گھوڑا گھاس کھاتا ہے


کھڑکی سے سورج کی روپہلی کرنیں میرے چہرے پر پڑ رہی تھیں، میں نے گھڑی کی طرف دیکھا صبح کے آٹھ بج رہے تھے، کیلنڈر کی طرف دیکھا یکم نومبر 2029 کا دن تھا۔ اچھل کر بستر سے نکلا۔ اوہ آج تو مجھے ایبٹ آباد جانا تھا۔ یہ بات یاد آئی تو بجلی کی سی تیزی سے منہ ہاتھ دھو کر گیراج میں پہنچا۔ گیراج میں اپنے مشکی گھوڑے کوتوانا دیکھ کر دل کو اطمینان ہُوا۔ گھوڑا مجھے دیکھ کر ہنہنایا گویا گڈ مارننگ کہہ رہا ہو۔ اسے پیار سے تھپکی دے کر لاؤنج میں آیا۔ کچن سے پراٹھوں کی اشتہا انگیز خوشبو آ رہی تھی۔
” ہنی! ذرا جلدی کرنا، بھوک شدید ہے۔ “ میں نے آواز لگائی۔ ”ناشتہ تیار ہے سر! “

نصف بہتر نے کچن سے نکلتے ہوئے کہا۔ ”گڈ! آؤ ناشتہ کریں۔ “ میں نے کہا۔ ”آپ شروع کریں، میں گھوڑے کو چارہ ڈال آؤں۔ “ اُس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”اؤ کے“ میں نے سر ہلا دیا۔ ناشتے کے بعد جب میں گھوڑے کو تیار کر کے اس پر سوار ہونے کو تھا تو ڈور بیل بجی۔ باہر نکل کر دیکھا۔ میرے عزیز دوست آغا اپنے گھوڑے پر سوار گیٹ پر تھے۔ ان کے ساتھ ان کا ملازم موٹر سائیکل ہاتھ سے سنبھالے کھڑا تھا۔ ”خیریت؟ آغا جان آپ اس وقت۔ میں تو ابھی گھر سے نکلنے والا تھا۔ “ میں نے استفسار کیا۔

” میں نکلنے دیتا تو نکلتے ناں، اچھا اب باقی باتیں راستے میں کر لیں گے، ابھی میرے ساتھ اسلام آباد چلو، ایک بہت ضروری کام ہے۔ “ ٹھیک ہے تو میں اپنا گھوڑا نکال لوں ”میں نے کہا۔ “ رہنے دو تمہارے مریل گھوڑے کی رفتار سے میں خوب واقف ہوں، میرے ساتھ ہی آ جاؤ۔ ”اب آغا کے حکم سے سرتابی کی مجال نہ تھی۔ چناں چہ آغا کی موٹر سائیکل کو اندر پارک کیا پھر ان کے پیچھے گھوڑے پر بیٹھ گیا۔ آغا نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور گھوڑا مری سے اسلام آباد کے راستے پر دوڑنے لگا۔ “ دیکھ لیجیے آغا جان! میں بیٹھ تو گیا ہوں لیکن کہیں ڈبل سواری پر چالان نہ ہو جائے ”

” کیا کہہ رہے ہو ان دنوں ڈبل سواری پر پابندی تو نہیں ہے، ویسے بھی میرے پاس گھوڑے کے کاغذات پورے ہیں، گھڑ سواری کا لائسینس بھی ہمراہ ہے، فکر نہ کرو۔ ”آغا کے پاس جواب موجود تھا۔ “ ویسے ہم کس مقصد سے اسلام آباد جا رہے ہیں؟ ”میں نے پوچھا۔ “ دیکھ کر بھی نہیں سمجھے، موٹر سائیکل تمہارے گھر پارک کی ہے، اس میں ایک بوند بھی پیٹرول نہیں بچا۔ پیٹرول خریدنے جا رہے ہیں۔ ”آغا نے جواب دیا۔ “ اوہ! تو یہ بات ہے۔

