نیا پاکستان ، چندہ نامکس اور شیخ چلی


سنہ 70 کی دہائی میں بین الاقوامی معیشت کساد بازاری اور بحران کا شکار رہی۔ اس بحرانی کیفیت سے نبٹنے کے لئے دوسری جنگ عظیم کے بعد متعارف کرائے گئے اقتصادی نظام میں حکومتی مداخلت کے نظریہ کو متروک کرتے ہوئے، آزاد منڈیوں یعنی فری مارکیٹ کے نئے اصول وضع کیے گئے۔ دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں کی اس نئی حکمت عملی کو امریکہ میں ”ریگن نامکس“ اور برطانیہ میں ”تھیچرنامکس“ کا نام دیا گیا۔ بس پھر ایک روایت چل نکلی کہ حکومت کی متعارف کرائی گئی نئی معاشی اصلاحات اور حکمت عملی کو، حکومتی عہدیداروں کے نام کے ساتھ ”نامکس“ کا لاحقہ لگا کر تاریخ میں محفوظ کیا جانے لگا۔ جیسے پچھلی دور حکومت میں ہم نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی معاشی پالیسی کو ”ڈارنامکس“ کا نام دیا۔ ریاست ”نیا پاکستان“ کی حکومتی پالیسیوں نے اس روایت کی رُو اور اپنے وزیراعظم کی معاشی بصیرت کی بدولت ”چندہ نامکس“ کا نام پایا۔

وہ ڈیموں کی تعمیر کا مسئلہ ہو یا پھر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ؛ بجٹ کا مالیاتی خسارہ ہو یا پھر سرمایہ کاری کا حصول؛ تجارتی خسارہ ہو یا پھر پاکستانی روپے کی گرتی ہوئی قدر؛ اسٹاک مارکیٹ کی مندی صورتحال ہو یا پھر گرتے ہوئے زر مبادلہ کے ذخائر۔ ہمارے وجیہہ اور خوبرو وزیراعظم نے ”چندہ برائے زیر تعمیر نیا پاکستان“ کا اشتہار آویزاں کر کے اپنے مدینہ ماڈل دور حکومت کا آغاز کیا۔ جب اس سے بات نہ بنی تو موصوف نے بچت اور اخراجات میں کمی کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ہیلی کاپٹر میں آغا وقار کی واٹر کٹ فٹ کروائی اور مہنگے ہوائی سفر پر اٹھنے والے اخراجات کو فقط 50 / 55 فی کلو میٹر پر لے آئے۔ وزیراعظم کی رہائشگاہ کی کھٹارا گاڑیاں فروخت پر لگائیں اور اپنے لاڈلے، سینیٹر فیصل جاوید خان کو بھینسوں کی بولی لگوانے کی بھاری ذمہ داری سونپ دی۔

ابھی قوم اس معاشی سرکس کے کرتب دیکھ کر حیرت سے سنبھلی بھی نہ تھی، کہ تحریک انصاف کے شیخ چلیوں نے ایسے ایسے اقتصادی منصوبے دنیا کے سامنے رکھے کہ آئی ایم ایف سے لے کر ورلڈ بنک اور لمز سے لے کر ہارورڈ کے اقتصادی ماہرین انگشت بدنداں رہ گئے۔ اسد عمر صاحب پچھلے پانچ سال آئی ایم ایف کو معاشی دنیا کا اجرتی قاتل کہہ کر کوستے رہے۔ اسحاق ڈار کے قرضوں کے حصول کو ملکی خودمختاری کو گروی رکھنے سے تعبیر کیا۔ ایک دن تو جناب کے دل میں جانے کیا سمائی، ٹویٹر پر فرمانے لگے کہ آئی ایم ایف اور حکومت کی ملاقاتوں پر پابندی ہی اس ملک کے معاشی مسائل کا حل ہے۔

لیکن 2018 کے جھرلو انتخابات میں کامیابی کے بعد پہلے ہفتے میں ہی جناب نے ایسے رنگ بدلا کہ گرگٹ بھی پریشان ہو گئے۔ پہلے فرمایا ملکی حالات بہت خراب ہیں ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی پڑے گا، لیکن پھر موصوف نے ایک ایسی درفطنی چھوڑی جسے ہمارے میڈیا نے سرے سے نظر انداز کر دیا۔ موصوف نے آئی ایم ایف سے ”ساورن فنڈ“ بنانے کے لئے 12 ارب ڈالر کے قرضے کے حصول کا اعلان کیا۔

