موت کا تعاقب: چی گویرا سے خاشقجی تک


اگر سانس رُک جانے کانام موت ہے تو ایسی ناپائدار زندگی تو صورتِ مرگِ انبوہ، امروز و فردا بپا ہوتی ہی رہتی ہے۔ کیا سود اور کیا زیاں؟ کیا حرکت اور کیا سکون؟ تارِ عنکبوت کی مجال کہ دونوں کے مابین کوئی خطِ انفصال کھینچ سکے؟ دونوں انتہائیں، اور ان جیسی دیگر لاتعداد انتہائیں، جدل و مناظرے سے گزر کر اپنے خصومات کو خود ہی فیصل کرتی رہتی ہیں، مہرے پٹتے رہتے ہیں۔ دفعتاً ایک دن ٹائم ٹنل (Time Tunnel) میں ایک موڑ آتا ہے۔

آگے والے کے پلٹنے، یکدم پلٹنے پر متعاقب مہروں کی مژگانِ متحرک ایکا ایکی تھم کر رہ جاتی ہیں۔ ’ارے یہ تو زندہ ہے۔ ’ سودو زیاں کے کیلکولیٹر پر مرگِ ناگہاں اور حیاتِ جاوداں کے بہی کھاتے نہیں کھلا کرتے، نہ یوں مردم شماری ہوئی کبھی۔ مرگِ ناگہاں کو اختتامِ زندگی گرداننے والے مہرے ہی تو شعلہ مستعجل کہلاتے ہیں۔ اپنی حیاتِ مستعار میں جنہیں وہ ناکام و نامراد اور مردہ خیال کر بیٹھتے ہیں، ایک دن یا شایدکسی نامعلوم لمحہ موجودسے تا ابد وہ توجزو تاریخ بن جاتے ہیں۔

ان لازوال ستاروں اور ان ستاروں سے معمور اَن گنت کہکشاؤں کا بیان شاید تاریخ کہلاتا ہے؟ نہ ہوا ابن خلدون کہ اس سے سوال کر گزرتا: ”پیرومرشد کچھ غلط تو متصور نہیں کیا؟ “ ابن خلدون تو صدیوں قبل جزوِ تاریخ بن گیا، مجھ نخچیرقنوطیت کا خیال ہے کہ اب یزداں نے انسانوں کو ان کی بداعمالیوں کی سزا دینے کی خاطر، ابن خلدون کے آخری تسلسل ٹائین بی کے بعد اس معدوم ہوتے سیارے میں مزید کسی کو بھیجنے سے انکار کر رکھا ہے۔

وہ ربُ الارض ہی تو نہیں، ربِ کا ئنات بھی ہے۔ میرا خیال ہے اس نے حیاتِ جاوداں کو یہاں سے کہیں اور، کسی اور نامعلوم سیارے، ستارے، کہکشاں، جنت یا میرے محدود و بے بس علم کے مطابق پتہ نہیں کہاں منتقل کر دیا ہے۔ یزداں کا اِدّعا تودیکھئے : ”اور اس کی ایک نشانی آسمانوں کا اور زمین کا بنانا ہے اور ان (آسمانوں اور زمین) میں اس نے جتنے جاندار پھیلا رکھے ہیں، وہ جب چاہے ان سب کو یکجا کر دینے کی قدرت رکھتا ہے“ (الشوریٰ : 29 ) ۔ پھر وہی تحدید میں لِتھڑا ہوا، میرامحدود سا خیال، ربِ کائنات نے حیاتِ جاوداں والے جانداروں کو کسی اور سیارے میں پھیلا رکھا ہے۔ اِن تابندہ ستاروں نے، حد تو یہ ہے کہ، اس ثابت ہوتے سیارے سے شاید اپنے اپنے رخِ روشن بھی کچھ اس طرح محجوب کر رکھے ہیں :

کہ موج بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم اپنا

تو یہ لوگ مرتے کیوں نہیں؟ حرکیات کا کہنا ہے کہ توانائی جُون بدلتی ہے، ہیئت بدل لیتی ہے، چولا بدل لیتی ہے، پر کہلاتی توانائی ہی ہے۔ تو کیا آواگون؟ ارے نہیں اس کوچے میں مت جائیو، سدرۃ المنتہیٰ سے اگلے قدم پر تو پَر جلتے ہیں۔ اچھا پہلے تو یہ فیصلہ کرو یہ لوگ ہیں کون جو زندہ رہتے ہیں؟ توانائی کی کوئی شکل ہیں؟ شہید ہیں؟ ارے پھر وہی سدرۃ المنتہیٰ؟ باز آ جاؤ ماریں گے وہ لوگ! کیوں ماریں گے؟ یادش بخیر! اندرا گاندھی کے سرگباش ہونے پر دارالعلوم دیوبند کے خبرنامے نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبونے والی کو شہید ہی لکھا تھا۔

