جب نیوی کا لیفٹننٹ ائیر مارشل اصغر خان کو گولی مارنے لگا تھا


کراچی میں لیاقت آباد سیاسی اعتبار سے بڑا حساس علاقہ ہے ایک بار وہاں فسادات ہوئے تو کرفیو لگا دیا گیا کہ اگر کوئی کرفیو کی خلاف ورزی کرے تو اس پر بلا جھجک گولی چلا دی جائے۔ اتنی سختی کے باوجود حالات کنٹرول میں نہیں آ ر ہے تھے اور لوگ قانون کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ میں ان دنوں کراچی گیا ہو ا تھا میں نے اندازہ لگایا کہ حکومت مسئلہ کو سمجھ نہیں رہی نہ لوگوں کے مزاج کا حساب کر رہی ہے اس کی سخت گیری سے فسادات کی آگ اور تیز ہو جائے گی دریں اثنا کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لوگ مارے گئے تھے اور اب مزید لوگ مارے جائیں گے۔

صورت حال بہتر بنانے کے لئے میں نے فیصلہ کیا کہ میں خود موقع پر جاؤں گا لوگوں سے اپیل کروں گا کہ قانون کا احترام کریں اور تشدد اور خونریزی سے اجتناب کریں۔ جب میں لیاقت آباد میں پہنچا تو بہت بڑے ہجوم نے مجھے خوش آمدید کہا۔ میں نے ان سے خطاب کیا اور تلقین کی کہ وہ پرامن رہیں۔ اس علاقے میں نیوی کے دستے کو مامور کیا گیا تھا، ہر چند میرا وہاں جانا اور تقریر کرنا بھی خلاف قانون تھا مگر نیوی والوں نے اس میں کوئی مداخلت نہیں کی۔

یہ درست ہے کہ وہاں پر بہت بڑا ہجوم تھا اور اگر نیوی والے کچھ کرنا بھی چاہتے تو یہ ممکن ہی نہ تھا کیونکہ ان کی نفری بھی بہت کم تھی۔ اور اگر وہ کچھ کرتے تو بڑی خونریزی ہوتی۔ میری تقریر کا اچھا اثر ہوا، میں مطمئن تھا کہ لیاقت آباد کے لوگ پرامن طریقے سے بکھر جائیں گے تا ہم میرے وہاں جانے کا اگلا منظر ابھی باقی تھا۔

جونہی میں اونچی جگہ سے نیچے اتر کر جانے لگا، لوگوں نے مجھے گھیر لیا اور کہا کہ میں قبرستان چل کر شہدا ء کی قبروں پر دعا کروں جو ایک روز پہلے پولیس کی فائرنگ میں مارے گئے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ اگر اس طرح قبرستان کی طرف بڑھے تو جلوس بن جائے گا، کرفیو سنگین خلاف ورزی ہو گی۔ لوگوں کا دباؤ بہت تھا اس دباؤ کے تحت میں لیاقت آباد کی بڑی سڑک پر بڑھتا گیا، پھر چوک آیا جہاں سے ایک دوسری سڑک پر کوئی چار سو گز دور مرنے والے دفن کیے تھے۔ ہجوم پیچھے پیچھے آتا گیا، واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا اس لئے میں نے بھی نتیجہ قسمت پر چھوڑ دیا۔

ابھی ہم بمشکل سوگز تک گئے تھے کہ نیوی کے دستے سے سامنا ہو گیا اس کے ساتھ ایک مجسٹریٹ بھی تھا۔ ایک نوجوان لیفٹیننٹ اپنے بیس ساتھیوں کے ساتھ ہمارے عین سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اس نے مستعدی سے مجھے سلیوٹ کیا اور صاف صاف انداز میں کہنے لگا : ”سر، اس علاقے میں کرفیو نافذ ہے، کسی شخص کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں۔ مجھے مجسٹریٹ نے آپ تک یہ بات پہنچانے کے لئے کہا ہے کہ یہ اجتماع غیر قانونی ہے۔ آپ آگے مت بڑھیں اور مجسٹریٹ کہتا ہے کہ اگر آپ آگے بڑھیں گے تو نتیجہ ٹھیک نہیں ہو گا۔ “

