اچھا مسلمان شہری


زرا رکیے، پہلے سُنیے، دِیکھیے، جَائزہ لیجیے، مشورہ کیجیے اور پھر ردِعمل دیں!

ہم ایک اسلامی جمہوری ملک ریاست کے باشندے ہیں جو کہ ایک اسلامی و جمہوری اصولوں پر قائم کیا گیا۔ جس کے مروجہ قانون کے مطابق ریاست کو چلانے کے لئے جمہوری طریقوں سے عوام میں سے حکمران اور منظم نظام چلانے کے لئے ریاستی اداروں کو قائم کیا گیا جن کی اساس بلا امتیاز پاکستانی شہریوں کی فلاح و بہبود، پرامن معاشرے کا قیام اور عدل و انصاف کی فراہمی ہے۔

ہم گزشتہ سات دہائیوں سے ترقی پزیر ملک کے درجے سے آگے نہیں بڑھ سکے اور ہمیں شدت پسندی، انتہاپسندی، دہشت گردی، انتشار پسندی، عدم برداشت، عدم معیار و توازن کے باعث، قدرتی وسائل کے ہونے کے باوجود غیرترقی یافتہ اور غیر محفوظ ملک کی گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجوہات ہم عوام، ہمارے حکمران اور ارباب اختیار و اقتدار کے وہ رویے ہیں جو ریاست اور عوام کو ترقی کے قرینوں پر چڑھانے کی بجائے پے در پے نیچے گراتے چلے جارہے ہیں۔

دنیا بھر میں کسی معاشرے کی تعمیر وترقی کا راز اس کے منظم نظام کے قوانین و اصولوں کا ریاست کی عوام و حکمران کے لئے مساوی لاگو ہونے کے پیچھے ہے۔ اسی سے تمام شہریوں کے لئے ایک پرامن ترقی یافتہ سوچ اور معاشرہ جنم لیتا ہے۔

لیکن جن معاشروں میں کوئی خاص طبقہ یا خاص گروہ کسی بھی معاشرتی پہلوؤں پر ریاست پر اکتفا کرنے کی بجائے بلا سوچے سمجھے و تحقیق کے بغیر معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے کر معاشرے کو ناہمواری کی جانب لے جائیں وہاں نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اور ریاست کے ستون کمزور ہوجاتے ہیں جس سے اس ریاست اور اس کے باسیوں کی ساکھ اپنے ملک کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں متاثرکن اہمیت کی حامل ہوجاتی ہے جس کے اثرات حال و مستقبل دونوں میں نئی نسل کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ جس سے ایک غیرمحفوظ ملک کا اثر ظاہر ہونے لگتا ہے، جس سے شہریوں کو پرائے دیسوں میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اسی تناظر میں اگر سپریم کورٹ پاکستان کے ”آسیہ کیس“ کے آج فیصلے کا جائزہ لیں اور عوام کا ردعمل دیکھ کر تو بہت افسوس اور دکھ ہوا ہے کہ ہمارے عوام کتنے سادہ اور بے وقوف ہیں جو بلا سوچے سمجھے کسی بھی معاملے پر چند نام نہاد مفاد پرست لوگوں کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ریاست کو کمزور کرنے اور اپنی ہی عوام نقصان و تنزلی کا باعث بننے میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔

ہم اگر خود کو اچھے انسان و مسلمان اور اسلامی ریاست جیسا پرامن سکون و معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے رویے اور سوچ کو بھی ویسے ہی ڈھالنا ہوگا جس سے عقل ودانش، برداشت، صبر، امن پسند سوچ جنم لے نہ کہ ان سب سے عاری شرپسند و جاہلانہ سوچ حاوی ہوجائے۔

اس تناظر میں سب پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ ریاست پاکستان کے اداروں پر اپنا اعتماد رکھیں کہ فیصلہ کرنے والے کوئی غیرمسلم یا فرنگی نہیں بلکہ ہمارے ہی معاشرے کے قابل شہری ہیں جنہوں نے پوری ذمہ داری سے کیس کی تحقیق کی اور اس پر بغیر کسی امتیاز کے مکمل عدل کے ساتھ فیصلہ دیا جو کہ ڈھکا چھپا نہیں بلکہ تمام عوام کے سامنے ترجمے کے ساتھ موجود ہے لیکن اگر آپ اداروں پر بھی اعتماد نہیں کرتے تو آپ اس فیصلے کو بغور پڑھیں، سمجھ نہ آئے تو کسی مثبت سوچ کے حامل قابل فہم دوست احباب سے مشورہ کرکے رائے لیں تاکہ آپ کو معاملے کی سمجھ بوجھ آئے اس کے بعد آپ اس پر ردعمل دیں کہ بطور شہری آپ کو اس پر کیا کردار ادا کرنا چاہیے اور اپنے اردگرد عوام۔ کو بھی اس سے آگاہ کرنا چاہیے تاکہ آگاہی فراہم کرنے سے انتشار سے بچا جائے۔

ایسا کرنے سے ہی ہم ایک اچھی پرامن اسلامی ریاست کا قیام ممکن بنا سکتے ہیں اور ایک اچھے ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں وگرنہ ہم ایسے ہی دہشت گردی، انتشار پسندی، قتل و غارت، مالی خسارے اور معاشرتی بھوک و بے روزگاری کا شکار ہوکر روز بروز تنزلی کی منزلیں پار کرت چلے جائیں گے۔

ریاست یہ نہیں کہتی کہ جس شہری کے بنیادی و مذہبی حقوق متاثر ہوں تو اس پر احتجاج نہ کیا جائے! احتجاج کریں مگر ایک اچھے انسان، مسلمان، پڑھے لکھے شہری کی طرح کریں وہ بھی پہلے معاملات کی تحقیق کے بعد! کیونکہ یہ آپ کی بطور مسلمان، بطور ذمہ دار شہری بنیادی ذمہ داری ہے کہ سنی سنائی بات یا افواہ کو بغیر تحقیق کے قبول مت کریں اور قانون کو اپنے ہاتھ میں مت لیں بلکہ اپنے حق کے لئے قانونی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کریں نہ کہ کوئی ایسی ہڑتال، احتجاج یا انتشار کا حصہ بنیں جس سے اپنے شہریوں کے جان و مال کے نقصان کا اندیشہ ہو یا کسی مسلمان کو اذیت پہنچے۔

تمام پاکستانیوں سے درخواست ہے کہ ایک ذمہ دار شہری، انسان اور مسلمان ہونے کا ثبوت دیں۔ شکریہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).