فاضلِ بریلوی امام احمد رضا قدس سرہٗ کا نظریۂ تعلیم


آپ کے تعلیمی نظریات میں ایک نظریہ ”نظریۂ حرمت“ بھی ملتا ہے جس کا مطلب اور مفہوم یہ ہے کہ تعلیم اور اس سے تعلق رکھنے والی ہر چیز اور فرد سے محبت اور اس کی عزت کی جائے۔ یعنی استاد، کتاب، کاغذ، مکتب وغیرہ کی عزت کی جائے۔ امام احمد رضا فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاں اس چیز کا بہت بڑا فقدان ہے۔ استاد کووہ عزت نہیں دی جاتی جس کا وہ حقدار ہے۔ ہمارے معاشرے میں آئے دن ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں طلبہ کی جانب سے استاد کی بے عزتی اور بے توقیری کی جاتی ہے۔

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ استاد سے کئی کئی سال پڑھنے کے بعد بھی طلبہ اسے اپنا استاد تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہوتے۔ ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ طلبہ اپنے آپ کو استادکے سامنے اس طرح پیش کرتے جیسے کہ وہ سب کچھ پہلے ہی سے سیکھے سکھائے ہیں۔ استاد جو کچھ پڑھا رہا ہوتا ہے وہ اس کو معمولی سمجھ کر توجہ نہیں دیتے۔ فاضل بریلوی فرماتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے والے کو چاہیے کہ جب کسی چیز کے حصول کا ارادہ کرے تو اگرچہ وہ کمالات سے بھراہوا ہو، اپنے تمام کمالات کو دروازہ پر ہی چھوڑ دے اور یہ سمجھے کہ میں کچھ نہیں جانتا، اگر استاد کے سامنے خالی ہوکر آئے گا تو بہت کچھ لے کر جائے گا۔ ہمارے معاشرے میں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے اس نظریہ کو لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری درس گاہوں میں استاد اور کتاب کا ادب پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

تعلیمی نظریات میں ایک نظریہ ”نظریۂ مہابت“ ہے اس سے مراد یہ ہے کہ زندگی میں وقار و سکون کی کیفیت پیدا کی جائے۔ بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو تعلیم کا مقصد ہی زندگی میں وقار و سکینہ پیدا کرنا ہے۔ تعلیم کے بعد بھی اگر زندگی میں وقار اور سکون کی کیفیت پیدا نہ ہو تو وہ تعلیم محض بوجھ ہے۔ درحقیقت تعلیم کی عظمت کا عالم یہ ہے کہ وہ بوجھ کو ہلکا کرتی ہے اور زندگی میں سکھ اور چین لاتی ہے۔ ہمارے موجودہ تعلیمی نظام میں یہ خامی ہے کہ تعلیم کے حصول کے بعد ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں وقار و سکون پیدا نہیں ہوتا وہ بے چینی کی اضطرابی کیفیت میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ تعلیمی ماحول میں ایسے رویے اختیا رکرنے کی ضرورت ہے جس سے تعلیم کا اصل مقصد حاصل ہوسکے اور چین اور سکون حاصل ہوسکے۔

فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے تعلیم برائے حصولِ زر (مال) کا سختی سے رد کیا ہے۔ آپ کے نزدیک حصول تعلیم کا مقصد، مدعا اور غرض وغایت صرف حصول زر نہیں ہونا چاہیے بلکہ علم کے حصول کا مقصد رضائے الٰہی اور خدمت دین ہونا چاہیے۔ آپ فرماتے ہیں کہ رزق علم میں نہیں ہے وہ تو رزاقِ مطلق کے پاس ہے، وہ خود بندوں کا کفیل ہے۔ امام غزالی روایت کرتے ہیں : جو شخص دینِ خدا میں دانائی حاصل کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو کافی ہوتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ لہٰذا علم کا حصول صرف نوکری کرنا اور اس سے مال کمانا نہیں ہونا چاہیے۔ علم کا مقصد اس پر عمل کرنا اور اسے دوسروں تک پہنچانا ہونا چاہیے۔

اسی طرح ابتدائی تعلیم کا نظریہ پیش کرتے ہوئے فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ بچپن میں ذہن کی تربیت ہی بچے کی زندگی میں انقلاب پیدا کردیتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ابتدائی عمر میں بچے کو وہ تعلیم دی جائے جس سے وہ صحیح معنوں میں مفید مسلمان بن سکے۔ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ بچے کی زبان کھلتے ہی اسے اللہ اللہ، پھر پورا کلمہ سکھایاجائے، جب تمیز آجائے تو آداب سکھائے جائیں، یعنی کھانے، پینے، اٹھنے، بیٹھنے اور چلنے پھرنے کے آداب سکھائیں۔

قرآن مجید کی تعلیم دیں، استاد کا ادب سکھائیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت اور آپ کے صحابہ و اہلبیت کی محبت اوران کی تعظیم سکھائے۔ سات برس کی عمر سے نماز کی زبانی تاکید شروع کردے۔ خیا نت، جھوٹ، غیبت اور چغلی جیسی برائیوں اور گناہوں سے بچنے کی تاکید کرے۔ اس نظریۂ تعلیم کا اصل مقصد یہ ہے کہ بچہ بڑا ہوکر جس شعبہ میں داخل ہونا چاہے ہوجائے لیکن عملی طو ر پر مسلمان رہے کیونکہ اسی میں اس کی کامیابی ہے۔ (امام احمد رضا کا نظریۂ تعلیم)

فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ کے دور میں بر صغیر پاک و ہند پر انگریزوں کا قبضہ تھا۔ آپ نے اس وقت کے ماحول کو دیکھتے ہوئے کہاتھا کہ مسلمانوں کے تعلیمی ادارے خود کفیل ہونے چاہئیں۔ ان اداروں کو چلانے کے لیے غیر مسلموں اور انگریزوں کی امداد قبول کرنے سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اگر تعلیمی ادارے غیر مسلموں کے تعاون اور فنڈ سے چلیں گے تو ان اداروں میں اسلامی اصولوں کے مطابق تعلیم نہیں دی جاسکے گی۔

ان اداروں میں ان ہی کے قوانین کو لاگو کرنا ہوگا اور انہی لوگوں کا مرتب کردہ نصاب پڑھانا ہوگا۔ فاضلِ بریلوی کے اس نظریہ کو اگر دورِ حاضر میں دیکھا جائے تو ہمیں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اقسام ( این جی اوز ) کے مالی تعاون سے اپنے تعلیمی اداروں کو محفوظ رکھنا ہوگا کیونکہ بعض مقامات پر ان کا نصاب اسلام اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں سے متصادم نظر آتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی بے راہ روی اور تعلیم سے دوری اس امر کی متقاضی ہے کہ تعلیمی نظریات میں تبدیلی کی جائے۔ ہر وہ چیز تعلیمی نصاب سے خارج کردی جائے جو نئی نسل کو اسلام اور پاکستان کا غدار بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ آج بھی اگر فاضلِ بریلوی قدس سرہ کے تعلمی نظریات کو عام کیاجائے تو وہ وقت دور نہیں ہوگا کہ مسلمان اپنی پرانی تاریخ دہرا سکیں گے اور علم وحکمت میں وہی مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جو ماضی میں مسلمانوں کا سنہری دور رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2