آسیہ بی بی کی رہائی واحد منطقی فیصلہ تھا


سپریم کورٹ کی جانب سے توہین رسالت کے مقدمہ میں سزا پانے والی عیسائی خاتون آسیہ بی بی کی رہائی کے حکم کے بعد ملک بھر میں ہونے والے مظاہرے اور سخت بیانات معاشرہ میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کا منظر نامہ ہیں۔ اعلیٰ عدالت کا ایک فیصلہ یا وزیر اعظم کی ایک تقریر اس صورت حال کو تبدیل نہیں کرسکتی بلکہ پوری قوم اور اس ملک کی مذہبی و سیاسی جماعتوں کو دل جمعی سے مل کر اس غیر منطقی، غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر اسلامی رویہ کے خلاف سخت محنت کرنا پڑے گی۔

کیوں کہ اس مزاج کو استوار کرنے میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے علاوہ ملک کے بعض اہم اداروں نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عقل و خرد سے خالی مذہبی جنونیت اور جذباتیت کو ختم کرنے کے لئے اسکولوں سے لے کر سماجی سطح تک کام کا آغاز کیا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد قوم سے خطاب میں قانون کی عمل داری اور اشتعال انگیزی سے پرہیز کی ضرورت پر زور دیا ہے تاہم اب حکومت کو ایک بیان سے بڑھ کر خود بھی مذہب کو سیاسی استعارہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش سے گریز کرنا ہو گا۔

صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے مدلل اور دوٹوک تفصیلی فیصلہ کے خلاف تحریک لبیک کے لیڈروں نے بدزبانی کا سلسلہ شروع کیا ہے اور ملک کے اہم شہروں میں مظاہروں کا آغاز بھی کیا گیا ہے۔ اسی لئے وزیر اعظم کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے ہوشمندی سے کام لینے اور ملکی معیشت کوتاراج کرنے کے غیر ذمہ دارانہ اقدام سے باز رہنے کی اپیل کرنا پڑی ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف صرف تحریک لبیک جیسا مذہبی گروہ ہی متحرک نہیں ہے جو ناموس رسالت کو سیاسی مدعا بنا کر قومی سیاست میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کررہی ہے بلکہ قومی سیاست میں کئی دہائیوں سے متحرک جمیعت علمائے اسلام جیسی منظم و متحرک جماعت کے جہاں دیدہ سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی اس معاملہ پر بیان بازی سے گریز کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ملک میں مذہب کے نام پر جذبات کو اس قدر انگیختہ کردیا گیا ہے کہ عام لوگ سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے سے قاصر ہوچکے ہیں۔ مذہبی رہنما لوگوں میں اس گمراہی کو راسخ کرنے کے لئے ہر ہتھکنڈا استعمال کرنے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔

ملک کی سیاسی حکومتیں اس مزاج اور طرز عمل کی روک تھام کے لئے کام کرنے سے گریز کرتی رہی ہیں اور موقع ملنے پر سیاسی انتہا پسندوں کو اپنے مفاد اور مقصد کے لئے استعمال کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا گیا۔ ملک کے وزیراعظم عمران خان نے بھی اقتدار سنبھالنے کے بعد سے جس طرح توہین رسالت کے موضوع پر سیاست کرنے اور ملک میں مدینہ جیسی ریاست قائم کرنے کا جو غیر مبہم بیانیہ اختیار کیا ہے وہ بھی اسی سیاسی مزاج کا حصہ ہے کہ موقع ملنے پر عوام کے مذہبی جذبات کو استعمال کیا جائے اور اپنا کام نکالا جائے۔

سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمران خان بطور وزیر اعظم جو تقریر کرنے پر مجبور ہوئے ہیں، اگر وہ خود اقتدار میں نہ ہوتے تو کبھی ملکی معیشت اور عوام کی سہولت کا واسطہ دیتے ہوئے لوگوں کو اشتعال انگیزی اور مظاہروں سے باز رکھنے کی کوشش نہ کرتے۔ اس لئے وزیر اعظم کو آسیہ بی بی کیس سے ابھرنے والی نئی صورت حال کو بڑی تصویر کے تناظر میں دیکھتے ہوئے اپنا لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔ اب بھی اگر حکومت اور اہم سیاست دانوں نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو صورت حال کی اصلاح کا وقت گزر جائے گا۔ اس کا اشارہ عمران خان نے آج قوم سے خطاب کرتے ہوئے بھی دیا ہے۔ لیکن یہ تقریر تحریک انصاف کے چئیرمین کی نہیں ہے بلکہ اس حقیقت کی آئینہ دار ہے کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر انہیں امن و امان کی صورت حال خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔

ایک مقدمہ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر خراب ہوتی ہوئی انتظامی صورت حال میں ملک کے وزیر اعظم کوقوم سے خطاب کرنا پڑا ہے۔ یہ حقیقت حال بجائے خود سماجی زوال اور ذہنی انحطاط کی آئینہ دار ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم عمران خان کی اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ’لوگوں کو ججوں، فوج اور سرکاری اداروں کے خلاف بھڑکانے والے اسلام اور ملک کی کوئی خدمت نہیں کررہے۔ ملک پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے۔ کابینہ اس بحران سے نمٹنے کے لئے سخت محنت کررہی ہے۔

اپنی خواہش کے خلاف عدالت عظمی کے کسی فیصلہ پر گلیوں میں نکل کر احتجاج کرنا درست فعل نہیں ہے۔ مظاہرین ملک کی نازک معیشت کو نقصان پہنچانے کا سبب بنیں گے۔ یہ اس ملک کے عوام کے مفادات کے خلاف ہے۔ اس ملک کی افواج نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اشتعال دلانے والے لوگ عوام کو گمراہ کرنے سے باز رہیں‘ ان باتوں کو مجبوری کے عالم میں کی گئی ایک تقریر کا حصہ بنانے کے بعد عمران خان کو انہیں رہنما اصول کے طور اپنی حکومت کی پالیسی کی بنیاد بنانا چاہیے تاکہ ملک سے مذہبی جنونیت کے خاتمہ میں ان کی حکومت وہ کردار ادا کر سکے جو اس سے پہلے کوئی حکومت ادا نہیں کرسکی۔ اس فیصلہ اور اس پر سامنے آنے والے احتجاج کو اگر وقتی انتظامی مسئلہ سمجھ کر نمٹنے اور آگے بڑھ جانے کی غلطی کی گئی تو صورت حال میں تبدیلی کی بجائے خرابی کا امکان ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلہ پر دیکھے جانے والے انتہا پسندانہ ردعمل اور مظاہروں میں ابھی تک صرف پیپلز پارٹی کے نوجوان چئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے واضح اور دوٹوک مؤقف اختیار کیا ہے اور قومی یک جہتی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے اس بیان سے اختلاف کی گنجائش نہیں ہے کہ ’سپریم کورٹ ہمارا قومی ادارہ ہے۔ قومی اسمبلی سمیت ملک کے دیگر اداروں کواس مرحلہ پر سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ہم گلیوں میں احتجاج کے ذریعے ملک نہیں چلا سکتے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali