نافرمان پردیسی بیٹے کی سچی کہانی


خوابوں کی دنیا کا حقیقی دنیا سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ کہتے ہیں جو ہمارے شعور اور لا شعور میں کہیں دفن ہو وہ ہمارے خواب کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ان میں سے کچھ یاد رہ جاتے ہیں اور کچھ ذہن سے محو ہو جاتے ہیں۔ کچھ برس پہلے میں نے ایک خواب دیکھا تھا جو دماغ میں نقش ہے پراس عذاب خواب کا ذکر کرنے سے پہلے اپنی زندگی کی کہانی سنانا چاہتا ہوں۔

ہمارا گھرانہ کل تین افراد پر مشتمل تھا۔ ایک میں، دوسرے میرے ابا اور تیسری مجھے جنم دینے والی جنم جلی، میری ماں۔ ابا گورنمنٹ سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ اماں گھر داری کے کاموں پر مامور تھیں۔ میں ان کی اکلوتی اولاد تھا۔ انہوں نے میرا نام سکندر رکھا تھا۔ مجھے پیار سے شہزادہ کہا جاتا تھا۔ میں ان کی زندگی کا مرکز تھا۔ دونوں اپنی بساط کے مطابق میری ہر خواہش کو پورا کرنے میں مگن رہتے تھے۔

اماں ابا زندگی کے پیچ و خم سے کبھی نہ گھبراتے تھے۔ بس ان کی بدحواسی قابل دید تب ہوتی جب مجھے کسی چوٹ، بیماری یا تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا۔ بیماری کی حالت میں کبھی ایک حکیم کے تو کبھی دوسرے کے لیے پھرتے۔ دوا دارو کے ساتھ ساتھ دعاؤں کا سلسلہ بھی زور پکڑتا۔ گھر کے پاس جو مزار تھا وہاں چادر چڑھائی جاتی۔ اگر چادر چڑھانے کے لیے رقم ناکافی ہوتی تو پھولوں کی پتیوں پر اکتفا کر لیا جاتا۔ میری صحت کے لیے منت مانگی جاتی، جالیوں پر بندھے کالے دھاگوں میں ایک اور دھاگے کا اضافہ یقینی ہو جاتا۔

وہ اپنی بساط کے مطابق خیرات کرتے۔ کوئی تیل کی مالش کرنے کو کہتا تو میرے جسم سے تیل کے بھبھکے آتے رہتے۔ پانی میں جڑی بوٹیوں کو ابال کر مجھے پلایا جاتا۔ اس حال میں ان کا کا جگ راتا یقینی ہو جاتا۔ دوپٹہ کے پلو پر پڑھی گرہ کو کھول کر کالی مرغی کا صدقہ دیا جاتا۔ گود میں مجھے اٹھائے اٹھائے وہ کبھی نہ تھکتے۔ مجھے پاؤں فرش پر دھرنے نہ دیتے۔ میرے پاس اس قدر چوکنا بیٹھتے کہ گہری سانس پر بھی ہڑبڑا جاتے۔

اماں ہاتھ میں تسبیح پکڑے کچھ بڑبڑاتی چلی جاتیں۔ ایک دن اماں کے سینے سے لگا بخار میں پھنک رہا تھا۔ اماں پھر کچھ بڑبڑائے چلی جا رہی تھیں۔ اس دن سمجھ آیا کہ اماں کیا پڑھتی تھیں۔ ہر دانے پر یہ دعا کرتی تھیں یا اللہ اس کی ساری تکلیفیں، سارے دکھ مجھے دے دے۔ تسبیح کا آغاز بھی اسی دعا سے کرتیں اور اختتام بھی۔ بچپن سے جوانی تک میری ہر تکلیف پر وہ اسی طرح بوکھلائے پھرتے۔ میں ان کی کمزوری تھا اور میں نے بارہا اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا تھا۔

دونوں کی بس ایک ہی خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ جاؤں۔ میں ایف اے ہی چار برس میں کر پایا۔ اس سے آگے پڑھانے کی نہ ان میں سکت تھی اور نہ ہی میری نیت۔ ابا ریٹائر ہو چکے تھے۔ بڑھاپا ان کی عمر کی دھلیز پر دستک دے چکا تھا۔ پنشن میں زندگی کے وقت کو کھینچنا دشوار ہو گیا تھا۔ لیکن مجھے نوکری کی کوئی فکر نہیں تھی۔

زیادہ وقت چارپائی توڑتے ہی گزارتا۔ لیٹے لیٹے اکتاہٹ کا شکار ہوتا تو اپنے جیسے لا ابالی دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے چلا جاتا۔ ابا نے ملازمت کرنے کو کہا تو ان کے گوش گذار کر دیا کہ میں اس ملک میں تو کام کرنے والا نہیں۔ باہر جا کر لاکھوں کی نوکری کروں گا۔

