کرکٹ ٹیم کی کارکردگی اور سرفراز کی کپتانی


پاکستان کرکٹ کا بہت برا حال تھا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی تھی کہ ورلڈ کپ کھیلنے کے لئے بھی کوالیفائنگ راؤنڈ کی جانب جانا پڑ سکتا تھا، کرکٹ کے تینوں فارمٹ جس میں ٹسٹ میچ، ون ڈے انٹر نیشنل اور ٹی ٹونٹی شامل ہے، پاکستان سخت مشکلات کا شکار تھا۔ ٹیم کئی مشکلات کا شکار تھی جس میں سب سے اہم مسئلہ کیپٹن شپ کا اور اوپنرز کا تھا۔ قوم کی طرح ٹیم بھی لیڈر شپ کے اختلافات کا شکار نظر آتی تھی اور لگتا تھا کہ کچھ کھلاڑی کسی ایک کی کپتانی میں کھیلنا چاہتے ہیں اور کچھ کسی اور کی۔ کسی بھی میچ میں اس الجھن کو چانچا جاسکتا تھا لیکن پھر بھی یا تو کسی کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی یا پھر جو اس بات کو سمجھ کر کھلاڑیوں کو سمجھا سکتے تھے وہ بھی کسی تقسیم میں تفریق ہو رہے تھے یا مقسوم کا حصہ تھے۔

ممکن ہے کہ میری بات میری ہی سمجھ سے شروع ہوکر مجھ پر ہی ختم ہو رہی ہو کیونکہ بہت سے اندازے، قیاسات یا قیافات غلط بھی ہوتے ہیں۔ لیکن جو بات دل و دماغ میں ٹھوکریں لگا رہی ہوتی ہے وہ کبھی بے حقیقت نہیں ہوا کرتی۔

جب ایک ٹیم کسی ایک میچ میں بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے میچ کو اپنے حق میں کر رہی ہو لیکن ٹھیک دوسرے میچ میں ان ہی سب کھلاڑیوں کے ساتھ آؤٹ کلاس ہوجائے اور پھر کسی تیسرے میچ میں ٹیم کو مزید صدمے پہنچانے کے بعد اچانک پھر پاکستان کو اوج ثریا سے ہمکنار کردے تو ناکامیوں اور کامیابیوں کو کئی زاویوں سے دیکھنا اور پرکھنا ضروری ہوجاتا ہے۔ اسی زاویہ نگاہ میں کئی مقامات پر کپتانی کا فرق بھی نظر آیا اور معلوم ہوا کہ اگر کپتان فلاں ہوا تو ٹیم کی کارکردگی واہ واہ اور چناں ہوا تو ٹیم ٹھس۔

کئی مقامات پر کھلاڑیوں کا ردوبدل ٹیم کے لئے عذاب اور کئی مقامات پر پی سی بی کے عہدوں میں تبدیلی قیامت بن گئی۔ ہر معاملے میں تبدیلیاں بھی ادارے اور کھلاڑیوں کے سامنے مشکلات کھڑی کرتی نظر آئیں جس کی وجہ سے کھلاڑی اپنا اعتماد کھونے لگے اور ادارے کے عہدیدار فیصلوں میں جھجک کا مظاہرہ کرتے نظر آئے۔

کرکٹ کو کچھ تو ادارے کی آپس کی الجھنیں لے بیٹھتی نظر آنے لگیں اور کچھ کھلاڑیوں کو اپنے اپنے مستقبل ڈوبتے نظر آنے کا ڈر پریشانی کا سبب بننا شروع ہوگیا۔ یہی وجوہات تھیں جس کی وجہ سے ہر آنے والا دن کرکٹ کو زوال کی جانب لے جارہا تھا اور لگتا تھا کہ ہاکی کی تباہی کے بعد کرکٹ بھی کسی کباڑیے کے ہاتھوں فروخت ہونے جارہی ہے۔

معاملہ کچھ بھی ہو، وہ معاملہ جس کی سربراہی میں اٹھ رہا ہوتا ہے یا اٹھایا جارہا ہوتا ہے، اس کی کپتانی اس میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہوتی ہے۔ ہر کامیابی میں کپتان کا کردار اور صلاحتیں بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ جنگ ہو تو سالار کی صلاحتیں اور حالت امن میں سربرہ مملکت و حکومت کی کارکردگی اور صلاحتیتوں کا پتہ چلتا ہے۔ زندگی کا کوئی بھی معاملہ ہو، امیر کا کردار ناکامی و کامیابی کی چابی ہوا کرتا ہے۔ پاکستان کرکٹ میں بہت سارے معاملات اور الجھنوں میں ایک یہ پہلو بھی سامنے آرہا تھا کہ یا تو ٹیم کپتان کے معیار کے مطابق نہیں بنائی جا رہی تھی یا کپتان ٹیم میں پسند نہیں کیا جارہا ہوتا تھا یہی وجہ ہے کہ کرکٹ کے ہر فارمٹ کا کپتان کبھی ایک کبھی دو اور کبھی سب کے الگ الگ بنادیئے جانے لگے تھے جس کی وجہ سے نہ تو کپتان مطمئن ہو پائے اور نہ ہی کھلاڑیوں کو بار بار کی یہ جمع تقسیم ضرب اور تفریق بھا سکی جس سے پاکستان میں کرکٹ سخت زوال کا شکار ہوتی دکھائی دینے لگی۔