اچھا تو پھر یہ لوگ کون ہیں؟ ارے وہ دیکھو! نظر نہیں آ رہا، اسامہ بن لادن سے بھی پہلے، ذرا پہلے اس کا سفر ارجنٹائن سے شروع ہوا تھا۔ وہ موت کے تعاقب میں تھا۔ آگے موت اور اس کے پیچھے چی گویرا، پھر ایک دن موت ہار گئی اور چی گویرا زندہ رہ گیا، بولیویا میں، کیوبا میں، گوئٹے مالا، چلی میں۔ پر موت کو شکستہ کرنے سے قبل، امر ہونے سے پہلے اس نے 1789 ء میں قائم سرمایے کے وجود پر وہ ضرب لگائی، وہ ڈینٹ ڈالا کہ برِاعظم لاطینی امریکہ پر سرمایے کے پنجے تو موجود ہیں، قدم اُکھڑ چکے ہیں۔

اس دوسری دنیا میں اسی سرمایے کو للکارنے والا ایک اور مجنون حسن البنا بھی اسی عہد میں سامنے آیا۔ اس کے ساتھ سید قطب اور عبدالقادر عودہ بھی موت کے تعاقب میں تھے۔ ایک نسل تیار کی ان لوگوں نے اور سرمایے پر ڈینٹ ڈالتے ڈالتے یہ لوگ بھی کائنات کی وسعتوں میں کہیں کسی اور سیارے میں جا بسے۔ عدنان میندریس کو اسی سرمایے نے پھانسی دے کر مارنے کی کوشش کی۔ سرمایے کے مہرے صرف شمالی امریکی چٹی چمڑی والے ہی تو نہیں ہیں۔

استنبول، کہ حرمین شریفین اور بیت المقدس کے بعد مسلمانوں کا مقدس ترین شہر ہے، اسی استنبول کی سب سے بڑی شاہراہ، مثل موٹروے، آج شاہراہ عدنان میندریس کہلاتی ہے۔ خوشبو کو بھی کبھی قتل کیا جا سکا ہے؟ یہ تو سیدھی ناک میں جا کر گدگدی کرتی ہے۔ اخوان کی تیسری نسل یا شاید چوتھی نسل مرسی کے پیچھے پیچھے بہار کی تلاش میں ایک دو پہر 550 ارواح کو اس دنیائے فانی سے رخصت کر چکی تو یاد ہے کسی کو؟ 5.50 ارب ڈالر کا بہاؤ سیسی کو اسی شام دان کیا جا چکا تھا۔

شاباش جیتے رہو، سیسی میاں! میر عربؐ کے دیس کے بادشاہ کی تھپکی بھی تو کسی کسی کے نصیب میں ہوتی ہے۔ سرمایے کے مہرے صرف شمالی امریکی چٹی چمڑی والے ہی تو نہیں ہیں۔ پھر ایک دن ایک اور باغی موت کے تعاقب میں نکلا۔ اس نادان نے سرمایے کی عین ناک تلے واشنگٹن میں فلسطینیوں کو جمع کر کے یروشلم میں امریکی سفارت منتقل کرنے کے خلاف بھرپور مظاہرہ کرا ڈالا۔ سرمایے کے مہرے صرف شمالی امریکی چٹی چمڑی والے ہی تو نہیں ہیں۔ جمال خاشقجی کے قتلے توہوئے پر وہ مر نہ سکا۔ صحافتی تنظیمیں کہتی ہیں، وہ بھی چپکے سے کسی نامعلوم سیارے میں جا کر آباد ہو چکا ہے۔