باہر کے خواب یوں تو ہمیشہ سے دیکھے تھے پر اس ارادے کو تقویت تب ملی جب ایک رفیق نے اس بات کا یقین دلایا کہ باہر جانے کا بندوبست وہ کروا دے گا۔ مجھے بس رقم کے لیے ہاتھ پیر مارنے تھے۔ گھر آتے ہی مدعا بیان کیا۔ والدین کی کل متاع زندگی کچھ مرلے زمین، دو بکریاں، ایک گائے اور ایک سہراب سائیکل کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں نے لگی لپٹی نہ کہی اور ساتھ ہی زمین بیچنے کا مطالبہ کر ڈالا۔ گہری چپ کے بعد صاف انکار پر کانوں پر بھروسا ہی نہ ہوا۔

انکار پر منت سماجت سے کام لیا۔ پھر قطع کلامی کو ہتھیار بنایا۔ بات نہ کرنے پر بھی وہ میرا خیال کرنے میں کوئی غفلت نہ کرتے۔ ابا جانے سے پہلے میرے تکیے کے نیچے بیس کا نوٹ رکھ کر جاتے۔ اماں چارپائی کے سرہانے لسی سے بھرا گلاس رکھتی۔ لسی بھی وہ جس پر مکھن تیر رہا ہوتا، دیسی گھی کے بلوں والے پراٹھے میرے ماتھے کے بلوں کو کم نہ کر پاتے۔ سرسوں کے ساگ پر مکھن کا پیڑا اور ساتھ آم کے اچار کی بھینی خوشبو من کو کھانے کی طرف مائل کرتی۔ جب بھوک بہت ستاتی تو ناراضگی بھوک سے ختم کر دیتا۔ نجانے اماں کو کیسے خبر ہو جاتی۔ اماں دبے پاؤں آتیں برتن اٹھاتے ہوئے الحمدللہ بلند آواز میں کہتیں اور الٹے پاؤں لوٹ جاتیں۔ یہ سلسلہ کچھ دن چلا لیکن دونوں ہی زمین فروخت نہ کرنے کی فیصلے پر قائم تھے۔

گھر میں طبل جنگ سے پہلے والی خاموشی چھائی رہتی۔ جب خاموشی ٹوٹتی تو میں آگ کے بگولے کی طرح پھٹتا۔ ادب، تمیز، عمر اور رشتے کا لحاظ کیے بغیر ان سے ناراضگی کا اظہار کرتا۔ ہر بار وہ مجھے سمجھاتے کہ میں ادھر ہی کام کاج کر لوں پر میں کہاں کسی کی سننے والا تھا۔ میں نے قطع کلامی سے لے کر بھوک ہڑتال تک تمام حربے آزمائے مگر کامیابی ملنے کو تیار نہ تھی۔

جب بلند آواز سے بھی بات نہ بنی تو ایک ہی وقت کے کھانے کو تین تین بار گرم کر کے لانے پر بھی نہ کھاتا۔ بہت اصرار پر سالن سے بھری پلیٹ زمین پر دے مارتا۔ پیار سے مناتے تو ان کا ہاتھ جھٹک دیتا۔ زبان پر تلخیوں کی کڑواہٹ ہر وقت موجود رہتی۔ کمرے کے دروازے کو پٹخ کر بند کرتا۔ آواز کی دھمک سے گھر کی دیواروں کے ساتھ ساتھ اماں ابا کے دل بھی لرز جاتے۔ روز روز کا لرزنا ابا کے دل کو نہ بھایا اور ابا روز وشب کی تکرار کے دوران چل بسے۔ کچھ دنوں میں نے بھی ابا کا غم منایا۔ مگر میں اپنے ارادے کا دھنی نکلا۔ مجھے لگا اماں کو منانا اب زیادہ آسان ہو گا۔ کیونکہ ابا کا بہرحال کچھ خوف تھا۔ میں نے پھر وہ ہی رٹ شروع کر دی۔ لیکن اماں میری بات ماننے سے انکاری تھیں۔ ہر طریقہ آزمانے کے بعد بھی مجھے سب لا حاصل نظر آیا۔

میرے اندر کی حیوانیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اکثر اماں کا ہاتھ گھسیٹ کر کمرے سے باہر دھکیل دیتا۔ ان کو میرا رویہ کتنا بھی ناگوار کیوں نہ گزرتا وہ پلٹ کر میرے پاس لازمی آتیں۔ میں جانتا تھا کہ میں ان کی زندگی کے لیے لازم ہوں۔ مجھے منائے، کھلائے بغیر وہ کبھی چین نہ لے پائیں گی۔ اماں مجھے سمجھاتے سمجھاتے تھک گئی تھیں۔ پیار محبت کے سارے جتن کر ہاری تھیں۔ ہر بار اپنی ہی بدلحاضی کی متعین کردہ حد کو پار کرتا۔ بد زبانی سے اماں کو آدھ موا کیے بغیر دم نہ لیتا۔ ان کا رونا مجھے بے وجہ کا ڈرامہ دکھائی دیتا۔ اکثر ان کے گوش گذار کرتا کہ آپ کے یہ حیلے بہانے میرے کسی کام کے نہیں۔ ان کی بھرائی ہوئی آواز میں جو کرب تھا اس کو کبھی محسوس ہی نہ کیا۔ ان کی سانسوں کو بوجھل کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2