فلم ”لوسی“ اور انسانی ذہن کے معجزات کا تصور


لوسی ایک عورت کا نام ہے جو ایک سائنس فکشن فلم کا مرکزی کردار ہے۔ یہ فلم لوک فلمز کی جانب سے سن 2014 میں نمایش کے لئے پیش کی گئی۔ ہدایت کار لوک بیسن ایک فرانسیسی پروڈیوسر ہیں، وہ اس کہانی کے مصنف بھی ہیں، قبل ازیں اُن کی فلم دی بگ بِلو 1988 میں اور دی ففتھ ایلیمنٹ 1997 میں قابلِ ذکر رہی ہیں۔ فلم کی کاسٹ میں اسکارلٹ جیسن مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں، ان کی مشہور فلموں میں گوسٹ شیل، انڈر دی اسکن، اور میچ پوائنٹ وغیرہ شامل ہیں اور ہم نواؤں میں مارگن فریمین، مَن سَک چوئی، آمر ویکڈ اور جولین رنڈ بھی شامل ہیں۔

فلم سائنس کی تمام شاخوں کا احاطہ کرتی نظر آتی ہے، اس میں بالخصوص انسان کے پیدائشی عمل سے لے کر جسمانی ساخت، ذہنی نشو و نما اور دماغی تغیّرات کے نتیجے میں جسمانی ساخت اور صلاحیتوں میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں فلمائی گئی ہیں۔ اس فلم میں کیمیائی تجربات کے ذریعے تیار کی جانے والی ایک دوا (سی پی ایچ 4 ) کے بے جا استعمال سے پیدا ہونے والی صورتِ احوال سے طبعیات کے ایک مفروضے کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

فلم چوں کہ سائنس کے اصولوں پر مبنی ہے لہٰذا ملبوسات موجودہ مروّجہ مغربی طرز کے استعمال کیے گئے ہیں۔ فلم بندی کے مقامات بھی اصلی نوعیت کے رکھے گئے ہیں۔ فکشن کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے فلم میں جدید عکس بندی اور کمپیوٹر گریفکس کا استعمال دل کھول کے کیا گیا ہے۔ فلم پر تشدّد مناظر سے بھر پور ہے جو کم سن بچوں کے ذہن متاثر کر سکتی ہے۔

چوں کہ ہالی وُڈ کی فلمیں ڈیڑھ گھنٹے کی ہوا کرتی ہیں لہٰذا اتنا بڑا اور پیچیدہ مضمون فلم بند کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ اس ضرورت کے پیشِ نظر عکس بندی نہایت برق رفتاری سے دو چار رہتی ہے، اکثر ناظرین کو پہلی دفعہ میں اندازہ ہی نہیں آتا کہ کیا چل رہا ہے۔ فلم کا مرکزی کردار چوں کہ عورت ہے، اس لئے زیادہ تر شائقین ہیروئین کی وجہ سے فلم دیکھ رہے ہوتے ہیں، جب کہ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ہوتا۔

فلم لوسی ایک مفروضے کے گرد گھومتی ہے جو میٹا فزکس کی صورت تو مو جود ہے لیکن طبیعات کی کوئی بھی شاخ اسے ثابت نہیں کر پائی ہے۔ مفروضہ انسانی دماغ کی صلاحیتوں کے بارے میں ہے، جیسا کہ آئین اسٹائن کے متعلق مشہور ہے کہ اُس نے اپنے دماغ کا دس فی صد استعمال کیا تھا اور یہ بات بھی اب تک مفروضے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی کیوں کہ دنیا میں آج تک کوئی ایسی اکائی یا آلہ ایجاد ہی نہیں ہوا جو انسانی دماغ کے استعمال کا تناسب ظاہر کر سکے۔ یہی مفروضہ بنیاد بنا کر فلم بنائی گئی ہے۔ اس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ایک مخصوص دوا (سی پی ایچ 4) کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے مرکزی کردار لوسی کا دماغ اس قدر قوی ہو جاتا ہے کہ وہ مافوق الفطرت کام انجام دینے لگتی ہے۔

یہ وہی تصوّر ہے جو وچوسکی برادرز کی فلم میٹرکس میں پیش کیا گیا تھا، جس میں کیانو ریوز جو مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں، اپنے دماغ کا استعمال کرتے ہوئے ہر قسط میں مختلف قسم کے مافوق الفطرت افعال سرانجام دینے لگتے ہے جنھیں عام حالات میں عقلِ انسانی قبول نہیں کر سکتی، یہاں تک کہ مرکزی کردار کو موت و حیات پر بھی دست رس حاصل ہو جاتی ہے۔