بستی پر آئے دن اہرمن، بشکل آدم خورشیر، حملہ کر کے کسی نہ کسی کی جان لے لیتا۔ قبیلوں نے طے کیا کہ ہانکا کر کے، مچان پر بیٹھ کر، ڈھول تاشے اور نفیریاں بجا بجا کر اسے کچھار سے نکال لائیں گے اور اس کے قتلے بنا ڈالیں گے۔ وقت مقررہ پر مچان والے نے نفیری والے کے خلاف مولوی کی سیشن کورٹ میں مقدمہ کر دیا۔ مقدمہ چل رہا ہے۔ تاریخوں پر تاریخیں پڑ رہی ہیں اور آدم خور اسی طرح شکم سیر ہو کر بستی سے نکل جاتا ہے۔ بڑے غور اور سوچ بچار کے بعد بھی، میں نہیں جان سکاتھا کہ جس شخص کو اپنے حکیم الامت، ابلیس کی زبان سے کلیم بے تجلی کا خطاب دلوا رہے ہیں، اگلے ہی سانس میں پھولے دم کے ساتھ ابلیس اپنے جس نوزائیدہ حریف کو مسیحِ بے صلیب کہہ رہا ہے، اس شریر یہودی کے خلاف مولوی کی سیشن کورٹ میں مقدمہ دائر کرنے کی منطق نہیں سمجھ سکا تو میں نہیں سمجھ سکا۔

پھر یہ ہوا کہ پارسال میں علی ہجویری سے ملنے لاہور چلا گیا۔ ہجویری سے کیا ملاقات ہوتی وہ بھی توکسی اور سیارے میں جا آباد ہو چکا ہے۔ بڑے دروازے کے قریب پہنچا ہی تھا کہ دو شاہ دولے کے چوہے سامنے کھڑے تھے، سبک سر پر طویل القامت۔ تب میں سمجھ گیا کہ شاہ دولے کے سبک سر چوہے درباروں ہی میں نہیں پائے جاتے، یہ تو فکر و فلسفے کے دبستانوں میں بھی مل جاتے ہیں۔ مولوی کی سیشن کورٹ میں مقدمے کی تاریخیں پڑ رہی ہیں، بستی میں پہلے تو درندہ حملہ آور ہو کر کبھی چی گویرا کو لے اُڑا تھا اور اب تو کبھی اسامہ بن لادن تو کبھی عدنان میندریس، کبھی سید قطب، کبھی عبدالقادر عودہ، کبھی حسن ناصر اور کبھی ذوالفقار علی بھٹو اس خونی درندے کا شکم سامان بنے۔ سرمایے کو للکارنے والا مگر تھا تو یہودی نا:

وہ کلیمِ بے تجلی، وہ مسیحِ بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب

بھلے للکارتا، تھا تو یہودی نا! چلتے ہیں چودہ صدیاں قبل محرم راز خالقِ کا ئنات کے پاس جو آج کل آسمانی وسعتوں میں حوضِ کوثر کے پاس مآل کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ فرمان نبوی ہے کسی دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور مال کی محبت یکجا ہو ہی نہیں سکتے۔ کیا اس کا مطلب ہم یہ نہیں لے سکتے کہ مال (سرمایے ) کی محبت اور تعلیماتِ اسلامی کا نچوڑ دو مختلف الجہات مخمصے ہیں۔ کیا حدیث میں اشارۃ النص یہ نہیں ہے کہ ”دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا“ مال یا سرمایے کی محبت ایک رنگ ہے، تیرہ و تار! تو اللہ اور اس کے رسول کی محبت قوسِ قزح ہے۔

ہاں یاد آیا قوسِ قزح شاید ست رنگی ہوتی ہے؟ صد رنگی ہو سکتی ہے، پر نہیں ہو سکتی تو شب رنگی نہیں ہو سکتی۔ کسی دل میں اللہ اور اس کے رسول کی قوسِ قزح اور سرمایے کی سیاہ کاریوں میں کیا نسبت، اس کی وضاحت مجھے حافظ آباد کے بارہ بجے والے سردار جی کی ’ناقابلِ فراموش‘ میں جا کر ملی۔ مفتون (کیا خوب چناؤ ہے سردار جی کا) کا ایک انگریز سے مکالمہ : سردار جی، روپے پیسے کو ڈرائیور سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس سے مقصد کا حصول ہوا کرتا ہے نہ کہ بجائے خود مقصد! ڈرائیور کام کاج کے بعد آپ کو گھر لے آیا تو اپنے کوارٹر میں جائے اور بس! فطرت پر قائم تمام انسان یکساں اندازِ فکر میں رہ کر سوچتے ہیں۔