”میں تو برسوں پہلے اس جھنجھٹ سے آزاد ہو گیا تھا۔ مری میں کوئی پیٹرول پمپ رہا بھی نہیں تھا۔ آغا اب سر پٹ گھوڑا دوڑا رہے تھے ہم اب کمپنی باغ سے گزر رہے تھے۔ راستے میں ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ کبھی کبھی کوئی بھولی بھٹکی کار یا جیپ گزرتی۔ زیادہ تر گھڑ سوار راستے میں ملے تھے۔ کچھ خچر سوار اور گدھا سواروں نے بھی جاتے جاتے ہاتھ ہلایا تھا۔ ایک دو بیل گاڑی والے بھی دھیمی رفتار سے رواں دواں تھے۔ آغا نے بیل گاڑی والے کو اوور ٹیک کیا اور گھوڑا ایک بار پھر ہوا سے باتیں کرنے لگا۔

فیض آباد گھوڑا سٹاپ پر ہمیں رکنا پڑا۔ گھوڑا بھی ہانپ رہا تھا اور ہم بھی تھک چکے تھے۔ آغا نے گھوڑے کو چارہ اور مجھے دلاسا دیا۔ پھر پلان بنا کہ گھوڑے کو اسی اصطبل میں باندھ کر میٹرو خچر سروس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ دس بارہ سال پہلے میٹرو بس سروس ہُوا کرتی تھی لیکن اب تو یہ باتیں قصہ پارینہ ہو چکی تھیں۔ چناں چہ ہم اسی سٹاپ سے سیڑھیاں چڑھ کر میٹرو خچر اسٹیشن سے ٹکٹ خرید کر دو خچروں پر سوار ہو گئے اور مخصوص ٹریک پر خچر دوڑاتے ہوئے بلیو ایریا کی طرف رونہ ہوئے۔

ہماری منزل جناح سپر مارکیٹ تھی۔ آغا نے خچر کو مارکیٹ کے اکلوتے پیٹرول پمپ پر لے جا کر روک دیا۔ میں نے بھی اپنے خچر کو بریک لگائی۔ پیٹرول پمپ کے دو ورکر وہیں بیٹھے لڈو کھیل رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر انہوں نے فوراً کھیل چھوڑ دیا۔

” پیٹرول ملے گا؟ ”آغا نے سوال کیا۔ “ ہاں جی ضرور، کتنا چاہیے؟ ”پیٹرول پمپ کے ورکر نے خوش دلی سے کہا۔ آغا نے ڈیڑھ لیٹر کوک کی خالی بوتل نکالی اور بولے۔ “ اس میں ایک لیٹر پیٹرول ڈال دو۔ ”“ رائٹ سر ”اس نے خوش ہو کر جلدی سے بوتل پکڑی جیسے ہمارے مکر جانے کا خدشہ ہو۔
پیٹرول ڈال چکا تو آغا نے دس ہزار روپے کا نوٹ اس کی طرف بڑھا دیا۔ “ سر پانچ سو پچاس روپے اور دے دیں۔ ”ورکر منمنایا۔ “ ایں! وہ کیوں؟ ”آغا نے بھڑک کر کہا۔ “ سر رات ہی تو حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں اضافہ کیا ہے۔ اب پیٹرول دس ہزار پانچ سو پچاس روپے فی لیٹر ملے گا۔ اس نے وضاحت کی۔ ”غضب خدا کا، اتنا اضافہ، میں یہ پیٹرول واپس کرتا ہوں، میں اپنے گھوڑے پر ہی سفر کر لوں گا۔ “ آغا نے غصے سے کہا۔ ”یہ غضب نہ کیجئے گا، گزشتہ تین دن میں آپ پہلے گاہک ہیں۔ “ ورکر نے مزید منمنا کر کہا۔ تب آغا نے اسے پیسے دے دیے۔