موجودہ ٹیم پر اگر نظر ڈالی جائے تو ماضی کے کھلاڑیوں جیسا بڑا نام اس میں کہیں سے کہیں تک دکھائی نہیں دیتا۔ نہ وہ دنیا پر دہشت سوار کردینے والے گیندباز دکھائی دیتے ہیں جن کو دیکھ کر مخالف کھلاڑوں پر ہیبت سوار ہوجا یا کرتی تھی اور میدان میں آتے ہوئے ان کے قدموں کی لرزش نمایاں نظر آیا کرتی تھی اور ناہی وہ بلے باز ٹیم میں نظر آتے ہیں کہ جن کے میدان میں اترتے ہی مخالف ٹیم پر ایک رعب طاری ہوجاتا تھا اور جب تک وہ آؤٹ نہیں ہوجایا کرتے تھے اس وقت کمنٹری کرنے والے یہی کہتے نظر آتے تھے کہ میچ کا فیسلہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ان سب کمزوریوں کے باوجود بھی پاکستان کی کرکٹ دنیائے کرکٹ میں ایسی ایسی تاریخیں رقم کرتی نظر آرہی ہے جس کے ریکارڈ کو مشکل ہی سے کوئی سر کرسکتا ہے۔

ایسا کیوں ہے؟ ، کیا کبھی کسی نے اس بات کو نوٹ کیا؟ اگر ایماندارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ محض کیپٹن شپ کا نتیجہ ہے جس کی صلاحیتوں نے ٹیم میں انفرادیت کی انا کو مار کر اجتماعیت کی روح پھونک دی ہے۔ جس ٹیم کے پاس دھواں دھار بلے بازوں کا دور دور تک پتہ نہ ہو، خشک مٹی سے لوکیں اور دھولیں اڑانے والے اور گز گز بھر کے موڑ لیتے اسپینرز نہ ہوں وہ دنیا کے لئے ایک چیلنج بنے ہوئے کیوں نظر آرہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کی بظاہر یہ کمزور ترین ٹیم دنیا کے لئے ایک بڑا خطرہ کیوں بنتی جا رہی ہے۔

اگر اس کی حقیقت میں جھانکا جائے تو ایک ہی بات سامنے آئی گی کہ ٹیم کا ہر کھلاڑی ایک پوری ٹیم ہے۔ سب کھلاڑی اپنے اپنے حصے کا کھیل کر رہے ہیں، سب کے چھوٹے چھوٹے اسکور ایک بڑا ٹارگٹ سیٹ کرجاتے ہیں، ہر فیلڈر اپنی جان لڑاتا نظر آرہا ہے، ہر بالرز اپنی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ استعمال کر رہا ہے بس اسی وجہ سے پاکستان کی کرکٹ ایک کمزور ٹیم کے ساتھ طاقتور سے طاقتور ٹیم کے لئے ایک ایسا ڈراونا چہرہ بنتی جا رہی ہے جس کو سامنے دیکھ کر مخالف کھلاڑی شدید دباؤ کا شکار نظر آنے لگے ہیں اور یہی دباؤ اور دہشت کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کرنے کا سبب بنی ہوئی ہے۔

پاکستان کی ٹیم کے ٹی ٹونٹی فارمٹ میں وہ تاریخ رقم کر دی ہے جس کے قریب تک جانا بھی دنیا کی ہر ٹیم کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ 10 ویں مہینے میں دسویں سیریز جیتنے کے بعد 11 ویں مہینے میں گیارہویں سیریز بھی جیت لینا کوئی معمولی کارنامہ نہیں بلکہ ایک بے نظیر و بے مثال کارنامہ ہے جس میں بالنگ، بیٹنگ اور فیلڈنگ کا بہت اعلیٰ مظاہرہ سامنے آیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ موجودہ کپتان جس طرح ہر غلطی پر کھلاڑیوں پر سخت برہم ہوتا ہے اور کھلاڑیوں کی پیشانیوں پر اس کی گوشمالی کوئی گرہ ڈالتی نظر نہیں آتی وہ بھی ایک ایسی مثال ہے جس کی کوئی نظیر ماضی میں نہیں دکھائی دیتی اور جس طرح ہر اچھی فیلڈنگ، بیٹنگ اور بالنگ پر کپتان جس خوشی اور پسندیدگی کا مظاہرہ کرتا ہے اور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتا دکھائی دیتا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ بہت عرصے بعد ایسا نظر آنے لگا ہے کہ یہ ٹیم کے مختلف علاقوں، قوموں اور زبانیں بولنے والے مختلف الخیال بچے نہیں بلکہ ایک ہی خاندان کے سارے چھوٹے بڑے بھائی ہیں۔ جو محبت، بھائی چارگی اور یکجہتی کا مظاہرہ سامنے آرہا ہے وہ قوم کے لئے باعث فخر و انبساط ہے۔