وہ اشتراکی کوچہ گرد، کہا جاتا ہے، نظریہ قدر زائد (Surpluse Value) کا موجد تھا۔ مال کی اتنی ہی محبت کہ ڈرائیور (سرمایہ) گھر پہنچا دے پھر کوارٹر میں جائے، نہ جائے تو قدر زائد۔ سرمایے سے لگاؤ اور محبت اور اللہ رسول کی محبت میں اس بعدالمشرقین کا ادراک اپنے حکیم الامت کو بھی تھا اور خوب تھا۔ میرا گمان ہے، اللہ معاف کرے، اس ادراک کی وجہ وہی اس یہودی کی شرارت تھی۔ کیا واقعی لفظ گمان میرے بیان کے حسبِ حال ہے؟ شاید نہیں! علامہ اقبال نظم بعنوان ’اشتراکیت‘ میں ایک شعر اور آخری شعر (Epilogue) یوں موزوں کرتے ہیں :

جو حرفِ قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک
اِ س دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار

یہ ’قل العفو‘ قدر زائد کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔ کاش مارکس ذرا دیر سے یا علامہ اقبال قدرے پہلے پیدا ہوتے تو ہم شایدلینن اور ٹرا ٹسکی اور شاہ دولے کے چوہوں سے بچ جاتے۔ قرآن ضرورت سے زائد کو خرچ کرنے کی تلقین کرے، حامل قرآن سرمایے کی محبت سے متنبہ کریں، شریر یہودی قدر زائد کو دنیا میں فساد کی جڑ قرار دے، حکیم الامت ان سب کے مابین ربط تلاش کر کے پُراُمید ہو جائے کہ اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار، تو کیا اختلاف اور کیا بنائے اختلاف۔

لیکن چھوڑئیے! ابھی چی گویرا سے آگے، بہت آگے، پتہ نہیں کتنے خاشقجی اس بستی کے مکینوں کی نا اہلیوں کا کفارہ ادا کرتے کرتے، موت کا تعاقب کرتے کرتے نامعلو م سیاروں میں جا بسیں گے۔ کافی کوشش کے بعد بھی مجھے چی گویرا کو مارنے والے کا نام ابھی تک یاد نہیں آ سکا۔ سیدقطب، حسن البنا، عبدالقادر عودہ، میندریس اور بھٹو کو سزائے موت دینے والے ججوں کا نام قارئین میں سے کسی کو یاد ہو تو میری مدد کرے، مجھے بتائے۔ حسن ناصر کو رات کی تنہائی میں میانی قبرستان میں خاک نشین کرنے والے پولیس افسر کا کوئی اتا پتہ کسی کو نام وغیرہ معلوم ہے؟ مگر زہرہ علمدار کے الفاظ فضا کے پیچ و خم میں اب بھی بشکل تحریر تیر رہے ہیں : ”ہاں میرے اور بھی بہت بیٹے ہیں جو اس جنگ کو جاری رکھیں گے جس کی خاطر حسن ناصر نے اپنی جان دی تھی۔ “ جمال خاشقجی کے قتلے تو شاید ہم رنگ زمین ہو چکے ہوں، پر خاشقجی تو چی گویرا، میندریس، حسن ناصر اور بھٹو کے ساتھ یہ پتہ نہیں کہاں لیکن کہیں نہ کہیں بیٹھا مسکرا رہا ہو گا۔

موت کو غافل یہ سمجھے اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی صبح دوامِ زندگی

میرا خیال ہے کہ خاشقجی، کا فکری نسب زہرہ علمدار ہی سے کہیں جا ملتا ہے۔ 1960 ء کے بعد اس ریلے ریس کی چھڑی حسن ناصر سے خاشقجی لے اُڑا۔ چند ڈینٹ اس نے بھی سرمایے اور اس کے پٹتے مہروں پر ڈالے ہیں۔ قل العفو اور قدر زائدمیں پوشیدہ حقیقت نمودار ہونے میں کچھ دیر تو ہے لیکن عدنان میندریس، سید قطب، اسامہ بن لادن اور خاشقجی سے زمین ابھی خالی نہیں ہوئی۔ ایک بات البتہ مجھ پر تو واضح ہے : سفینۂ سرمایہ کے غرقاب ہونے سے قبل اس کے پٹتے مہرے مجھے ہر سوپہلے پٹتے نظر آ رہے ہیں۔

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام اسلامی قانون کے پروفیسراوردستوری قانون میں پی ایچ ڈی ہیں ۔ گزشتہ 33 برس سے تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔

dr-shehzad-iqbal-sham has 9 posts and counting.See all posts by dr-shehzad-iqbal-sham