سندھ کا صوفیانہ مزاج نہیں بدلا


پرویزمشرف کی نام نہاد روشن خیال حکومت کا سورج غروب ہوتے ہی ملک میں جو دہشتگردی کی لہر اٹھی، اس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، مجھے زیادہ تو علم نہیں مگر بچپن کی یادیں تازہ کرتا ہوں تو ضیاء کی گیارہ سالہ آمریت کے خاتمے کے وقت بھی ہتھوڑا گروپ کا ظہور ہوا۔ آئے روز کسی نہ کسی شہر میں نامعلوم افراد لوگوں کے گھروں میں گھس کر خاندان کے تمام افراد کے سر ہتھوڑے سے پھوڑ دیتا تھا، عورتوں اور بچوں سمیت کوئی زندہ نہیں بچتا تھا کہ واقعے کا کوئی سراغ مل سکے۔ اسی ہتھوڑا گروپ کی وارداتوں نے پورے ملک کے لوگوں کو ایک انجانے خوف میں مبتلا کردیا، پھر کراچی کی بوہری بازار میں دھماکا ہوا اور ’تخریب کاری‘ کی ایک نئی اصطلاح نے عوام کا خون خشک کردیا۔

ہوسکتا ہے کہ آمریتوں کے آفٹرشاکس ایسے ہی ہوتے ہوں لیکن ضیاء الحق کے خلاف ایم آرڈی تحریک کا مرکز بننے کی وجہ سے سندھ کو ایک طرف تو لسانی نفرت کا ایندھن بنایا گیا، دوسری طرف پورے ملک میں 1985 کے غیرجماعتی انتخابات کے بعد سیاستدانوں کی ایک نئی پود میدان میں اتری جن کا نظریات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، اقتدار ہی واحد منزل تھی۔ اس سیاسی کیڈر نے آگے چل کر کیا کیا گل کھلائے یہ ایک الگ بحث ہے مگر آج ہمارا موضوع ہے آمریتی کھیتی کی فصلیں۔

2007 کے بعد جس طرح ملک کے طول و عرض میں دہشتگردی کے پے در پے واقعات رونما ہورہے تھے، اس وقت اگر ملک کا کوئی علاقہ سکون کی زندگی گذار رہا تھا تو وہ تھے دارالحکومت کراچی کے علاوہ سندھ کے باقی سارے شہری اور دیہی علاقے۔ کراچی میں ہونے والے واقعات کی تفتیشی رپورٹس دیکھ لیں تو اس میں بھی دیگر علاقوں سے آئے ہوئے لوگ کسی نہ کسی طرح ملوث ہوں گے۔

پھر ایک وقت آیا کہ سندھ کے ضلع شکارپور میں ایم این اے ڈاکٹر ابراہیم جتوئی کے گاؤں، درگاہ حاجن شاہ حٰضوری اور شہر کے عین قلب میں واقع امام بارگاہ میں دھماکے ہوئے، جبکہ اس سے ملحقہ ضلع جیکب آباد میں ماتمی جلوس پر دھماکے اور سید حسین شاہ قمبر والے کے جلوس پر بھی خود کش حملے ہوئے۔ ان سارے واقعات میں صرف موخر الذکر کو چھوڑ کر باقی سارے واقعات کا ہدف اہلِ تشیع برادری تھی، جبکہ سید حسین شاہ کا تعلق بریلوی مسلک سے ہے۔

ان واقعات کے بعد سندھ کے مختلف علاقوں میں دینی مدارس میں بڑے پیمانے پر تفتیش ہوئی، کچھ ملزمان گرفتار بھی ہوئے، جن کا تعلق بھی ملک کے دیگر حصوں سے ظاہر ہوا۔ پولیس اور حساس اداروں کی تفتیشی سرگرمیوں کا مرکز بھی شکارپور ضلع میں تازہ قائم ہونے والے مدارس تھے۔

اس کے بعد سہون شریف میں لال شہباز قلندر کے مزار میں خود کش دھماکے اور سکھر میں سینیٹر ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے بہیمانہ قتل کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ ایک گہری سازش ہورہی ہے جس کا مقصد سندھ کے پرامن علاقوں کو دہشتگردی اور بدامنی کی بھینٹ چڑھانا تھا۔ اس مرحلے پر بھی سندھ کے ذی شعور اور باخبر لوگ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے الزامات لگاتے تھے۔

مندرجہ بالا واقعات کے باوجود سندھ کا صوفیانہ مزاج نہیں بدلا، سندھ کے لوگوں کو بھلے قبائلی جھگڑوں میں الجھانے کی سازش ہوتی رہی ہو یا منظم نمونے سے ڈاکو راج کی سرپرستی کی گئی ہو مگر پھر بھی سندھ کا مزاج محبت کرنے والا ہی رہا۔ جب جب یہاں کے باسیوں کو موقع ملا انہوں نے اپنے درویش مزاج کا کھل کا اظہار بھی کیا اور نفرت سے نفرت بھی کر کے دکھائی۔

ابھی سندھ کے لوگ دہشتگردی کی نئی لہر پر قابو پانے کی شعوری کوششوں میں لگے ہوئے تھے کہ صورتحال تبدیل ہوگئی۔ پچھلے چند سالوں سے جنونی سیاست کی جو نئی بساط بچھائی گئی ہے اس میں صرف صوبائی دارالحکومت کو چھوڑ کر سندھ کے سارے علاقے ایک بار پھر محفوظ نظر آرہے ہیں۔ اس وقت جس طرح پورے ملک میں ماحول ہے، اس کی وہ شدت کراچی کے علاوہ سندھ کے کسی شہر میں نظر نہیں آرہی۔ اس وقت جب پورے ملک کے خوفناک حالات پریشانی کا سبب بنے ہوئے ہیں وہاں اکثریتی سندھ کے حالات کو دیکھ کر کچھ اطمینان ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ نفرتوں کے سوداگر اگر اپنا مذموم کھیل سندھ میں بھی کھیلنا بھی چاہیں تو ان کو اس کے لئے بہت وقت لگے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).