تسخیر فطرتِ انسانی کا ایک اہم جز ہے، انسان چاہتا ہے کہ وہ کسی صورت طبیعات کے قوانین سے باہر نکل جائے، ہر غیر ممکن کام کرنے لگے مثلاً جب انسان نے سمندر مسخّر کرنے چاہے تو بحری جہاز بنا ڈالا، جب ہوا کو مسخر کرنا چاہا تو ہوائی جہاز ایجاد کر لیا، جب خلا کو مسخّر کرنے کی ٹھانی تو خلائی راکٹ میں بیٹھ کر چاند کی سیر کر آیا اورآ ج مصنوعی دور بینیں خلا کی وسعتیں کو چیرتی ہوئی نظامِ شمسی سے دور ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ اسی طرح زندگی کے ہر شعبے میں چاہے وہ طب ہو، فلکیات ہو، فلسفہ ہو، ریاضی ہو، کیمیا ہو یا کارو بار یا بینکاری و معیشت، ہر میدان میں انسان تسخیر کی نئی منزلیں طے کرتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ سائنس کی اسی ترقی نے جہاں قرہ عرض کو گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے وہیں زنسان کی رعونت اور طاقت کی بھوک بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔

یہ انسان کی جبلّت ہے کہ وہ طاقت کا پجاری ہوتا ہے، انسانوں کے بنائے ہوئے تمام معاشرتی اور مذہبی قوانین اور پیمانے طاقت کے اصولوں کے تحت ہی قائم ہیں۔ انسان خود تو کم زور ہوتا ہے لہٰذا طاقتورکو پسند کرتا ہے یا شاید یوں کہنا مناسب ہو گا کہ انسان طاقت سے بہت جلد مرعوب ہوجاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں طبقات کا تعّین طاقت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ مالی طاقت، افرادی طاقت، اسبابی طاقت، یہی وہ پیمانے ہیں جو کسی معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن ان سب پر سبقت لے جاتی ہے انسان کی ذہنی طاقت جو تمام طاقتوں کا توڑ بھی ہے اور متبادل بھی، یعنی اگر کسی شخص کے پاس مندرجہ بالا تمام طاقتیں موجود ہوں اور ذہنی طور پر قوت نہ ہو تو ساری طاقتیں بے کار ہو کر رہ جاتی ہیں اور اگر کسی شخص کے پاس ذہنی طاقت کے سواکوئی طاقت نہ ہو تو بھی وہ اسٹیفن ہاکنگز کی طرح کائنات کے ارتقا ئی حالات کا کھوج لگا سکتا ہے۔

مذکورہ فلم میں بڑھتی ہوئی ذہنی طاقت کے ساتھ ساتھ مرکزی کردار لوسی درد و تکلیف اور ہر قسم کے احساسات سے عاری ہوتی نظر آتی ہے یعنی نہ چوٹ کا درد، نہ غصہ، نہ خوشی، نہ تجسس، نہ نفرت اور نہ ہی بھوک پیاس، یقیناً طاقت انسان کو بے حس بنا دیتی ہے اور بلا شبہہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے۔

فلم کا ایک مبہم پہلو بھی ہے، جس کی طرف توجہ مبذول کراوانا نہایت ضروری ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، فلم، ریڈیو کے بعد ابلاغِ عامّہ کا دوسرا بڑا ذریعہ رہا ہے اور دورِ حاضر میں بھی اس کی اہمیت کچھ کم نہیں ہوئی ”یہی وجہ ہے کہ سائنس فکشن فلموں کے ذریعے مستقبل میں رُونما ہونے والے حالات سے عامتہ النّاس کو آگاہی فراہم کی جاتی ہے اور مستقبل کے لئے ذہن سازی کی جاتی ہے۔ چوں کہ ہالی وُڈ ہمیشہ سے سہونی الیمیناٹیز کے زیرِ اثر رہا ہے لہٰذا اس قسم کی تمام فلمیں اُن کے عزائم کی عکّاسی کرتی نظر آتی ہیں۔ جس کا سب سے بڑا مقصد دنیا کو ایک ایسے شخص کی آمد کے لئے تیّار کرنا ہے جس کے پاس مافوق الفطرت طاقتیں ہوں گی۔ جہاں چاہے گا بارش برسائے گا، جہاں چاہے گا قحط برپا کر دے گا، اس کے علاوہ بھی کئی مافوق الفطرت قوّتوں سے لب ریز ہو گا اور اسی بنیاد پر وہ خدائی کا دعوا کرے گا۔

مذکورہ فلم بھی یہی پس منظر پیشِ نظر رکھتے ہوئے بنائی گئی ہے، جس کے اختتام پر یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ صد فی صد ذہنی طاقت آ جانے کے بعد مرکزی کردار نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور دعویٰ یہ ہے کہ وہ ہر جگہ موجود ہے جو نہایت ہی واہیات بات ہے یعنی خدا کے مانند ہر جگہ پایا جا نا تو کسی کے بھی بس کی بات نہیں ہے کیوں کہ مخلوق کبھی خالق کی ہم سری نہیں کر سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).