کم از کم احتجاج تو مہذب طریقے سے کر لیں


یہ ہمارے ملک میں کیا ہو رہا ہے؟سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے دیے گئے ایک فیصلے کے ردعمل میں تین دن قبل شروع ہونے والے ملک گیر احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے سبب متعدد شہروں میں زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے، تعلیمی ادارے بند ہیں اوراب تک درجنوں موٹر سائیکلیں، گاڑیاں اور املاک نذر آتش کی جا چکی ہیں۔ایک اطلاع کے مطابق کچھ تبلیغی کارکنوں کو جان بھی مار دیا گیا ہے۔یہ کیسا احتجاج ہے؟جس میں شہریوں کو دل کھول کر تکلیف دی جاتی ہے۔کیا اچھا ہوتا لوگوں کو قطار در قطار دورد شریف کا ودر کرتے مارچ کرنے کی ترغیب دی جاتی،اﷲ کے رسول کے گیت گائے جاتے اور احتجاج کیا جاتا۔
احتجاج کرنا انسان کی جبلت میں شامل ہے اور اس کا پیدائشی حق ہے۔احتجاج کرنا جائز ہے۔ احتجاج جائز امور کیلئے جائز طریقے سے کیا جائے تو یہ مستحسن ہے اور اس احتجاج سے خیر کا پہلو نکل آتا ہے‘ ملک و ملت کی تقدیریں بدل جاتیں ہے۔لیکن ہمارے ملک میں جو احتجاج کیا جاتا ہے جسے عام اردو میں ہڑتال اور انگریزی میں STRIKE کہتے ہیں۔ اس سے ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔لوگ خوار ہوتے ہیں اور زندگی کا پہیہ جام ہوکر رہ جاتا ہے۔ مغرب میں مروجہ احتجاج کا طریقہ صنعتی انقلاب کے دوران شروع ہوا تھا جو پہلے غیر قانونی رہا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ قانونی اور جمہوریت کا حصہ بن گیا۔ برصغیر میں موہن داس کرم چند گاندھی نے اپنی سیاست کو چمکانے کیلئے سب سے پہلے 1918 میں احتجاج کے اس طریقہ کو یورپ سے در آمد کیا اور اسے ہڑتال کا نام دیا۔گاندھی گجرات کا رہنے والا تھا اور گجراتی زبان سے ہی ’’ ہڑتال ‘‘ کا لفظ اخذ کیا جس کے معنی ہیں ’ ہر جگہ تالا ‘۔ یہ بدترین طریقہ ہے لیکن پھر بھی یہ جمہوریت کا حصہ ہے اور جمہوری نظام میں جائز ہے۔

