رہنا کرسچن ٹاؤن میں!


ان دنوں مَیں کرسچن ٹاؤن فیصل آباد میں رہتا تھا۔ میرا فلیٹ پانچویں منزل پر تھا۔ دو کمرے تھے۔ ایک جگہ کچن نام کی تھی، دوسرا فلیش باتھ تھا، کھلا صحن تھا۔ جن دنوں مجھے یہاں استاذی وسیم عباس صاحب چھوڑ کر گیے تھے شدید جاڑا تھا اور کہر پڑتی تھی۔ اوائل دنوں میں، مَیں ذرا دبا دبا رہا کہ محلہ عیسائیوں کا ہے۔ آنے جانے میں نظر اٹھا کر کر یاں چلنا کسی تکلیف سے کم نہ تھا کہ ان کی عورتیں کھلی گلی میں چار پائی ڈال کر کھیس بنتیں، سبزیاں چھیلتیں، بالوں سے جوئیں نکالتی تھیں، بوڑھے چارپائی ڈال کر ٹھسکے دار کھانسی اور بلغمی تھوک سے فضا آلودہ کیے رکھتے تھے۔

میرا گزر یاں سے معمول کا تھا۔ میں چلتے پھرتے ان پر اچٹتی سی نظر ڈالتا اور کبھی کبھار موقع ملتے ہی بغور ان کے بشروں کو تکتا، رویوں کا جائزہ لیتا اور یونیورسٹی کی طرف قدم بڑھا دیتا۔ یہ وہ وقت تھا جب میں بی ایس اردو کی میقات پانچویں میں تھا۔ جی سی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ سر پر سائباں کوئی نہ تھا مگر بار امانت سوار تھا کہ کسی طور پڑھ کر یہاں سے نکلوں اور وسیم صاحب اور استاد ڈاکٹر افضل حمید کا کسی طور ممنون ٹھہروں اور نوازشوں کا بدلہ چکاوں۔

مگر ڈگری کی تکمیل تک مجھے اسی کرسچین ٹاؤن میں رہنا تھا اور میں رہنے لگا۔ مجھے عیسائیوں سے خوف تھا۔ جانے کیوں تھا۔ شاید یہ بچپن میں پڑھی نصابی کتابوں کا اثر تھا جو مدت بعد سامنا ہوتے ہی جوان ہوچلا تھا اور مختلف خدشات پر ابھارتا رہا تھا۔ آسیہ مسیح کیس، رمشہ مسیح کیس اور جب ایک عیسائی مزدور کو ایک مسلمان ڈاکٹر کے پاس لایا گیا تھا کہ اس بابا جی کا علاج کردیں تو ڈاکٹر نے یہ کہہ کر علاج کرنے سے انکار کردیا تھا کہ اسے نہلا کر لائیں۔

وہ بے کس وہیں تڑپ تڑپ کر مرگیا تھا۔ میں مسلمان اب ان کے محلے میں جا بسا تھا۔ اوائل میں، میرا یہ طور تھا کہ گھٹا گھٹا رہتا تھا۔ یونیورسٹی سے لوٹتے ہی خود کو کمرے میں بند کر لیتا تھا۔ ایسا ماحول تھا کہ وہاں رہتے ہوئے عجب خوف آلیتا تھا۔ صرف یہی نہیں دو تین اور گلیاں بھی عیسائیوں کی تھیں۔ دم تھا کہ ابھی نکلتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ابتدا میں میری جس سے علیک سلیک بڑھنے لگی یہ غلام محی الدین قادری تھا۔ ایف ایس سی کے بعد یہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج میں بی ایس کیمسٹری کی میقات اول میں پڑھ رہا تھا۔

دوسرا جس شخص سے تعارف ہوا یہ ہنی تھا۔ سب اسے ہنی کر کر پکارتے تھے۔ میں بھی ہنی کہ کر پکارتا تھا۔ آٹھ ماہ رہا کبھی نام جاننے کی کوشش نہ کی۔ جانے کیوں سستی آڑے رہی یا ضرورت نہ پڑی تھی۔ یہ بھی گورنمنٹ کالج میں بی ایس انگلش کے میقات اول میں تھا تیسرے جس شخص سے تعارف ہوا یہ شہزاد تھا۔ جی سی یونیورسٹی میں ایم فل کر رہا تھا۔ بڑا پیارا آدمی تھا۔ میری اس سے علیک سلیک بڑھنے لگی تھی۔ فلیٹ پر اور بھی تین چار لوگ تھے جو گاہے بگاہے آتے تھے۔

