نعیم بخاری کی دلائل سننے پر فی سیکنڈ ایک ہزار روپے ڈیم فنڈ میں جمع کروانے کی آفر


چیف جسٹس ثاقب نثار جیسے محب وطن و خوش مزاج، قوم کے درد کو سمجھنے والے جج اور جناب نعیم بخاری جیسے محب وطن و خوش مزاج وکیل خال خال ہی کسی مملکت میں پائے جاتے ہوں گے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کے بر وقت مینٹل ہاسپٹل، سب جیل قرار دیے جانے والے ہاسپٹل، جیلوں کے دوروں اور برجستہ جملوں سے الحمد للہ وطن عزیز میں ایک خوشگوار فضا قائم رہتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت شاہ زیب کے قاتل شاہ رخ جتوئی کی وہ مسکراہٹ ہے جو اس نے چیف جسٹس ثاقب نثار کی اپنے جیل کے کمرے میں آمد پر ان کو دیکھ کر سب کے سامنے بکھیری۔ اسی طرح مینٹل ہاسپٹل کے دورے میں بھی دماغی امراض میں مبتلا افراد اور چیف جسٹس ایک دوسرے سے مل کر ایسے خوش ہوئے، جیسے دو طویل مدت سے بچھڑے ہوئے لوگ اچانک ملاقات پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور گلے شکوے دور کرتے ہیں۔

جناب نعیم بخاری ایک محب وطن وکیل ہیں۔ وطن عزیز کی خدمت کا آغاز انہوں نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے نام ایک کھلا خط لکھ کر کیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے سابق چیف جسٹس سے ملاقات کے موقعے پر وہی خط سابق چیف جسٹس کے سامنے رکھ کر استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔ گو کہ پنجاب بار کونسل نے چیف جسٹس کے نام کھلا خط لکھ کر وطن عزیز کی خدمت کرنے پر نعیم بخاری کی بار کونسل کی رکنیت منسوخ کر دی تھی۔

جناب نعیم بخاری تحریک انصاف کے سینیئر رہنما بھی ہیں۔ پانامہ کیس میں تحریک انصاف کی طرف سے موصوف وکیل تھے اور میاں نواز شریف کو وزارت عظمی سے نا اہل کروا کر ملک و قوم کی جو خدمت انہوں نے کی اور وطن عزیز کو تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ ان کی وطن عزیز کے لیے اس خدمت کا شکریہ قوم کی سات نسلیں بھی ادا کرنے سے قاصر ہیں۔

چیف جسٹس ثاقب نثار اور جناب نعیم بخاری جب عدالت عظمی میں آمنے سامنے ہوں تو وہ لمحے بڑے خوشگوار ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ جب ایئر ہوسٹسز کے ساتھ چیف جسٹس صاحب کی تصویر سوشل میڈیا پر شائع ہوئی، جو نعیم بخاری کی نظر سے بھی گزری۔ ( تصویر کتنے میٹر دور سے ان کی نظر کے سامنے سے گزری یا قریب سے گزری یہ تو نعیم بخاری ہی بتا سکتے ہیں، کیوں کہ میٹروں کے حساب سے خواتین کو دیکھنے اور ان کی شخصیت کا تجزیہ کرنے کا دعوی وہ خود کر ہی چکے ہیں۔ ) بہرحال نعیم بخاری صاحب نے ایئر ہوسٹز کے ساتھ تصویر کھنچوانے اور تصویر کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے پر اعتراض کیا تو چیف جسٹس صاحب نے ارشاد فرمایا کہ آپ کیوں جل رہے ہیں؟ آپ کا بھی حق بنتا ہے، جوابا نعیم بخاری نے کہا کہ آپ نے وکلاء کا حق مارا ہے۔

چیف جسٹس صاحب نے جب دیامر بھاشا ڈیم فنڈ قائم کیا تو جناب نعیم بخاری نے 40 لاکھ روپے ڈیم فنڈ میں دینے کا انکشاف بھی عدالت عظمی میں کیا اور آج بھی ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جب انہوں ایک مقدمے میں تبدیلی وکیل کی درخواست عدالت عظمی سے کی تو دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو کس قیمت پر سن لیں، قیمت ایک ہزار روپے فی سیکنڈ ہوگی جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ عدالت اجازت دے فی سکینڈ 1000 روپے ڈیم فنڈ میں دوں گا۔

اس پر چیف جسٹس صاحب نے فرمایا کہ نہیں ایسا نہیں ہوگا، ورنہ قوم یہ سمجھے گی کہ میں پیسے مانگ کر بطور جج اپنے عہدے سے سمجھوتا کر رہا ہوں اور ڈیم سے میرا رومانس میرے فیصلوں پر اثر انداز ہو رہا ہے، اس لیے عدالت میں ڈیم فنڈ کے لیے پیسے نہیں مانگوں گا۔ واضح رہے کے معروف وکیل اور قانون داں چوہدری اعتزاز احسن پر چیف جسٹس نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جرمانہ عائد کیا اور جرمانے کی رقم ڈیم فنڈ میں جمع کرانے کا حکم دیا تو انہوں نے جرمانے کی رقم ڈیم فنڈ میں جمع کرانے سے انکار کر دیا تھا۔

چیف جسٹس صاحب نے فی سیکنڈ ایک ہزار روپے ڈیم فنڈ میں رقم جمع کروانے کی، جناب نعیم بخاری کی درخواست رد کر کے بہت اچھا قدم اٹھایا ہے۔ کیوں کہ چیف جسٹس صاحب اب آبادی کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی بات کر رہے ہیں، گو کہ اس بند کو باندھنے کے لیے کسی فنڈ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن جناب نعیم بخاری سے کچھ بعید نہیں کہ وہ آبادی کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کے لیے فی سیکنڈ ایک ہزار روپے نقد یا اس قیمت کی وہ اشیاء جو آبادی کے بڑھاؤ کو روکنے کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں، عدالت کے روبرو پیش کردیں۔ قوم ویسے بھی فیض آباد دھرنے کے بعد سے ایک ہزار روپے کے نوٹ کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).