جمعے کی رات نو بجے کے بعد سے کیلوں والا بچہ خاموش کیوں ہے؟ تحریک لبیک کے دوبارہ تشدد کا انکشاف


پاکستان کے تمام بڑے شہر چند روز قبل تک احتجاجی دھرنوں کی گرفت میں تھے۔ مذہبی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان کی کال پر کیے جانے والے دھرنے تین روز جاری رہنے کے بعد حکومت کے ساتھ معاہدہ طے پانے کے بعد ختم ہو گئے۔

ان تین دنوں میں تاہم پاکستان کے سوشل میڈیا خصوصاً فیس بُک پر احتجاج کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والی توڑ پھوڑ، ہنگامہ آرائی اور تشدد کے واقعات کی ویڈیوز سامنے آتی رہیں۔ ان ہی میں شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے بظاہر کیلا فروش ایک بچے کی ویڈیو بھی سامنے آئی۔

اس میں بظاہر وہ گدھا گاڑی پر کیلے بیچ رہا ہے اور لوگوں کا ایک ہجوم اس کی ریڑھی سے کیلے اٹھا اٹھا کر بھاگ رہا ہے۔

فیس بُک پر اس ویڈیو کے حوالے سے جاری بحث میں مظاہرین اور خصوصاً تحریکِ لبیک پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ مقامی ذرائع ابلاغ نے اس واقعے کو اٹھایا اور حکومت نے بھی اس کا نوٹس لیا۔

سخت تنقید کے دوران مبینہ طور پر اسی واقعہ کے حوالے سے ایک اور ویڈیو فیس بُک پر سامنے آئی۔ جو اب ہٹا دی گئی ہے۔

اس ویڈیو میں بھی ایک کیلا فروش بچہ ہے جو یہ بتاتا نظر آیا کہ پہلے والی ویڈیو میں در حقیقت لوگوں نے کیلے چوری نہیں کیے تھے بلکہ وہ منڈی کے ایک آڑھتی سے ‘مظاہرین کے لیے لنگر کے لیے خریدے گئے تھے۔’ مزید یہ کہ پہلی ویڈیو میں نظر آنے والا بچہ محض ٹھیلے پر کیلا چھوڑنے آ رہا تھا۔

اب سوال یہ پیدا ہو گیا کہ کون سی ویڈیو درست تھی؟ ایسا کوئی واقعہ ہوا بھی تھا یا نہیں؟

واقعہ کیا ہوا؟

اس سوال کی کھوج میں مقامی ذرائع ابلاغ کے نمائندے پہلی ویڈیو والے بچے کے گھر جا پہنچے اور انھیں انٹرویو کرنا شروع کر دیا۔ معلوم پڑا کہ بچے کا تعلق شیخوپورہ کے ایک علاقے سے ہے۔ وہ پانچویں جماعت کا طالبِ علم ہے اور اس کے والد رکشہ چلاتے ہیں۔

ذرائع ابلاغ پر آنے والے بیانات سے معلوم ہوا کہ بچے سے کیلے حقیقتاً چھینے گئے تھے۔ پہلی ویڈیو درست تھی۔ واقعہ شیخوپورہ کے بتی چوک میں پیش آیا تھا۔ بچہ منڈی سے کیلے اٹھا کر گدھا گاڑی پر بازار میں تاجر کے پاس چھوڑنے جا رہا تھا۔

بتی چوک پہنچا تو وہاں احتجاج کے لیے لوگ اکٹھے ہو چکے تھے۔ ان میں سے چند افراد نے اس کی ریڑھی پر دھاوا بول دیا اور کیلے اٹھا لیے۔ مختصر مزاحمت کے بعد وہ وہاں سے بچے کھچے کیلے لے کر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔

لوگوں کے اس عمل پر تنقید کی گئ، حکومت نے ازالے کا اعلان کیا اور حکومتِ پنجاب نے ازالے کے پیسے ادا بھی کر دیے۔ مگر بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔

ایک اور موڑ

تاہم جمعہ کی رات تک میڈیا سے بات کرتے ہوئے اچانک بچہ خاموش ہو گیا اور اس کے خاندان والوں نے مزید کسی ٹی وی چینل کو انٹرویو دینے سے انکار کر دیا۔

ساتھ ہی جمعہ کی رات بتی چوک میں جمع لوگوں کے احتجاج کرتے ہجوم کے سامنے وہاں کے مقامی دو صحافیوں کے بیان نشر کیے گئے جن میں انھوں نے مبینہ طور پر اس بات کا اعتراف کیا کہ ‘اس بچے کی وہ ویڈیو جھوٹ پر مبنی تھی اور یہ کہ وہ کیلے دراصل خریدے گئے تھے۔’

تاہم اس دوسرے موڑ کی خبر ٹی وی یا سوشل میڈیا پر زیادہ نہیں آئی۔ ایسا کیا ہوا کہ بچہ اچانک خاموش ہو گیا؟ صحافیوں نے ایسے بیانات کیسے اور کیوں دیے؟