اس طریقہ کار میں بازاروں اور دفتروں کو زبردستی بند کروا کر راستے بلاک کر کے ہوائی فائرنگ اور جگہ جگہ آگ جلا کر عوام میں خوف و ہراس پیدا کرکے سڑکوں پر اشتعال انگیز بینرز لگا کر اور بینرز اٹھائے ریلیاں نکا لی جاتی ہیں۔ دھرنا دے کراشتعال انگیز تقاریر کے ذریعے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ دوکانوں، مکانوں، گاڑیوں اور غریب کے ٹھیلے وغیرہ کی لوٹ مار سے اپنی بات کو ہائی لائٹ کیا جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جب حکومتیں اپنے شہریوں کے خیالات کے اظہار کے حق محدود کر دیتی ہیں تو شہری کسی نہ کسی طریقے سے اپنی بات کہنے کی دیگر راہیں تلاش کر لیتے ہیں لیکن اس کا طریقہ کار مہذب ہونا چاہیے،ایسا دنیا بھر میں ہوتا ہے۔کچھ ماہ قبل ایران میں ملک بھر میں نوجوان، حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ یہ مظاہرے ٹیلی گرام کی سروس بند ہونے کے خلاف تھے۔ ٹیلی گرام پر اپنے خیالات کے اظہار کی راہ روکے جانے پر لوگوں نے ایرانی کرنسی ریال پر حکومت مخالف نعرے لکھنا شروع کر دیے ہیں۔ لوگوں نے نامعلوم اکاؤنٹس کی مدد سے ایسے کرنسی نوٹوں کی تصاویر آن لائن پوسٹ کیں جن پر نعرے لکھے ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں تخلیقی انداز کے احتجاج میں کرنسی استعمال ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر 2012 میں روس میں مظاہرین نے روبل کے ہزاروں نوٹوں پر انسداد بدعنوانی کے نعرے لکھے۔
بھارت میں میں ’’ففتھ پلر‘‘ نامی بین الااقوامی تنظیم نے صفر روپے کے نوٹ کے ساتھ بدعنوانی کے خلاف پرامن طور سے کامیاب احتجاجی مہم چلا ئی تھی۔ 50 روپے کے نوٹ سے مشابہ ان کرنسی نوٹوں پر یہ تحریر درج تھی، ’’ہر سطح پر رشوت ستانی کا خاتمہ کیجیے۔‘‘ ففتھ پلر نے 30 لاکھ نوٹ تقسیم کئے اور لوگوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ یہ نوٹ رشوت طلب کرنے والے سرکاری اہل کاروں کو دیں۔
2008 میں ایک عراقی صحافی نے صدر جارج ڈبلیو بش پر جوتا پھینک کر سنسنی پیدا کر دی تھی۔ اس کا مقصد اپنے ملک پر امریکی قبضے کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔کچھ مہینے قبل انڈونیشی شہریوں نے بھی جوتوں کے ذریعے اپنے احتجاجی پیغام دینے کی کوششیں کی تھیں۔ یہ احتجاج پولیس چوکیوں کے باہر جوتے جمع کرنے کے ذریعے کیا گیا کیونکہ پولیس نے پلاسٹک کے سینڈل چرانے کے الزام میں ایک لڑکے پر تشدد کیا تھا۔ شہریوں کی اس احتجاجی مہم کے دوران 1200 سے زیادہ پلاسٹک کی چپلیں اور سینڈل جکارتہ کے تھانوں کے باہر ڈھیر کیے گئے تھے۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم پولیس کو جوتوں کے عطیات دینے کے ذریعے اس لڑکے کے ساتھ پولیس کے ظالمانہ برتاؤ پر اپنی برہمی کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔

اس ضمن میں سب سے شاندار احتجاج ایک ناروے کے شہری نے کیا تھا۔ وہ شہر کے مرکزی چوراہے پر آیا،پلاسٹک کی ایک شیٹ زمیں پر بچھائی اور پلاسٹک کی ہی پانچ چھ بچوں کی گاڑیاں نکالیں اور ایک احتجاجی کتبہ بچھائی گئی پلاسٹک شیٹ کے ساتھ نصب کیا۔لوگ اکٹھے ہوئے، اس نے ان گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور پھر ایک مختصر سی تقریر کی اور پھر جلی ہوئی پلاسٹک گاڑیوں کی راکھ شیٹ میں ڈالی اور چلتا بنا۔اگلے روز کے اخبارات میں اس انوکھے احتجاج کی بھر پور کوریج تھی اور ساتھ ہی متعلقہ حکام نے اس کا مسئلہ حل کر دیا۔

خوشی ہو یا غمی، احتجاج ہوں یا مظاہرے، ریلیاں ہوں یا ریلے۔ جلسے ہوں یا جلوس ہر حال میں اس امر کو یقینی بنایاجائے کہ ہر سطح کی درسگاہیں، امتحانات، اسپتال، سرکاری اور نجی دفاتر، چھوٹے بڑے صنعتی وکاروباری اداروں کی سرگرمیوں اور ذرایع آمد و رفت میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ اخلاق اور قانون بھی اس کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی اپنے ذاتی یا گروہی مفادات یا خواہشات کی تکمیل کی خاطر عام لوگوں کی آزادی میں خلل انداز ہو یا ان کے لیے تکلیف کا باعث بنے۔اگر کسی کو مظاہرہ کرنا ہو تو اس کا بہترین وقت کھانے کا وقفہ ہے یا پھر شفٹ سے فارغ ہونے والے ایسا کریں تاکہ صنعتی پیداوار میں رکاوٹ پیدا نہ ہو اگر پیداوار کم ہو گی اور مقامی مارکیٹ میں یا بیرون ملک مال کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے اور ادارہ جس سے ان کا روزگار وابستہ ہے نقصان سے محفوظ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).