ٹیم ثابت کر رہی ہے کہ صرف بڑے بلے باز بن کر یا دہشتناک گیند باز بن کر ہی جیت حاصل نہیں کی جاسکتی بلکہ اپنے اپنے حصے کی ساری صلاحیتوں کو پورے اخلاص کے ساتھ استعمال کرکے بھی دنیا میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے جاسکتے ہیں۔

سرفراز بے شک سرفراز ہی ثابت ہو رہے ہیں اور اللہ کرے کہ پاکستان کے لئے اسی طرح کی سرفرازیاں سمیٹتے رہیں لیکن ان کو بھی اپنے اندر تبدیلی لانے پڑے گی ورنہ ان کا نام شاید کامیاب کپتانی میں تو ہمیشہ یاد رہے لیکن جب قوم ان کو کھلاڑی کی حیثیت سے جانچے تو معلوم ہو کہ ان کا بیٹنگ میں کوئی قابل ذکر نمبر ہی نہیں ہے۔ وہ تینوں فارمٹ کے اچھے کھلاڑی رہے ہیں لیکن کافی عرصے سے وہ کھلاڑیوں کے پیچھے چھپنے میں مصروف نظر آرہے ہیں اور آخری وقت تک ان کی یہی کوشش نظر آرہی ہوتی ہے کہ وہ بصد مجبوری میدان میں آئیں۔

اس کے دو نتیجے سامنے آرہے ہیں ایک تو یہ کہ اب وہ صرف ایک وکٹ کیپر بن کر رہ گئے ہیں اور دوسرا یہ کہ ان میں اب وہ پہلی سی کرکٹ نظر نہیں آرہی جس کی وجہ سے وہ کرکٹ شائقین کے منظور نظر تھے۔ ٹسٹ کرکٹ میں اگر کھلاڑی کچھ کھلاڑیوں کے پیچھے چھپ بھی جائے تب بھی قریب قریب ہر کھلاڑی کو میدان میں اترنا پڑ ہی جاتا ہے جس کی وجہ سے شائقین اس کی بلے بازی دیکھ ہی لیتے ہیں لیکن 50 ففٹی اور ٹی 20 جیسے چھوٹی فارمٹ کی کرکٹ میں ٹیم کے سارے بلے بازوں کو اپنے بازوؤں کو آزمانے کا کم ہی موقع ملتا ہے، ایسے عالم میں اپنے آپ کو بہت پیچھے رکھنا کم از کم مجھے کوئی عقلمندی دکھائی نہیں دیتا۔

اگر وہ اسی طرح کرتے رہے تو یہ ان کے لئے کہیں سے کہیں تک بھی مناسب نہیں ہوگا اس لئے میری ناقص رائے یہی ہوگی کہ وہ کم از کم 50 ففٹی اور ٹی 20 میں اپنے آپ کو اوپر لے کر آئیں۔ ان کا اوپر آکر کھیلنا ان کے لئے اور پاکستان کرکٹ کے لئے ایک بہت ہی نیک شگون ہوگا۔ توقع کی جاسکتی ہیں کہ وہ قوم کی امیدوں کو چارچاند لگاتے ہوئے ہر فارمٹ میں اچھی کرکٹ کا مظاہرہ کریں گے اور محض کپتان بن کر نہیں رہیں گے۔

کرکٹ کی ٹیم میں قوم کے لئے بھی ایک پیغام پوشیدہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر قوم اپنے سب چھوٹے بڑے اختلافات بھلا کر ایک رہنما کے پیچھے متحد ہوجائے تو اس کی سرخروئی اور شادمانی کو کوئی بھی چیلنج نہیں کرسکتا۔ دنیا میں کامیابی فقط اسلحہ و گولہ بارود میں ہی پوشیدہ نہیں بلکہ اتحد اور یک جہتی میں ہے جس کی مثال افغانستان میں امریکہ کی 17 سالہ ناکامی کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جو گروہ امریکہ جیسی قوت سے بر سر پیکار ہیں ان میں انتشار پیدا کرنے کی ہر کوشش ناکامی کا شکار ہو چکی ہے اور یہی مجاہدین کی کامیابیوں کا مظہر ہے۔ امید ہے کہ قوم اس نقطے کو سمجھے گی اور اپنے اندر سے ایک نیک اور صالح قیادت کو ابھاری گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).