ساودھان انڈیا، کرائم پیٹرول اور خوفناک دنیا


بھارتی چینلوں پر جرائم کی کہانیاں بڑی کثرت سے آتی ہیں۔ چند سال قبل اس نوع کے پروگرام ہمارے وطن کے چینلوں پر بھی کثرت سے آتے تھے مگر اب اُن کی وہ فراوانی اور پذیرائی نظر نہیں آتی۔ بہرحال اس جیسے بھارتی پروگرام بھی ہمارے وطن میں کافی مقبول ہیں مگر ان پروگراموں سے ہوتا کیا ہے اور یہ کیوں ذہنی صحت کے لئے مضر ہیں؟ ان پروگراموں میں جرائم کی داستانیں Dramatize کر کے دکھائی جاتی ہیں۔ یہ حقیقت (Fact) میں کہانی(Fiction) ملانے یعنی ایک نوع کی تخیل آرائی کا کام ہے۔ ظاہر ہے کہ جرائم یا تو پولیس کی فائلوں میں محفوظ ہوتے ہیں یا پھر اخبار اور خبروں کی کلپس میں۔

یہ دونوں ہی ذرائع (یعنی خبریں یا پولیس ریکارڈ) بہت سی انسانی جہات سے صریحاً خالی ہوتے ہیں اور ڈرامائی انداز میں پیش کرنے کے لئے خبر اور پولیس ریکارڈ کو کہانی بنانا پڑتا ہے۔ اس عمل میں ان پروگراموں کے خالق اپنی سوچ کے مطابق خالی جگہیں پر کرتے ہیں۔ پھر اہم بات یہ کہ کہانی میں کردار نگاری ضروری ہوتی ہے مگر ان پروگراموں میں بے حد گھسی پٹی( Stereotypical) کردار نگاری کی جاتی ہے۔ چلیے اس بات کو ذرا مثالوں سے سمجھتے ہیں۔

”ساودھان انڈیا“ کی ایک کہانی میں دکھایا گیا کہ ایک عورت نے اپنے خاندان کے کفیل، اپنے شوہر کے بہنوئی کو دریا میں دھکا دے کر مارا۔ اس کے شوہر کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو وہ ناراض ہوا مگر جب بیوی نے اسے بتایا کہ وہ یہ سب اسی کے لئے کر رہی ہے تو وہ فوراً راضی ہو گیا۔ اب اس نے بیوی کے ساتھ مل کر اپنے بھانجے اور بھانجی کو بھی ڈبو کر مارنے کا پروگرام بنایا اور دونوں کو کسی بہانے سے دریا پر لے جا کر ڈبو دیا۔ اب وہ اپنے تئیں دونوں کو مار کر جب گھر لوٹا تو تھوڑی دیر میں بھانجی گھر آ گئی (وہ ڈوبی نہ تھی) اب اس نے بھانجی کا گلا گھونٹا اورُ اس کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے مورتیوں کی ورکشاپ میں چھپا دیے۔ اِن ٹکڑوں کو وہ پھولوں میں چھپا کر دریا تک لے جاتا اور بھینٹ کی طرح دریا میں پھینک آتا۔

کہانی کی ابتداء میں اس شخص کو بے حد شفیق ماموں کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اگر وہ شفیق ماموں تھا تو اچانک اپنی بیوی کے بہکانے پر ایسا خوفناک قصاب کیسے بن گیا؟ وہ اپنے بہنوئی کے قتل کے حوالے سے اپنی بیوی پر ناراض کیوں ہوا تھا؟ پھر اس کہانی میں دکھایا گیا کہ بچوں کی ماں اپنی بیٹی کا کٹا ہوا سر مورتیوں کی ورکشاپ میں دیکھ لیتی ہے اور تھوڑی غمگین تو ہوتی ہے مگر پولیس کو فون کر کے سب بتاتی ہے اور جب قاتل ماموں بھینٹ کی تھالی میں سر ڈال کر دریا لے جا رہا ہوتا ہے تو بہن پولیس کے ساتھ آتی ہے اور اپنے بھائی بھابھی کو پکڑوا دیتی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ایک نارمل ماں کا ردعمل ہے؟ ایک ایسی ماں کہ جس کا شوہر مارا جا چکا، بیٹا مارا جا چکا اور بیٹی کا کٹا سر اسے اپنے ہی گھر میں بنی ورکشاپ میں ملا۔ یہ سب باتیں نہ کسی نارمل ماں کے بس کی بات ہے نہ یوں اپنے بھانجے بھانجی کو مار دینا کسی نارمل انسان کے بس کی بات ہے۔ پھر لاش کے ٹکڑے کر کے اسے آہستہ آہستہ تلف کرنا بھی پہلے بار قتل کرنے والے کے لیے محال ہے۔ دراصل یہ پروگرام بنانے والے بس خبروں اور موجود ریکارڈ سے تصویر بناتے ہیں۔ قرین قیاس یہ ہے کہ ایسے جرائم کرنے والے دراصل پہلے بھی جرائم کر چکے ہوتے ہیں۔ اسی لئے ان کا دل اتنا سخت ہوتا ہے اور یہ اس طرح کی قبیح حرکات کر پاتے ہیں۔ دوئم بات یہ کہ ساتھ رہنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ گھر کے افراد میں بہت ہی میٹھا اور محبت بھرا تعلق ہی ہو۔ شاعر کہتا ہے:

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

یہ کہانی تو محض ایک مثال ہے کہ جس سے یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ انسان ایک بے حد ناقابلِ اعتبار مخلوق ہے کہ جو اچانک ہی ڈریکولا بن کر اپنے ہی خونی رشتہ داروں کا قیمہ بناسکتا ہے۔ تاہم ایسا جو بھی پروگرام دیکھئے اس میں جرم کرنے والے کے اندر آنے والی تبدیلی بس اسی طرح یک دم واقع ہو جاتی ہے۔ ”ساودھان انڈیا“ کی ایک اور کہانی پیش خدمت ہے۔ ایک لڑکی ایک ڈاکٹر سے محبت کرتی ہے۔ لڑکے کے گھر سے رشتہ آتا ہے۔ لڑکے والے 50 لاکھ جہیز میں طلب کرتے ہیں۔

اب اتنا جہیز دینے کی استطاعت لڑکی کے بھائی کی نہ تھی۔ لڑکی اپنے منگیتر کے ساتھ مل کر منصوبہ بناتی ہے اور اپنے بھائی کو سیڑھی سے گرا کر زخمی کر دیتی ہے۔ منگیتر کے اسپتال کی ایمبولینس منصوبے کے مطابق آتی ہے اور وہاں بے چارے بھائی کا دل، جگر وغیرہ ڈونیٹ کر دیے جاتے ہیں اور بھائی کی لاش بھابھی کو یہ کہہ کر دے دی جاتی ہے کہ وہ دل کے دورے سے مر گیا۔ اب لڑکی کے منہ کو خون لگ جاتا ہے۔ وہ فیصلہ کرتی ہے کہ اسی طرح اپنی بھابھی کو بھی مار دے گی اور ان کے بھی اعضاء بیچ ڈالے گی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2