ صوبے دار عبدالخالق نے The fastest man of Asia کا خطاب بھی حاصل کیا تھاجبکہ بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے انہیں ایشیاء کا اڑتا ہوا پرندہ یا Flying bird of Asia کا خطاب دیا تھا۔ اس عظیم ایتھلیٹ نے 1956 ء کے آسڑیلیا میں ہونے واکے اولمپکس مقابلوں، روم میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں 1954 ء اور 1958 ء کے ایشیائی مقابلوں میں سونے کے تمغے جیتے۔

1956 ء کے ایشیائی کھیلوں میں جو دہلی میں منعقد ہوئے تھے عبد الخالق نے 100 میٹر کی ریس 10.6 سیکنڈ میں جیت کر نیاعالمی ریکارڈ قائم کیا اس سے پہلے یہ ریکارڈ ایک اور ایتھلیٹ لیوں اپنٹو کا تھا جس نے 10.8 سیکنڈ میں سو میٹر کی ریس جیتی تھی۔

یاد رہے کھلاڑیوں اور ایتھلیٹس کی تربیت کی جتنی سہولیات اب میسر ہیں اس وقت ایسی سہولتوں کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ صوبے دار خالق ننگے پاؤں دوڑتے دوڑتے سونے کا میڈل جیتتا تھا۔

1971 ء میں جب مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تو دیگر پاکستانی فوجیوں کی طرح عبد الخالق بھی جنگی قیدی بنا لیے گئے۔ جب بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو معلوم ہوا کہ جنگی قیدیوں میں ایک پاکستانی ہیرو بھی شامل ہے تو اس نے عبد الخالق کو رہا کرنے کا حکم دیا لیکن صوبے دار عبد الخالق نے اپنے ساتھیوں کے بغیر رہا ہونے سے انکار کر دیا اور تب ہی پاکستان لوٹے جب شملہ معاہدے کے بعد تمام فوجیوں کو رہائی ملی۔ یہ قومی ہیرو 10 مارچ 1988 ء کو انتقال کر گئے اور ہم نے حسب عادت و حسب روایت اس عظیم انسان کو فراموش کر دیاحالانکہ زندہ اقوام کاہمیشہ سے شیو ہ رہا ہے کہ وہ اپنے ہیروز کو اپنی آئندہ نسلوں کے لیے مشعل راہ بنا لیتے ہیں۔

پاکستان میں عبدالخالق کے علاوہ بھی کئی ہیروز موجود ہیں جنہوں نے کرکٹ کے میدان میں پاکستان کے لیے دوعالمی کپ اپنے نام کیے۔ لیکن پاکستان میں ایسی پزیرائی کا تصور بھی نہیں پایا جاتا الٹا ان دونوں ہیروز کو سیاسی وجوہات کی بنا پر متنازعہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ شاہد آفریدی کی ریٹائرمنٹ کو بھی متنازعہ بنا دیا گیا۔ اور عمران خان کے کھاتے میں تو کرکٹ کے علاوہ گورنمنٹ پر بوجھ ڈالے بغیرکینسر ہسپتال اوریونیورسٹی قائم کرنے جیسے قابل تحسین منصوبے بھی ہیں قبل اس کے کہ مجھ پر عمران خان کی حمایت کا الزام لگے اک بات واضح کرنا چاہوں گا کہ ہم نے ہاکی کے میدان میں بھی چار ورلڈکپ جیتنے اور سکوائش کے میدان میں بے تحاشا میڈلزحاصل کیے لیکن ان تمام کھلاڑیوں کو گمنامی کی ا تھاہ گہرائیوں میں دھکیلنے کے علاوہ ہم نے کچھ نہیں کیا اورانڈیانے صرف کرکٹ پر ہی فلم نہیں بنائی۔ ان کی کی فلمیں جیسے کہ دنگل اور سلطان پہلوانی کے موضوع پر ہیں جبکہ میری کوم باکسنگ کے ہیرو کو خراج تحسین پیش کرتی نظر آتی ہے۔

