فلسطینیوں کی آہ وفریاد کوئی سننے والا نہیں!


اس سال “قَومی یومُ الارض” کے موقع سے 30 مارچ سے فلسطینیوں نے “تحریک حق واپسی” کے عنوان سے، غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے خلاف جو احتجاجی مظاہرے شروع کیے ہیں وہ اب تک جاری ہیں۔ اس مظاہرے میں، اسرائیلی فوج کی دہشت گردانہ کاروائی سے ہر جمعہ کچھ نہ کچھ فلسطینی جام شہادت نوش کرتے ہیں؛ جب کہ درجنوں زخمی ہوتے ہیں۔ آبادی کے اعتبار سے فلسطین کا ایک بڑا حصہ: “غزہ کی پٹی” کے شہریوں کو سن 2007ء سے معمول کی زندگی گزارنا دشوار ہورہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں ایک طرف غاصب صہیونی ریاست نے “غزہ کی پٹی” کا آہنی فصیل سے محاصرہ کر رکھا ہے، وہیں دوسری طرف برادر ملک: مصر نے غزہ بین الاقوامی گزرگاہ رفح کی ناکہ بندی کرکے غزہ کے شہریوں کی آمد ورفت پر پابندی لگا رکھا ہے۔ فلسطینی شہری اس احتجاجی مظاہرے کو طول دے کر، جہاں اپنی مقبوضہ اراضی کے حصول اور اپنے وطن (وہ جگہ جہاں وہ پہلے آباد تھے اور صہیونی ریاست نے ان کو جبرا وہاں سے بھگا کر، ان کی جگہوں کو قبضہ کرلیا) میں واپسی کی بھرپور کوشش میں لگےہیں، وہیں دوسری طرف اقوام عالم کے حکمرانوں کی توجہ کے طلب گار ہیں کہ وہ کھل کر، فلسطینیوں کی ابتر حالات پر گفتگو کریں اور فلسطینیوں کو ان کا حق دلائیں۔

جب سے “عظیم تحریک حق واپسی” شروع ہوئی ہے، صہیونی غاصب ریاست کو اس سے بہت تکلیف ہے کہ کہیں یہ غزہ کے شہری اقوام عالم کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کام یاب نہ ہوجائے اور اس کے نتیجے میں صہیونی ریاستی ظلم وجبر اور دہشت گردی کے خلاف عالمی دباؤ نہ شروع ہوجائے؛ چناں چہ اس مظاہرے کو روکنے کے لیے ان پر امن مظاہرین پر،دن بہ دن حملے میں تیزی لارہی ہے۔ اس پر امن احتجاجی مظاہرے میں حصہ لینے والے مظاہرین کے ساتھ ساتھ ابتدائی طبی امداد مہیا کرنے والے اطباء اور صحافی حضرات پر بھی حملے کرنے میں یہ صہیونی افواج دریغ نہیں کرتی ہے۔ “اقوام متحدہ آفس برائے رابطۂ امور انسانی” (UNO-CHA) کی رپورٹ کے مطابق اب تک تقریبا 217 افراد شہید ہوچکے ہیں؛ جب کہ 22897 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔

ابھی گزشتہ جمعہ یعنی 26/ اکتوبر 2018 کو پرامن طریقے سے احتجاج کر رہے مظاہرین پر فائرنگ کرکے، صہیونی افواج نے پانچ افراد کو غزہ میں اور ایک شخص کو مغربی کنارے میں قتل کیا اور 100 سے زیادہ افراد کو زخمی کیا۔ اس کے جواب میں جب “حماس” اور “اسلامی جہاد” والوں کی طرف سے مقبوضہ اسرائیلی علاقے میں چند راکٹ داغے گئے؛ تو اس کے جواب میں صہیونی بزدل افواج نے لڑاکا طیارے کی مدد سے بمباری شروع کردی۔

حقیقت یہ ہے کہ صہیونی ریاست یہ چاہتی ہے کسی طرح بھی غزہ کے شہری “حماس” سے متنفر ہوکر، احتجاجی مظاہرے سے خود کو الگ کرلیں؛ اسی لیے مختلف طریقے سے غزہ کی پٹی کو محاصرے میں لے رکھا ہے؛مگر صہیونی ریاست کی یہ چال کام یاب ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ پھر صہیونی ریاست نے “حماس” اور “اسلامی جہاد” پر اسرائیلی علاقے میں راکٹ داغنے کا الزام لگاکر، پچھلے ہفتے ایک خطرناک جنگ کے ارادے سےمیدان میں کودنے کو تیار تھی، جو کسی طرح ٹل گئی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ صہیونی ریاست نے “حماس” اور “اسلامی جہاد” کی طرف سے راکٹ داغے جانے سے قبل 20/ اکتوبر سے ہی غزہ کی پٹی سے متصل اپنے ٹینک اور فوجیوں کو جمع کرنا شروع کردیا تھا۔

پھر سنیچر 27/اکتوبر کی صبح کو اسرائیلی جنگی طیارے اور ہیلی کوپٹر نے دو گھنٹے سے زیادہ تک، غزہ کی پٹی میں متعدد مقامات پر بمباری کی اور کئی عمارتوں کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچایا۔ ان عمارتوں میں “حماس” کی جنرل سیکوریٹی کا چار منزلہ ہیڈکواٹر اور شمالی غزہ میں واقع انڈونیشین ہسپتال بھی ہے۔ طاقت کے نشے میں چور صہیونی ریاست یہ سب کر رہی ہے،مگر حقوق انسانی کے چمپینوں کی زبان نہیں کھل رہی ہے کہ وہ غاصب اسرائیلی ریاست کے حکام سے پوچھ سکیں کہ اس کے پاس اس ظلم وبربریت، ضرب وحرب اور قتل ودہشت گردی کا کیا جواز ہے؟