وہاں سے نکلے تو میں نے دبی آواز میں کہا، ”آغا آپ بھی کمال کرتے ہیں، آپ نے پورا ایک لیٹر پیٹرول خرید لیا، اب ہم ڈاکوؤں کی زد پر ہیں، براہِ کرم اس بوتل کو کہیں چھپا لیجیے۔ “ آغا مسکرائے۔ ”یار اسی لئے تو تمہیں ساتھ لایا تھا، اب آؤ پتلی گلی سے واپس مری چلتے ہیں“

ڈرتے ڈرتے واپسی کا سفرشروع ہُوا۔ فیض آباد پہنچ کر خچر میٹرو اسٹیشن پر واپس کیے۔ آغا کا گھوڑا تازہ دم ہو چکا تھا۔ چناں چہ گھوڑے پر سوار ہوئے اور سفر کا آغاز کیا۔ گھوڑا گلی تک کا سفر بخیر و عافیت گزرا لیکن بانسرہ گلی پر اچانک ایک موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں نے ہمارا راستا روکا۔ آغا نے بچ کر نکلنا چاہا مگر نوجوانوں نے پستول نکال لئے۔ مجبوراً ہمیں رکنا پڑا۔

” خبردار جو کچھ بھی ہے نکال دو“ ایک ڈاکو نے کرخت لہجے میں کہا۔ ”ڈاکو بھائی ہمارے پاس اپنی جان کے سوا کچھ نہیں“ میں نے کپکپاتے ہوئے کہا۔ مگر وہ منحوس پیٹرول کی بوتل دیکھ چکا تھا۔ ”جھوٹ مت بولو، یہ پیٹرول کی بوتل میرے حوالے کر دو ورنہ گولی مار دوں گا۔ “ وہ غرایا۔ میں نے آغا کی طرف دیکھا، ان کے موڈ سے لگ رہا تھا کہ جان پر کھیل جائیں گے مگر پیٹرول اس کے حوالے نہیں کریں گے۔ یہ کیا کر رہے ہیں خوف کی ایک سرد لہر میری ریڑھ کی ہڈی میں اتر گئی۔ ڈاکو نے یہ بھانپ کر پستول سیدھا کیا اور گولی چلا دی۔ ایک چیخ کے ساتھ میری آنکھ کھل گئی۔

میں نے دیکھا میں اپنے کمرے میں ہوں۔ صبح کے آٹھ بجے تھے۔ کیلنڈر دیکھا، یکم نومبر 2018 کا دن تھا۔ جان میں جان آئی۔ فوراً اٹھ کر گیراج میں جھانکا وہاں گھوڑا نہیں بندھا تھا۔ ہونڈا سوک کھڑی تھی۔ اطمینان کی گہری سانس لے کر لاؤنج میں آیا تو اہلیہ نے کہا۔ ”آئیں ناشتہ کر لیں، اور ہاں اخبار بھی آ گیا ہے، تازہ خبر سن لیں، حکومت نے ایک بار پھر عوام پر پیٹرول بم گرا دیا ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں پانچ روپے کا اضافہ ہو گیا ہے۔ “

یہ سنتے ہی ناشتے کا خیال دل سے نکل گیا۔ ”اس کا مطلب ہے میرا خواب سچا تھا۔ ہمارے ساتھ وہی ہونے والا ہے جو میں نے دیکھا تھا۔ “ میں نے خوابناک لہجے میں کہا۔ ”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ “ اہلیہ نے حیرت سے پوچھا۔ ”کچھ نہیں، میں ابھی اور اسی وقت اپنی گاڑی بیچنے جا رہا ہوں، میں گھوڑا خریدوں گا گھوڑا۔ “ میں نے مضبوط لہجے میں کہا۔ گھوڑا؟ اہلیہ کی آنکھیں پھیل گئیں۔ ”مگر وہ کیوں؟ “ اس نے انتہائی حیرت سے سوال کیا۔ ”کیوں کہ گھوڑا گھاس کھاتا ہے، پیٹرول نہیں پیتا۔ “ میں نے جواب دیا اور تیزی سے آگے بڑھتا چلا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).