قارئین کی معلومات کے لئے عرض ہے کہ عصر حاضر کی معاشی گلوبلائزیشن کے جدید دور میں ساورن فنڈ ایک طویل المدتی مالیاتی حکمت عملی کا نام ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت متمول اور خوشحال ریاستوں کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر مختلف منڈیوں میں نجی سرمایہ کاری کے لئے مختص کی گئی رقم کو ساورن فنڈ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس سرمایہ کاری کے لئے عموماً ایک خطیر رقم درکار ہوتی ہے۔ عمومی طور پر کسی ریاست کی قومی بچت شرح آمدنی کا 20 فیصد، زر مبادلہ کے ذخائر 100 ارب ڈالر، قومی آمدنی کی شرح نمو 8.10 فیصد اور دیگر اہم اقتصادی اشاریے جیسے برآمدات، جب ایک خاص حد عبور کر جاتے ہیں، تب جا کر کوئی ریاست ساورن فنڈ جیسی مہنگی سرمایہ کاری کی متحمل ہوتی ہے۔

اس وقت دنیا میں تمام ریاستوں کے ساورن فنڈ کا تخمینہ 24 ٹریلین ڈالر لگایا جاتا ہے۔ 2016 کے ایک تخمینے کے مطابق چین، سعودی عرب، قطر، سنگاپور، دوبئی، ناروے اور کویت کا اجتماعی حصہ، ساورن فنڈ کی کل سرمایہ کاری کا 60 % فیصد بنتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی موجودہ حالت یہ ہے کہ پیچیدہ اقتصادی اشاریے تو ایک طرف، موجودہ حکومت کی پے در پے حماقتوں کی وجہ سے یہاں قومی ضرورت کے لئے تیل خریدنے کے لالے پڑے چکے ہیں، پنجابی میں کہتے ہیں ”پلے نہیں دھیلا تے کردی میلہ میلہ“۔

سب سے اہم بات تو یہ کہ آئی ایم ایف سے سرمایہ کاری کے لئے قرض مانگنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ موجودہ بین الاقوامی اقتصادی نظام کی واجبی سے سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص یہ جانتا ہے کہ سرمایہ کاری کے لئے قرضے کا حصول آئی ایم ایف کے مقاصد اور منشور سے ہی متصادم ہے۔ آئی ایم ایف کوئی کمرشل یا انویسٹمنٹ بنک نہیں بلکہ ترقی پذیر اور اقتصادی مشکلات میں گھری ریاستوں کو خسارے اور دیوالیہ پن سے بچانے کے لئے قرضے دیتا ہے۔ جس کے بدلے ریاستوں کو مالیاتی فیصلہ سازی میں آئی ایم ایف کی سفارشات کو قبول کرنا پڑتا ہے۔

اب آتے ہیں نئے پاکستان کی معاشی شعبدہ بازیوں کے دوسرے شیخ چلی، جناب فرخ سلیم کی طرف۔ نیا پاکستان ہاؤ سنگ سکیم کے تحت پچاس لاکھ گھروں کی نو ید لے کر جب موصوف ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئے، تو معلوم ہوا کہ یا تو جناب جدید اقتصادیات کے بنیادی اصول ”لا محدود خواہشات اور محدود وسائل“ سے کلی طور پر بے بہرہ ہیں یا پھر بابائے معاشیات ایڈم سمتھ ”ویلتھ آف نیشن“ نامی کتاب ہذیانی کیفیت میں لکھ کر مرے تھے۔

حکومتی تخمینے کے مطابق 5 سال میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے لئے 180 ارب ڈالر درکار ہیں۔ 180 ارب ڈالر! یعنی 36 ارب ڈالر خرچ کر سالانہ دس لاکھ گھر۔ اب ذرا اس ہند سے کو سمجھنے کے لئے غور فرمائیے۔ پاکستان کی قومی آمدنی 310 ارب ڈالر ہے، پاکستان پر کل قرضہ 95 ارب ڈالر ہے، پاکستان کی کل برآمدات 20 ارب ڈالر ہیں۔ چین جیسے امیر ملک تے ہم غربا پر سی پیک کے تحت جو کل سرمایہ کاری 10 سالوں پر محیط عرصے میں کرنی ہے وہ 65 ارب ڈالر ہے، پاکستان کی سالانہ سرمایہ کاری اور قومی بچت کی سطح بالترتیب 55 اور 18 ارب ڈالر ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2