آسیہ بی بی کی رہائی: اسلامی انصاف کی خوش آئند تصویر


آسیہ بی بی کی رہائی، جن کو کئی سال پہلے توہین مذہب کے الزام میں‌ گرفتار کیا گیا تھا، پاکستانی سول سوسائٹی کے لیے ایک خوش آئند قدم ہے جس سے خطے میں‌ انسانی حقوق کی راہ ہموار ہوگی۔ پاکستانی سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے شدت پسندوں‌ کے اثر میں‌ کمی واقع ہوگی۔

یہاں‌ میں‌ یہ واضح کردینا چاہتی ہوں کہ میں‌ نے ہمیشہ اسلام کو غلامی کا مخالف اور انسانی آزدیوں کا نقیب مذہب گردانا ہے جو سماجی برابری، معاشی اور سیاسی جمہوریت اور اقلیتوں‌ کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ میں‌ اسلام کی جس روایت میں‌ پلی بڑھی، وہ اقلیتوں پر ریاستی جبر کا مخالف ہے۔ ریاستی قانون ، معیشت اور سیاسی میدان میں‌ تمام شہریوں‌ کی برابری کی حفاظت کرنے والی اسلامی سوچ سے مجھے والہانہ عقیدت ہے۔ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے۔ مذہب کو ذاتی چپلقش میں‌ جھوٹے الزامات کے ذریعے استعمال نہیں‌ کیا جانا چاہئیے۔ اسلام میں‌ بہتان اور جھوٹی الزام تراشی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔

جس مذہب میں‌ میں‌ پلی بڑھی، وہ کمزور، معصوم اور غریب افراد کے خون کا مطالبہ نہیں‌ کرتا۔ نہ ہی اس مذہب میں‌ کسی شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خدا کے قہر کی طاقت کو اپنا سمجھے۔ جیسا کہ میں‌ نے اپنی کتاب، “کشمیر میں‌ اسلام، خواتین اور تشدد” میں‌ لکھا ہے، میں‌ ایک سیکولر اسلامی گھر میں‌ بڑی ہوئی جہاں‌ ہماری ہمت افزائی کی گئی کہ خواتین کی آزادی اور مختلف تہذیبوں کے درمیان اتحاد کے لیے آواز اٹھائیں۔ ہمیں سکھایا گیا کہ اسلام خواتین کو سماجی، سیاسی اور معاشی حقوق دیتا ہے چاہے وہ حقوق ہمارے معاشرے میں‌ ناپید ہوں۔

مجھے یہ سکھایا گیا کہ اسلام خواتین کو ملکیت کے حقوق دیتا ہے۔ 1939 میں‌ ایک کشمیری خاتون غلام کبریٰ کے ملکیت کے حق کو چیلنج کیا گیا تھا کیونکہ انہوں‌ نے ریاست سے باہر شادی کی تھی۔ لیکن ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا کہ ان کو اپنے والدین کی جائداد کی وارث ہونے کا حق حاصل ہے۔ مسلمان خواتین کو سیاسی میدان میں‌ لیڈر ہونے کا حق حاصل ہے۔ ان مشہور خواتین میں‌ بنگلہ دیش میں خالدہ ضیا اور شیخ حسینہ، پاکستان میں‌ بے نظیر بھٹو اور انڈیا میں محسنہ قدوائی شامل ہیں۔ میری نانی بیگم اکبر جہاں 1977 سے 1979 اور 1984 سے 1989 تک انڈین پارلیمنٹ میں‌ کشمیر کی نمائندہ تھیں۔ وہ 1947 سے لے کر 1954 تک جموں و کشمیر میں ریڈ کراس کی پہلی پریزیڈنٹ تھیں۔ (ریفرنس لوک سبھا 2000)

مسلمان خواتین کو سماجی اور سیاسی میدانوں میں جدوجہد کرنے اور ایک باوقار زندگی گذارنے کا حق حاصل ہے جس میں‌ وہ اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں جس سے معاشرے میں‌ حالات کا رخ موڑا جا سکے۔ اسلام کی ترقی پسند تشریح خواتین کے حقوق کی ضمانت دیتی ہے۔ اور اس سوچ کو ذمہ دارانہ تعلیم، قوانین اور سماجی سرگرمیوں‌ کی حمایت حاصل ہونی چاہیے۔ یہ بات نہایت اہم ہے کہ جنوب ایشیائی حکومتیں، انسانی حقوق کی تنظیموں‌ کی مقامی سطح پر امن قائم کرنے کی کاوشوں کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کو سراہیں۔

آسیہ بی بی کی رہائی جنوبی ایشیا میں‌ انسانیت اور صنفی و مذہبی برابری میں بہتری لانے کے لئے ایک خوش آئند قدم ہے۔ جنوب ایشیائی سماج ان عوامل کو پہچان رہا ہے جو مذہب کو اپنے مقصد کے لیے ہائی جیک کرکے کمزور اور مجبور عوام کو کچلنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ایسے عوامل جو اپنی تشریح کو واحد صراط مستقیم ثابت کرنے کی کوشش میں‌ ہیں، ان کو اسلام کے رحم، نجات اور انصاف کے پیغامات کو توڑنے اور موڑنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئیے۔ پاکستان یا ہندوستان میں‌ شدت پسندی کی سیاست اور مذہبی شناخت سے میری ریاست جموں و کشمیر کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملے گا۔ یہ حماقت ہوگی کہ مذہبی، صوبائی اور مسلکی بنیادوں پر تشدد کو ہوا دی جائے، کیونکہ ایسا کرنا کشمیر میں‌ امن اور سلامتی کے خواب کو حقیقت میں‌ بدلنے کی راہ دشوار کرے گا۔

مترجم: ڈاکٹر لبنیٰ مرزا ایم ڈی

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan