کراچی کا قصور۔۔۔۔ مظہر عباس صاحب میری عرض سنیں


 

جناب مظہرعباس صاحب میں آپکا بہت بڑا فین رہا ہوں اور آپ کے کالم اور تجزیے ہمیشہ میرے لئے کار آمد رہے ہیں مگر آپ کے ایک حالیہ کالم کے کچھ حصوں کا جواب دینے کی جسارت کر رہا ہوں، اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ آپ کے احترام میں کوئی کمی آئے گی۔

ہم سب میں آپ کا کالم ’کراچی اپنا قصور پوچھتا ہے؟‘ دیکھا توحسب عادت پہلی فرصت میں پڑھا مگر ہر سطر کے ساتھ میری حیرت بڑھتی ہی چلی گئی۔ مجھے کالم کی شروعات سے ہی اختلاف ہے کہ کراچی کی عمر 71 سال ہے، نہیں جناب، سندھ کا یہ شہر صدیوں پہلے سے وجود رکھتا تھا 71 سال تو اس کو پاکستان میں شامل ہوئے ہوئے ہیں۔ یہ شہر قیامِ پاکستان سے پہلے ایک ترقی یافتہ شہر تھا، ایسا شہر کی چکاچوند بھارت کے مختلف علاقوں سے آنے والوں کے لئے کشش کا سبب بنی اور ان کی ایک بڑی تعداد نے قیامِ پاکستان کے بعد اس شہر کو ہی مسکن بنایا۔ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 71 سال پہلے یہاں شہر نہیں تھا اور کسی نے آ کے کسی جنگل کو کاٹ کر شہر اباد کیا؟ نہیں مظہر صاحب۔

آپ نے اس شہر کی خصوصیات گنواتے ہوئے جہاں یہ لکھا ہے کہ اس شہر میں ٹرام چلتی تھی اور اس کی سڑکوں کی دھلائی ہوتی تھی تو آپ نے اس حقیقت سے کیسے آنکھیں چرا لیں کہ یہ سلسلہ 71 سال سے نہیں بلکہ بہت پہلے سے یہاں جاری تھا۔ بلکہ مظہر صاحب ناگوار نہ لگے تو کراچی کی ایمپریس مارکیٹ، میری ویدر ٹاور، کے ایم سی بلڈنگ، ڈینسو ہال، ہندو جم خانہ (جس کو مشرف نے اپنی بیٹی کے شوق کے خاطر ناپا کو دے دیا) اور ایسی کئی اور تاریخی عمارتیں جو آپ اور ہم دیگر شہروں اور ملکوں سے آنے والے مہمانوں کو فخر سے دکھاتے ہیں، یہ سب بھی 71 سال سے بہت پہلے کی ہیں۔

مظہر صاحب آپ نے بجا لکھا ہے کہ یہ شہر ملک کو ریونیو کا ستر فیصد کما کر دیتا ہے، جی بالکل اس کمائی میں سندھ کے دیگر اضلاع سے حاصل ہونے والے تمام محاصل، ٹیکسز اور تیل، گئس کی کمائی بھی شامل ہے۔ کیونکہ باقی صوبوں کی طرح سندھ کے تمام اداروں کے ہیڈ آفسز بھی اپنے صوبے کے دارالحکومت میں ہیں۔ اگر اس کمائی میں سے مناسب حصہ واپس نہیں ملتا تو یہ صرف کراچی نہیں، پورے سندھ کا المیہ ہے۔ اس شہر سے دولت لوٹ کر باہر لے جانے والی بات سے اتفاق ہے اور اس جرم کے مرتکب لوگ یقینی طور پر یہاں پر بسنے والوں کا حق چھیننے کی سزا کے مستحق ہیں، وہ بھی جو دولت لوٹ کر دبئی لے گئے ہیں، وہ بھی جو سالہا سال سے اس شہر کا خون نچوڑ کر لندن لے جاتے رہے اور وہ بھی جو یہاں کی دولت کینیڈا، امریکا اور دیگر ممالک میں لے گئے۔

آپ نے برحق لکھا ہے کہ کراچی نے ہمیشہ یہاں آنے والوں کو اپنے اندر سمو لیا، جناب ان میں صرف ملک کے دیگر حصوں کے لوگ ہی شامل نہیں بلکہ بھارت، بنگلادیش، برما، افغانستان، ایران اور دیگر ممالک کے باشندے بھی شامل ہیں، وہ صرف کراچی نہیں سندھ کے دیگرشہروں میں بھی آباد ہوئے ہیں۔ دراصل دل تو سندھ دھرتی کا وسیع ہے مظہر صاحب۔

آپ نے لکھا ہے کہ یہ شہر تمام زبانیں بولتا ہے، میں اس سے جزوی اختلاف کروں گا کیونکہ یہاں پر جو بھی آکے بستا ہے وہ اپنی زبان بھول کر ایک اردو کو ہی اپنا لیتا ہے۔ جیسے بھارت سے آنے والی گجراتی، مراٹھی، راجستھانی اور دیگر زبانیں یا تو متروک ہوگئیں یا چند گھروں تک محدود ہوگئی ہیں اسی طرح بلوچی، پنجابی، پشتو اور باقی زبانیں کا بھی یہی حال ہے، المیہ تو یہ ہے کہ اس دھرتی کی زبان سندھی بھی اس شہر میں اپنے وجود کی جنگ لڑ رہی ہے، اور تو اور اس شہر کے اسکولوں میں بھی قانون کے مطابق سندھی پڑھانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ حالانکہ قیام پاکستان سے قبل سندھی نہ صرف یہاں کی سرکاری زبان تھی بلکہ اپنی تاریخ کے ساتھ علم و ادب کا نایاب خزانہ بھی رکھتی ہے۔ یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سب سے پہلے قران پاک کا ترجمہ دنیا کی کسی زبان میں ہوا تو وہ سندھی ہی تھی۔

مظہر صاحب میرے پاس کہنے کو اور بھی بہت کچھ ہے مگر کراچی میرا بھی اتنا ہی شہر ہے، جتنا کہ آپ کا، ہم بھی اس شہر کی ترقی چاہتے ہیں، اس کو حقوق دلانے کی جدوجہد میں ساتھ چلنا چاہتے ہیں مگر اس کے لئے لوگوں کے دل جوڑنے ہوں گے۔ ہمیں آپ جیسے دوستوں کے ساتھ مل کر نفرتوں اور منفی خیالات کو ختم کر کے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہے۔ امید ہے آپ اس مقصد میں ہماری رہنمائی کریں گے۔۔۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).