تقریر کے آخر میں نوجوان نے ایک بار پھر بڑی چستی سے مجھے سلیوٹ کیا۔ وہ خاموش تھا اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ نظر آ رہی تھی۔ مجھے یوں لگا کہ اس قسم کی تنبیہہ کے بعد ہماری واپسی یا پسپائی سیاسی اعتبار سے مفید رہے گی مگر مجھے یقین ہو گیا کہ اگر ہم آگے بڑھے تو یہ خوبرو نوجوان اپنے جوانوں کو گولی چلانے کا حکم نہیں دے گا۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ اگر میں نے پیچھے ہٹنے کی کوشش تو بڑھتا ہوا بے چین ہجوم مجھے پیچھے ہٹنے نہیں دے گا۔

چنانچہ میں نے اس نوجوان لیفٹننٹ سے کہا کہ یہ ہجوم پرامن ہے، صرف اگلے چوک کے پاس دفن کیے گئے مقتولوں کے لئے فاتحہ پڑھنا چاہتا ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ چوک تک جائیں گے اور فاتحہ پڑھ کر واپس چلے جائیں گے۔

اس کے چہرے پر اب بھی مسکراہٹ تھی اور وہ بالکل بت بنا کھڑا تھا اور ہم نے آگے بڑھنا شروع کر دیا۔ لیفٹننٹ اپنے جوانوں کو لے کر ایک طرف ہو گیا اور اس کے ساتھ مجسٹریٹ بھی جو بہت ناخوش نظر آ رہا تھا۔

ہم آگے بڑھتے گئے۔ ابھی دو سو گز دور گئے تھے اور قبرستان سے کچھ فاصلے پر تھے کہ نیوی کا ایک اور دستہ ایک اور مجسٹریٹ کے ساتھ آ گیا اور ہمارا راستہ روک لیا۔ اب کے نیوی کا لیفٹننٹ پہلے والے سے مختلف قسم کا تھا۔ اس نے چیختی آواز میں جوانوں کو آگے بڑھنے اور دو صفوں میں کھڑے ہونے کا حکم دیا، پھر اگلی صف کو گھنٹوں کے بل کھڑے ہونے کو کہا۔ پھر زیادہ کرخت آواز میں حکم دیا کہ رائفلوں میں گولیاں بھر لیں۔ یہ تیاری کرنے کے بعد وہ چند قدم آگے بڑھا، مجھے سلیوٹ کیا۔ اس کی آنکھیں باہر ابلی ہو ئی تھیں، بڑے جوش میں مجھے سے ہاتھ ملایا اور کہنے لگا۔ ”سر، اگر آپ آگے بڑھے تو پھر مجھے آپ پر گولی چلانے کا حکم ہے۔ “

وہ میرے اس قدر قریب تھا کہ میں اس کے چہرے پر تھرکتے ہوئے پٹھے دیکھ سکتا تھا۔ پہلے نیوی والوں کی رکاوٹ کے مقابلے میں یہ رکاوٹ بھی مختلف تھی اور موڈ بھی بہت مختلف تھا۔ میں جان گیا تھا کہ لیفٹینٹٹ نے کچھ کہا ہے وہ کر بھی گزرے گا اور مجھے خیال ہے کہ یہ عجب بات ہو گی کہ میں جس نے پچّیس برس ایئر فورس میں ملازمت کی اور زندہ رہا، نیوی کے ایک لیفٹینٹٹ کی گولی سے لیاقت آباد کی سڑک پر مارا گیا۔ مجھے یہ بھی خیال آیا کہ اگر میں مارا گیا تو یہ نیوی کے لئے برداشت کرنا بھی مشکل ہو گا اور یہ بدحواس نوجوان نہیں جانتا کہ اس کے غلط اقدام سے دو فوجی تنظیموں میں کس قسم کا بیر پڑ جائے گا۔

مجھے اندازہ تھا کہ نوجوان نے انگریزی میں جو کچھ کہا ہے وہ صرف چند لوگوں کی سمجھ میں آیا ہو گا، چنانچہ میں نے ہجوم سے خطاب کیا! ”آئیے ان نوجوان کے لئے دعا کریں جنہوں نے جبر و استبداد کو ختم کرنے کے لئے اپنی زندگیوں کی قربانی دے دی اور وہ جو وہاں پر دفن ہیں، یہی ہماری منزل تھی، یہیں ہمیں ان کے لئے دعا کرنا ہے۔ “ لوگوں نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھا لئے۔ ہمیں یہاں سے قبریں نظر آرہی تھیں، فاتحہ بڑھنے کے بعد ہم مڑے۔ بدحواس لیفٹینٹٹ اپنی جگہ پر بڑا مطمئن کھڑا تھا کہ اس نے نیوی کا سر بلند کر دیا ہے۔

کتاب ”یہ باتیں حاکحم لوگوں کی سے“ اقتباس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).