سویڈن کا جنرل گلگت کی سرد رات برداشت نہ کر پایا


سویڈن کی رائل ایئر فورس کے کمانڈر انچیف ایک مرتبہ پاکستان ایئر فورس کے مہمان تھے۔ موسم سردیوں کا تھا۔ جنرل کو دوسرے مقامات کے علاوہ گلگت بھی جانا تھا اور مجھے اور میری بیوی کو ان کے ساتھ جانا تھا۔ گلگت میں ہم پولیٹیکل ایجنٹ کے مہمان تھے، ایک رات وہاں ٹھہرنا بھی تھا۔ پو لیٹیکل ایجنٹ کے گھر شام بڑی اچھی گزری اور کھانا بھی اچھا تھا، اس کے بعد ہم نے انہیں شب بخیر کہا اور اپنے کمرے میں چلے آئے۔ گلگت میں بعض اوقات اس قدر سردی ہو جاتی ہے کہ درجہ حرارت نقط انجماد سے بھی نیچے آ جاتا ہے۔

دوسری صبح ہم جلدی جاگے اور اپنے میزان سے جا ملے۔ اس نے بتایا کہ جو ملازم جنرل کے لئے چائے لے کر گیا تھا اس نے بتایا ہے کہ جنرل بیمار ہے۔ اس نے تفصیل یہ بتائی کہ جب وہ مہمانوں کے کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھا ہے کہ جنرل اور ان کی بیگم ایک ہی بستر پر لیٹے ہیں اور انہوں نے دوسرے بستر کے کمبل اور چادریں بھی اپنے اوپر لے رکھی ہیں۔ اور تو جنرل صاحب نے وردی والا اوور کوٹ اور ہیٹ بھی پہن رکھا ہے۔ میاں بیوی کا ایک ہی بستر میں سونا تو کوئی غیر معمولی بات نہ تھی مگر حیرت اس پر تھی کہ انہوں نے چادریں اور سارے کمبل کیوں خود پر ڈال رکھے تھے اور طرہ یہ کہ بستر میں اوو رکوٹ اور ہیٹ بھی پہن رکھا تھا۔

اسی اثنا میں ہمارے مہمان تشریف لے آئے، بظاہر ٹھیک نظر آ رہے تھے۔ ہم نے پوچھا رات اچھی گزری۔ ”بہت ہی اچھی! “ جنرل نے جواب دیا۔ سویڈن کے لوگ بڑے بامروت اور تکلف والے ہوتے ہیں۔ اس لئے ہم نے سوچا کہ بات کچھ اور ہی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد میری بیگم نے جنرل صاحب کی بیگم سے حال شب پوچھا تو کہنے لگیں کہ جو ہم پر گزری، اگر آپ کسی سے نہ کہیں تو عرض کروں۔ بتانے لگیں کہ دونوں کے پاس صرف دو دو کمبل تھے۔ جب انگیٹھی میں آگ بجھ گئی تو بڑی سردی ہو گئی۔

میں اور جنرل ایک ہی بستر پر آ گئے، سردی کم نہ ہوئی تو ہم نے دوسرے بستر کے کمبل اور توشک بھی اپنے اوپر ڈال لیا۔ مگر سردی اب بھی تھی، میرے میاں نے جرابیں اور اوو رکوٹ بھی پہن لیا، سر پر گنج ہے اس لئے ہیٹ بھی پہن لیا۔ یوں ہماری رات بسر ہوئی۔ پھر کہنے لگیں کہ سویڈن میں ان کا گھر سنٹرلی ایئر کنڈیشنڈ ہیں اس لئے اگر باہر درجہ حرارت زیرو سے بھی کم ہو تو فرق نہیں پڑتا۔ اب وہ گلگت والی سردی کے عادی نہیں رہے۔

میری بیوی نے پوچھا اگر یہ بات تھی تو انہوں نے اور کمبل مانگ لئے ہوتے، کہنے لگیں۔ ”ہم نے سوچا کہ زحمت کیوں دیں۔ “ جنرل کی بیوی میری بیوی کو تاکید کر رہی تھی کہ رات والی بات میزبان کے کا ن میں نہیں پڑنی چاہیے کیونکہ میزبان تو بہت ہی نفیس اور مہربان آدمی ہیں۔ تا ہم میں نے پو لیٹیکل ایجنٹ کو رات والی بات بتا دی اور کہا کہ ہمیں تو ایک رضائی اور تین تین کمبل دیے گئے تھے تو حیرت یہ ہے کہ آپ نے جنرل کو مزید کمبل کیوں نہیں دیے۔

ہمارا میزبان بہت شرمندہ بھی تھا اور معذرت خواہ بھی مگر اسے یورپین جوڑے کو اتنی سردی لگنے پر حیرت بھی تھی۔ کہنے لگا میں نے سوچا کہ سویڈن بہت ہی ٹھنڈا ملک ہے ان کے لئے تو گلگت کی سردی معمولی بات ہو گی۔ ورنہ میرے پاس تو وافر تعداد میں رضیائیاں اور کمبل پڑے ہوئے ہیں، میں نے سوچا کہ ان کے لئے دو دو کمبل بھی ضرورت سے زائد ہو ں گے۔

کتاب ”یہ باتیں حاکحم لوگوں کی“ سے اقتباس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).