ابھی 12/اکتوبر کی بات ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک نوآباد صہیونی نے ایک “عائشہ محمد” نامی خاتون کو پتھر سے کچل کر موت کی کے آغوش میں پہونچادیا۔ وہ خاتون اپنے خاوند کے ساتھ اپنی کار ڈرائیو کر رہی تھی۔ دہشت گرد نو آباد صہیونی نے اس کار میں ایک مسلم خاتون کو دیکھتے ہی ایک وزنی پتھر اٹھا اور اس کی کار پر حملہ کردیا۔ پھر اس نے کار کی کھڑکی کو توڑا اور اس خاتون اور اس کے شوہر پر پتھروں سے حملے شروع کردیا۔ زخموں کی تاب نہ لاکر، عائشہ اسی جگہ اپنے مالک حقیقی سے جاملی؛ جب کہ عائشہ کا شوہر بری طرح زخمی ہے۔

عائشہ کے قتل ناحق سے صرف دو دن پہلے کی بات ہے کہ کچھ صہیونی نو آبادوں نے جنوبی نابلس میں واقع “عوریف” نامی بستی کے ہائی اسکول میں زبردستی داخل ہوکر، کلاس میں تعلیم حاصل کررہے طلبہ پر پتھر برسانا شروع کردیا۔ اس حملے میں درجنوں طلبہ زخمی ہوئے اور اسکول کے متعدد سامانوں کو نقصان پہنچا۔ اس حادثے کے فورا چند منٹ کے بعد، صہیونی افواج اسکول کے احاطے میں داخل ہوکر، ان صہیونیوں کو بہ حفاظت باہر لے گئی اور طلبہ پر آنسو گیس اور گن سےفائرنگ شروع کردی۔

غاصب صہیونی ریاست اسرائیل ظلم وجبر کے سارے حدود پار کرچکی ہے۔ آج کے مہذب دور میں بھی فلسطینیوں پر اس طرح ظلم کیا جاتا ہے کہ صہیونی فوج اور پولس مسلمانوں کی آبادی والے مقامات جیسے: جبل المکبر، الخلیل، خان الاحمر وغیرہ میں پہنچتی ہے اور اہل خانہ کو گھر سے باہر نکال کر، بلڈوزر (Bulldozer) سے مکان کو مسمار کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 17/اکتوبر کو عالمی عدالت نے اسرائیل کو متنبہ کیا ہے کہ وہ مشرقی بیت المقدس کے نواحی قصبے خان الاحمر کو مسمار کرنے اور وہاں فلسطینی شہریوں کو ہجرت پر مجبور کرنے سے باز آئے۔ اگر اسرائیل عالمی عدالت کی اس تنبیہ کے باوجود بھی اس طرح کی حرکت کرتاہے؛ تو یہ جنگی جرم (War Crime) سمجھا جائے گا۔

یہ بات بغرض تسجیل لکھی جارہی ہے کہ 1967 کے بعد سے، فلسطینی علاقے: “مغربی کنارے” اور “مشرقی بیت المقدس” کو صہیونی ریاست نے قبضہ کرکے،فلسطینیوں کے مکانوں کو مسمار کرکے، ان میں اب تک تقریبا 230 غیر قانونی نوآبادیات (Settlements) تعمیر کرچکی ہے جس میں چھ لاکھ کے قریب نو آباد صہیونی رہتے ہیں۔

اس صہیونی غاصب ریاست اسرائیل میں ناجائز طریقے سے سکونت پذیر قاتلوں اور دہشت گردوں کے درمیان اقوام عالم نے بالعموم اورمسلم ممالک نے بالخصوص فلسطینیوں کو سسکتا، روتا اور مظلوم ومقہور چھوڑ دیا ہے۔ شب وروز فلسطینیوں پر ظلم وجبر کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ ان کے سامنے دنیوی اسباب بالکل معدوم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ فلسطینیوں کی آہ وفریاد کوئی سننے والا نہیں۔ یہ ظلم وستم کی داستان جو ضبط تحریر میں لائی جارہی ہے کوئی الفاظ کی صنعت گری نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک حقیقت ہے جس کے بے شمار ثبوت ہیں۔ ان ثبوت کا اعتراف خود غاصب صہیونی ریاست کے اہم ذمے داروں کے منھ سے گاہے بہ گاہے ہوتا رہا ہے۔ اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ ابھی چند روز قبل غاصب صہیونی ریاست کا قاتل وسفاک سابق وزیر دفاع ووزیر اعظم: ایہود باراک نے 19/اکتوبر 2018 کو بڑے فخر سے، اپنے کارنامے کے طور پر،عبرانی زبان میں نشر ہونے والے ایک ٹی وی چینل کوآن رکارڈ انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے صرف تین منٹ میں، تین سو فلسطینیوں کو قتل کردیا جو حماس کے کارکن تھے۔ ایک سابق وزیر اعظم اور وزیر دفاع ٹی وی چینل پر اس طرح کھلے عام نہتے شہریوں کے قتل عام کی کہانی انٹرویو میں سنا رہا ہے، مگر کوئی اس کا گریبان پکڑ کر، قانون کے حوالے کرنے والا نہیں ہے۔ کیا تاریخ نے اپنے صفحات پر اس سے بھی بڑھ کر ظلم وزیادتی کی کوئی تاریخ رقم کی ہے؟!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).