یہ وہ نامعلوم لوگ تھے جن کا حسب نسب جاننے کی کبھی کوشش نہ کی تھی۔ یہ ویک اینڈ کلاس لینے آتے اور پھر اتوار کی شام لوٹ جاتے تھے۔ میرا یارانہ غلام محی الدین قادری سے بھی بڑھنے لگا تھا۔ اس کا تعلق قادریہ سلسلے سے تھا اور وہ خود پیر محل سے تھا۔ ہر وقت وہ مذہب کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف اور دوستوں سے برسر پیکار رہتا تھا۔ سارا دن موبائل پر گیمیں کھیلتا تھا اور پڑھتا کم تھا۔ مگر دوست زندہ دل تھا۔ اسے دیکھ کر میری گھٹن میں کمی سی آنے لگی تھی۔ میرے ساتھ اس کا یارانہ بڑھنے لگا تھا۔ وہ بھی میرا معتقد ہوچلا تھا۔ غلطی یہ کی تھی کہ وہ میری ایک کتاب پڑھ کر ایک روز کہنے لگا کہ ”اچھا یہ آپ کی کتاب ہے یقین نہیں آتا۔ مگر پھر بھی یقین کیے لیتا ہوں۔ “

کبھی کبھار وہ ایسی رس گھول اردو بولتا تھا کہ سننے کو من کرتا تھا۔ ہنی سے بھی یارانہ بڑھنے لگا ایکا ایکی وہ فلیٹ مجھے اپنا گھر لگنے لگا اور میں بے خوف ہوکر اس میں سانس لینے لگا تھا۔

ایک بار جب میں سردیوں کی ایک ٹھنڈی دوپہر فلیٹ پر پہنچا تو دیکھا کہ غلام محی الدین، شہزاد اور ہنی کو لیے مذہبی مباحث میں الجھا ہے۔ میرے لیے یہ بحث کوئی نئی نہ تھی کہ اس طرح کے مباحث ہمارے یہاں آئے روز ہوتے ہیں۔ مَیں تینوں کے رویوں کو نظر انداز کرتا ہوا اپنے معمول کے کاموں مصروف ہوگیا۔ رفتہ رفتہ مجھ پر کھلنے لگا کہ یہ ضرور کوئی خاص بات ہے۔

ایک روز میں نے قادری کو پٹخار کر کہا یہ کیا تم ہر روز مذہبی دکانداری سجا کر بیٹھتے ہو، کبھی خود نماز پڑھی ہے، روزہ رکھا ہے، کبھی خود نماز اور کلام الٰہی کے قریب گیے ہو، جو دوسروں پر بگڑتے ہو۔ مگر قادری نے مجھے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ ”یہاں بات نماز روزے کی نہیں ہو رہی مسلم اور غیر مسلم کی ہورہی ہے“۔

مسلم اور غیر مسلم؟ اب کی بار میں چونکا۔
”۔ کیا مطلب مسلم اور غیر مسلم؟ “ ”بھئی صدیقی سیدھی سی بات ہے ہماری اور ہنی لوگوں کی عبادات میں فرق ہے“۔
”مگر کیسے؟ “ میں نے پوچھا

”یہ لوگ عیسائی ہیں“
قادری نے کہا اور خاموش ہوگیا۔ میں حیرت زدہ رہ گیا۔

”کیا مطلب“ میں نے ہمت کرکے پھر پوچھا
”جی یہ عیسائی ہیں“
قادری نے پھر زور دے کر کہا۔

”تو تمہارا ان سے کیا الجھنا ہے۔ “ میں نے بگڑ کر پوچھا۔
”کچھ نہیں بس ویسے ہی تبلیغ کرتا رہتا ہوں دلائل دیتا رہتا ہوں۔ پر یہ مانتے ہی نہیں۔ “
”تم آخر انہیں مسلمان کرنا ہی کیوں چاہتے ہو۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2