ڈنڈا بردار مظاہرین اور نیا پاکستان


میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں ذاتی طور پر دو پاکستان دیکھنے کے تجربہ سے گزر رہا ہوں۔ مجھے یہ تجربہ آسیہ بی بی کی رہائی کے فوراً بعد ہو رہا ہے۔ ایک پاکستان مجھے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹویٹر اور مقامی انگریزی اخبارات کے آن لائں ایڈیشن دکھا رہے ہیں جس میں مذہبی جماعتوں کے ڈنڈا بردار مظاہرین اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت ملک کے بڑے شہروں میں زبردستی سٹرکیں بند کرا رہے رہیں۔ جب میں یہ الفاظ تحریر کر رہا ہوں اس وقت تک کی اخباری اطلاعات کے مطابق راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والا بڑا چوراہا فیض آباد انٹرچینج رکاوٹیں کھڑی کر کے بلاک کیا جارہا ہے۔

اب آئیے دوسرے پاکستان کی طرف جہاں تقریباً تمام نجی چینل ٹیلی ویژن ملک میں سب اچھا کی خبر دے رہے ہیں۔ آسیہ بی بی کی رہائی کے بعد سے پیدا ہونے والی امن و اومان کی صورتحال سے متعلق خبر کو کوئی چینل اس قابل نہیں سمجھ رہا کہ نشر کیا جائے۔ ایسا واقعی نئے پاکستان ہی میں ممکن ہے۔ کیونکہ مجھے یاد ہے جب پرانے پاکستان میں ان ڈنڈا برداروں نے فیض آباد انٹرچینج پر ڈیرے جمائے تو انہی ٹی وی چینلز نے تواتر سے ان کی کوریج کی۔

سخت دباؤ کا شکار پرانے پاکستان کی پرانی حکومت کو ان ڈنڈا برداروں سے معاہدہ کر کے اپنی جان چھڑانا پڑی۔ صورت اتنی گھمبیر تھی کہ پرانے پاکستان کی پرانی حکومت کے بعض وزراء کو نہ صرف اہنے ایمان کا تجدیدی سرٹیفیکیٹ لینا پڑا بلکہ ایک وزیر کو تو اپنے استعفٰی میں تحریراً اپنے آباؤ اجداد کے صحیح مسلمان ہونے کا ثبوت دینا پڑا۔ اس وقت کیونکہ نئے پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے والا تھا اس لیے نئے پاکستان کی قیادت نے یہ مناسب سمجھا گیا کہ ڈنڈا برداروں کے موقف کی بھرپور تائید کی جائے۔

اللہ نے کرم کیا اور جلد ہی قوم کو نیا پاکستان دیکھنے اور اس میں رہنے کا موقع میسر آگیا۔ اب پاکستان نیا ہے لیکن ڈنڈا بردار وہی پرانے والے۔ اوپر سے مشکل یہ کہ ان کے مطالبہ کو پورا کرنا بظاہر ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ لیکن نئے پاکستان کی نئی حکومت ایک لحاظ سے قسمت کی دھنی ہے کیونکہ ٹیلی ویژن سکرینوں پر عوام کو سب اچھا دکھایا جارہا ہے۔ یہ سلسلہ شاید اس وقت تک جاری رہے جب غیب سے کوئی مدد نہ آن پہنچے اور ناراض ڈنڈا بردار بھائیوں کو منا کر لے جائے۔

ویسے بھی اس وقت ملک شدید معاشی مسائل سے دوچار ہے اور کسی سنگین بدامنی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ قوی امید ہے کے یہ بات کوئی اللہ کا نیک بندہ ڈنڈا برداروں کے دلوں میں ڈال دے گا اور وہ اپنا جائز سفری وظیفہ لے کر ہنسی خوشی اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے۔ اگر ایسا ہو جائے تو یہ نئے پاکستان اور اس کے عوام کے حق میں بہتر ہوگا۔ لیکن ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ ڈنڈا برادار بعض اوقات اتنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں کے غیبی مدد بھی کام نہیں آتی۔

ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے نئے پاکستان کی نئی حکومت کو تیار رہنا چاہیے۔ نئے پاکستان کی نئی حکومت کو خصوصاً اس وقت انتہائی چوکنا ہو جانا چاہیے جب ٹی وی چینلز ڈنڈا برداروں کے سربراہان کی تقاریر براہ راست نشر کرنا شروع کردیں۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو یہ اس بات کی نشانی ہو گی کہ غیب سے مدد آنے کا کوئی امکان نہیں۔ اس ناگہانی صورتحال میں حکومت کو کوئی بڑی قربانی دینا ہو گی۔ ڈنڈا برداروں کو وہ قربانی کس شکل میں اور کیسے قابل قبول ہو گی اس کا فیصلہ بھی بدقسمتی سے ڈنڈا بردار ہی کریں گے۔

میں خلوص دل سے دعا کرتا ہوں کہ نئی حکومت کو اس امتحان سے نہ گزرنا پڑے اور ان کی مصیبت کسی غیبی مدد سے ٹل جائے۔ ہاں جب یہ مصیبت ٹل جائے تو نئے پاکستان کی نئی حکومت کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ مذہب کو ایک سیاسی حربہ کے لیے استعمال کرنا کس حد تک درست ہے؟ پرانے پاکستان کی پچھلی دو حکومتیں مذہبی ڈنڈابرداروں کے ہاتھوں ہزیمت اٹھا چکی ہیں۔ اس وقت موجودہ حکومت ڈنڈا برداروں کے ساتھ کھڑی تھی۔ اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا نئے پاکستان کی نئی حکومت اگر چاہے تو یہ غلط حکومتی روش بدل سکتی ہے۔ بس اخلاقی جرات اور چند کڑے فیصلوں کی ضرورت ہے۔ موقع اچھا ہے اور غیبی مدد کا امکان بھی موجود ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).