ہماری یہ بدقسمتی صرف کھیلوں کے میدان تک محدود نہیں ہے ہم نے کسی بھی میدان میں ہیروز کی قدر نہیں کی۔ سائنس کے میدان میں عبدالسلام جیسا ہیرا قادیانیت کی نذر ہو گیا۔ جبکہ دہشت گردی کے دنوں میں امن اور تعلیم کی آواز ارٹھانے والی اور دنیا کی کم عمر ترین نو بل انعام حاصل کرنے والی ملالہ کا حال بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہاں تک کہ دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس شروع کرنے والا عبدالستار ایدھی بھی ایک متنازعہ شخصیت ہے اور مذہبی طبقہ اسے حرامی بچوں کو پالنے والا کہتا ہے۔

لیکن دوسری طرف نظر دوڑائیں تو ڈاکٹر رتھ فاؤ کو انعام دیا جاتا ہے اس کے علاوہ محمد بن قاسم، سلطان محمود غزنوی، ظہیر الدین بابر ہمارے ہیروز میں شامل ہیں۔ میں اس بات کے حق میں قطعی نہیں ہے کہ ان کو ہیروز نہ مانا جائے لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ یہ سارے لوگ جن کو ہم اپنے ہیرو مانتے ہیں ان میں محمد بن قاسم عراق سے آیا، سلطان محمود غزنوی اور بابر وغیرہ افغانستان اسے آئے۔ یہاں تک کہ ان میں سے اکثر تو آئے اور مال غنیمت لے کر چلتے بنے۔

لیکن پھر مان لیا کہ یہ سب ہمارے ہی ہیرو تھے لیکن یہ سب تو پاکستان بننے سے قبل زمانے کی بات ہے۔ موجودہ دور میں ستر سال کی تاریخ میں ہم شاید ایک بھی شخصیت ایسی نہ بتا پائیں جس کو ہیرو قراردیاگیا ہو۔ کیونکہ ہمارا ہر ہیرو متنازعہ ہے۔ سرکاری سطح پر کبھی اس چیز کی کوشش نہیں کی گئی کہ کسی شخص کو متنازعہ بنائے بغیر ہیرو تسلیم کیا جاسکے ایسا اعلامیہ ترتیب دینے کی کوشش نہیں کی گئی کہ حق دار کو حق مل سکے۔ قحط الرجال بڑھتا جا رہا ہے۔ موجودہ دور میں ایک بھی ایسا شخص نظر نہیں آتا جس کی مثال اپنی آئندہ نسل کو دے کر متحرک کیاجا سکے بے حسی، بے قدری کو جنم دے رہی ہے اور بے قدری اس ملک کے زرخیز دماغوں کو ملک سے ہجرت پر مجبور کر رہی ہے۔

اکثر لوگوں کو مزید تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کی ایک بڑی وجہ یہ سننے میں آئی ہے کہ پاکستان کو پڑھے لکھے اور پی۔ ایچ۔ ڈی حضرات کی ضرورت ہی نہیں ہے لوگوں کا سائنس سے منہ موڑ کر ایسے شعبہ جات ی طرف رجحان بڑھ رہا جن سے ان کامستقبل محفوظ ہو سکے۔ ریسرچ اور ٹیکنالوجی سے ہٹا کر روزی روٹی کے چکر میں الجھایا جا رہا ہے اور لوگوں کو جان بوجھ کر ان کی پہچان سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ امریکہ یا برطانیہ میں تو کوئی پاکستانی نژاد اچھا کام کرلے تو ہم سبز پرچم اٹھا کر کریڈٹ لینے کواٹھ کھڑے ہوتے ہیں اگر وہی کام کوئی اندرون پاکستان انجام دے تومن حیث القوم ہمیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔

بلا اختیار ایک اردو گانے کے بول ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں کہ
غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم اے جان وفا یہ ظلم نہ کر
رہنے دے ابھی تھوڑا سا بھرم یوں ہم کو جلانا ٹھیک نہیں

اس لیے بحثیت قوم ہمیں یہ غور کرنا ہو گا کہ مشاہیر کی قدر کرنا صرف مشاہیر کے لیے ہی ضروری نہیں ہوتا آئندہ نسلوں کے لیے بھی ایسے لوگ مشعل راہ کا کام دیتے ہیں لوگ ان کو دیکھ کر تحریک پکڑتے ہیں اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ ملکی سطح پر ان لوگوں کی خدمات کا اعتراف کیا جائے اور بھرپور سرپرستی کی جائے تاکہ آنے والی نسلوں کوتاریخ کو توڑ موڑ کر نہ پیش کرنا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).