قسمت


ہم کتنے بدنصیب ہیں۔ جو چیزیں تعریف کے قابل ہوں ان کی تعریف کسی اور چیز سے مشروط کر کے اس کی اصل حیثیت کو گھٹا دیتے ہیں۔ جیسے اگر پاکستان کرکٹ ٹیم میچ جیت جائے تو ہم ایک دفعہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ پاکستانی کھلاڑیوں نے اچھا کھیلا اور جیت گئے لیکن اس کے بعد۔ شکر کرو کوہلی نہیں کھیلا۔ شکر کرو ٹاس جیت گئے۔ شکر کرو بارش نہیں ہوئی۔ بس اِن تمام شکرانوں میں جو کم ہوتا ہے، وہ ہوتا ہے اس اصل فعل کا شکرجس کی وجہ سے کام ہوا۔

کچھ دنوں پہلے ایف ایس سی اور اس سے پہلے میٹرک کے امتحانات کے نتائج کا اعلان ہوا۔ چونکہ یہ امتحانات کے نتائج تھے اس لیے کوئی اول آیا، کوئی دوئم اور اسی طرح قطار بنتی گئی۔ تعلیمی اداروں نے اپنے اپنے اچھے نمبروں کے ساتھ کامیاب ہونے والے طلباء کے بینرز لگوائے جس سے یقیناً بچوں کا بھی حوصلہ بلند ہوا اور بلاشبہ اداروں کی تشہیر بھی ہوئی۔
اس سارے معاملے میں چونکا دینے والی ان بینرز پر لکھی ایک تحریر تھی: ”کامیاب ہونے والے خوش نصیب طلباء کو مبارکباد“

اس بینر پر لکھے اِس جملے نے ان بچوں سے ان کی محنت کا ثمر چھین لیا اور اس کے ساتھ ساتھ اِس جملے نے باقی طلباء کو بھی پیغام دیا کہ آپ کی ناکامی کے ذمہ دار آپ نہیں بلکہ آپ کا نصیب ہے۔ اگر آپ خوش نصیب ہوتے تو آپ کی کامیابی کا بینر لگتا۔

کتنی عجیب بات ہے کہ ہم اول آنے والے کو اس کی محنت کی وجہ سے شاباش نہیں دیتے اور کم نمبر حاصل کرنے والوں یا فیل ہونے والوں کو ان کی اصل تصویر دکھانے کی بجائے سارے ملبہ ایک ایسی شے (قسمت) پر ڈال دیتے ہیں جس سے ہم پوچھ ہی نہیں سکتے کہ ہاں بھئی؟ تم نے اس کو اول پوزیشن دلا دی اور اس کو فیل کرا دیا؟ کیوں؟
ہماری ناکامیوں کی سب سے بڑی وجہ ہی یہ ہے کہ ہم اپنی تمام غلطیاں اور کوتاہیوں کوقسمت و مقدر کے ذمے لگا دیتے ہیں۔

ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ کائنات قسمت و مقدر سے نہیں بالکل عِلل و اسباب سے چلتی ہے۔ ہم چاہے جتنی مرضی آیات کا ورد کر لیں، پنکھا اسی وقت چلے گا جب اس کا بٹن دبایا جائے گا کیونکہ وہ بنایا اس طرز پر گیا ہے۔ ہمیں اس بات کا ادراک کرنا چائیے کہ کامیابی و ناکامی کے ذمہ دار ہم خود ہیں جو وسائل کا ٹھیک طریقے سے استعمال نہیں کرتے۔

ہم خدا کو عادل بھی کہتے ہیں اور پھر اپنے ساتھ رونما ہونے والی ہر آفت کو اسی پر ڈال دیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اگر وہ عادل ہے تو کیا میرے ساتھ زیادتی کرے گا؟ اور میرے مقابلے میں کسی اور کو مجھ سے زیادہ دے گا؟ جب کہ میں اس کا ماننے والا بھی اس سے زیادہ ہوں۔

قابلِ غوار بات یہی ہے کہ خدا عادل ہے اور یہ اس کی عدالت ہی ہے کہ اس نے تمام انسانوں ( خواہ وہ اس کے ماننے والے ہوں یا نہ ہوں ) کے لیے اصول و ضوابط ترتیب دیے ہیں۔ اب جو کوئی بھی ان پر عمل پیرا ہو گا وہ ساتوں آسمان مسخر کر لے گا اور جو کاہل اور کام چور ہو گا وہ اپنی ناکامی کو مقدر اور قسمت کے ذمے لگاتا رہے گا کیونکہ کوئی قسمت سے پوچھنے والا تو ہے نہیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).