مولانا سمیع الحق کی سیاسی و دینی خدمات پر ایک نظر


مولانا سمیع الحق کی دینی خدمات اور اسلامی شعائر کے حوالے سے ان کی حساسیت اور قائدانہ کردار سے سبھی واقف ہیں۔ مولانا سمیع الحق 18 دسمبر 1937 ء کو اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے، ان کے والد شیخ الحدیث مولانا عبد الحق نے اکوڑہ خٹک میں ممتاز دینی درسگاہ دارلعلوم حقانیہ کی بنیاد رکھی، ان کا مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک، دارالعلوم دیوبند کے بعد دیوبندی مکتبہ فکر کا سب سے اہم مدرسہ گردانا جاتا ہے۔ مولانا سمیع الحق نے بھی 1946 ء میں اسی عظیم درسگاہ سے تعلیم کا باقاعدہ آغاز کیا، مولانا سمیع الحق نے مدرسہ حقانیہ سے فقہ، اصول فقہ، عربی ادب، منطق، تفسیر اور حدیث کا علم سیکھا۔

مولانا کو پشتو اور اردو زبان کے ساتھ ساتھ عربی پر بھی عبور حاصل تھا۔ مولانا 1988 ء میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتم بنے۔ مولانا سمیع الحق کے مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔ اس مدرسے میں بڑی تعداد میں طالب علم تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس مدرسے کی خاص پہچان یہ بھی ہے کہ اس میں افغانستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی بڑی تعداد زیر تعلیم ہے۔

جہاں مولانا کی دینی خدمات ہیں وہیں پاکستان کی سیاست میں بھی ان کا اہم کردار رہا ہے۔ مولانا سمیع الحق 1985 ء سے 1991 ء اور 1991 ء سے 1997 ء تک سینیٹ کے رکن رہے۔ مولانا سمیع الحق متحد ہ مجلس کے بانی ارکان میں سے ہیں۔ وہ متحدہ دینی محاذ کے بھی بانی تھے جبکہ دفاع پاکستان کونسل کے بھی سربراہ تھے۔ مولانا سمیع الحق نے مختلف مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کے ساتھ مل کر ”ملی یکجہتی کونسل“ اور دینی جماعتوں کے سیاسی اتحاد کے لئے ”متحدہ مجلس عمل“ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔

جمیعت علما اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد افغانستان میں بھی مقیم ہے۔ مولانا کے ان شاگردوں کی اکثریت افغانستان میں امریکا کے خلاف جہاد میں مصروف ہے۔ استاد ہونے کی حیثیت سے مولانا کا طالبان پر اثرو رسوخ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ مولانا خود ایک امن پسند شخصیت کے حامل تھے۔ انہوں نے پاکستان میں بھی قیام امن میں اپنا ہر ممکن کردار ادا کیا۔ مولانا سمیع الحق کے طالبان سے روابط کے باعث بین الاقوامی میڈیا نے ہمیشہ ان کے خلاف پروپیگنڈا کیا۔

بین الاقوامی میڈیا کی جانب سے مولانا کو ”فادر آف طالبان“ کا لقب بھی دیا گیا۔ جبکہ طالبان کی جانب سے کبھی ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا کہ مولانا ان کو کسی کے بھی خلاف آپریٹ کرتے ہیں۔ نہ ہی اس حوالے سے کبھی کوئی ثبوت ملالیکن عالمی مغربی میڈیا اور کچھ مولانا سے بغص رکھنے والے ان کے ہم وطنوں نے بھی ان کی امن پسندی اور پاکستان کے لئے خدمات کو پس پشت ڈال کر ہمیشہ انہیں نشانے پر رکھا۔

امریکا نے 2001 میں افغانستا ن پر حملہ کیا تو وقتی طور پر تو اسے کامیابی ہوئی لیکن بعد ازاں امریکا نے اس جنگ میں بے پناہ جانی اور مالی نقصان اٹھایا۔ امریکا اس بات کا اظہار کرچکا ہے کہ وہ افغانستان سے اپنی فوج کا انخلا چاہتا ہے۔ افغانستا ن میں قیام امن کے لئے بھی مولانا اپنا کردار ادا کر رہے۔ اس وقت مولانا افغانستان کے حوالے سے خاصے متحرک تھے۔ افغان سفیر اور دیگر عہدیدار اور حکام ان سے رابطے میں تھے، اکوڑہ خٹک میں مولانا سے افغان حکومت کی کئی اہم شخصیت کی ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں ہیں لیکن اگر مولانا کے معمولات دیکھیں تو یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی۔

بہرحال ان دنوں وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان اور امریکا کو قریب لانے میں زیادہ متحرک تھے یہ کوئی پوشیدہ امر بھی نہیں کہ مولانا سمیع الحق طالبان سے متعدد مرتبہ مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کرتے رہے اور انہوں نے افغان حکومت کی طالبان سے حالیہ مذاکرات کی بھی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ کے آغاز میں بھی افغان حکام اور علماء نے جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ سے طالبان کے مختلف گروہوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔

مولانا سمیع الحق کے قتل کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔ زیر حراست لیے گئے ان کے دو ملازمین کے ابتدائی بیان کی تفصیلات کے مطابق قتل کے وقت مولانا کے کمرے میں 2 افراد موجود تھے، دونوں افراد ان کے جاننے والے تھے، وہ اس سے قبل بھی ان کے پاس آتے جاتے تھے۔ مولانا کے ملازمین نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ مولانا سے ملنے آنے والے افراد نے مولانا شہید سے کہا تھا کہ انہیں مولانا سے تنہائی میں کچھ بات کرنی ہے جس کے بعد مولانا نے انہیں کھانے لینے بازار بھیج دیا اور جب وہ واپس آئے تو مولانا خون میں لت پت تھے۔ اس وقت مولانا کی سانس چل رہی تھی، مولانا کو زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہوسکے۔

اس حوالے سے کچھ سوالات ذہن میں آتے ہیں کہ کیا مولانا کے تمام ملازمین ایک ساتھ بازار چلے گئے تھے؟ کیا اس وقت گھر میں کوئی محافظ بھی موجود نہ تھا۔ اگر کوئی موجود تھا تو اس نے قتل کے وقت کسی قسم کی کوئی آواز نہ سنی؟ خیر ان تمام معاملات پر تحقیقات جاری ہیں۔ امید ہے مولانا کے قاتل لیاقت علی خان اور بینظیر بھٹو کی طرح نامعلوم نہیں رہیں گے ان کا پتہ جلد چل جائے گا۔

مولانا کی شہادت سے پاکستان میں سیاسی اور علمی خلا پیدا ہوگیا جسے پر کرنا آسان نہ ہوگا۔ شہید مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے اور قائم مقام صدر مولانا حامدالحق کا کہنا ہے کہ اُن کے والد ملک میں قیام امن کے لئے کوشاں تھے جس کی وجہ سے وہ بھارت افغانستان سمیت مغرب کو کھٹک رہے تھے اور اُن کے قتل کے بھی یہی محرکات ہوسکتے ہیں اللہ مولاناسمیع الحق شہید کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اور جمیعت علما اسلام کے قائم مقام امیر اور مولانا کے فرزند حامد الحق کو بھی والد کی طرح قیام امن کے لئے کوشاں رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).