بچہ کیوں چُپ ہوا؟

شیخوپورہ کے مقامی صحافیوں، ضلعی انتظامیہ کے حکام اور پولیس کے مطابق ہوا کچھ یوں کہ جمعہ کی رات نو بجے کے قریب صحافی بچے کے گھر پہنچے۔ اسسٹنٹ کمشنر شیخوپورہ فضائل مدثر نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس وقت وہاں موجود تھے۔

جیسے ہی میڈیا نے بچے کو انٹرویو کرنا شروع کیا تو باہر شور کی آوازیں سنائی دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 50 کے لگ بھگ ڈنڈہ بردار اور موٹر سائیکلوں پر سوار افراد وہاں پہنچے۔

کیلےتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionبچہ منڈی سے کیلے اٹھا کر گدھا گاڑی پر بازار میں تاجر کے پاس چھوڑنے جا رہا تھا

‘انھوں نے بچے اور اس کے خاندان والوں کو ہراساں کیا اور وہاں موجود صحافیوں کو زد و کوب کرنا شروع کر دیا۔ ان کا انداز بہت جارحانہ تھا اور وہ شدید غصے میں تھے۔’

فضائل مدثر کا کہنا تھا کہ ان افراد کا کہنا تھا کہ وہ بچہ ‘خواہ مخواہ ان کو بدنام کر رہا تھا اور میڈیا اس کی تشہیر کر رہا تھا۔’ بچے کو میڈیا سے مزید بات کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں گئیں۔

صحافیوں کو تاہم خصوصاً نشانہ بنایا گیا۔ فضائل مدثر کے مطابق ڈنڈہ بردار افراد کا کہنا تھا کہ ‘یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیں بدنام کر رہے ہیں۔’

ان کے مطابق دو صحافیوں کو وہ افراد زبردستی اپنے ساتھ تحریکِ لبیک پاکستان کے کارکنان کی جانب سے دیے جانے والے دھرنے کے مقام بتی چوک پر لے گئے۔

دھرنے کے مقام پر کیا ہوا؟

اسسٹنٹ کمشنر فضائل مدثر کا کہنا تھا کہ انھوں نے بھانپ لیا کہ ان کی وہاں موجودگی کا علم ہونے سے حالات مزید بگڑ سکتے ہیں تو وہ وہاں سے نکل گئے۔ تاہم ان کی گاڑی پر بھی اینٹیں ماری گئیں۔

جن دو صحافیوں کو مظاہرین یرغمال بنا کر ساتھ لے گئے ان میں بول ٹی وی کے غلام مصطفٰی اور 92 نیوز کے ملک فاروق شامل تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے غلام مصطفٰی کا کہنا تھا کہ انھیں بتی چوک میں دھرنے کے مقام پر موجود ‘سینیئر قیادت’ کے سامنے پیش کیا گیا۔ غلام مصطفٰی کا کہنا تھا کہ کوئی ان کا مؤقف سننے کو تیار نہیں تھا۔

‘جاتے ہی ہمیں ہراساں کیا جانے لگا اور دھمکیاں دی جانے لگیں اور یہ اعلان ہونے لگا کہ یہ وہ صحافی ہیں جو ہمیں بدنام کر رہے تھے۔’ انھوں نے بتایا کہ مزاحمت کرنے پر ان کو زد و کوب بھی کیا گیا۔

ہم سے زبردستی بیان دلوائے گئے

تاہم ملک فاروق کا کہنا تھا کہ ان کو تشدد کا نشانہ تو نہیں بنایا گیا تاہم ان سے یہ کہا گیا کہ ‘تم وہاں موجود مجمع کے سامنے یہ بیان دو کہ لڑکے سے کیلے چھیننے والی ویڈیو جھوٹی تھی۔’

ان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں انھوں نے مزاحمت کی۔ تاہم انھیں محسوس ہوا کہ ‘ان حالات میں یہ لوگ ہمیں جان سے مار بھی سکتے تھے تو میں نے بہتر یہی سمجھا کہ جیسا وہ کہہ رہے ہیں، ویسا کہہ دیا جائے۔’

ملک فاروق کا کہنا تھا کہ انھوں نے پولیس کو بھی کال کی مگر ‘پولیس بھی نہیں آئی۔’

‘ہمیں دباؤ میں یہ بیان دینا پڑا۔ میں نے پھر ان کے کہنے پر وہاں یہ کہا کہ وہ کیلے خریدے گئے تھے۔’ صحافیوں کے مطابق وہاں موجود ایک بزرگ کے کہنے پر انھیں تقریباً تین گھنٹے تک ہراساں کرنے اور زد و کوب کرنے کے بعد چھوڑا گیا۔

اس وقت تک لاہور میں حکومت اور تحریکِ لبیک پاکستان کی قیادت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد دھرنے ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔

ڈنڈہ بردار پھر کہاں گئے؟

ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر کے مطابق ڈنڈہ برداران افراد میں تحریکِ لبیک پاکستان کے یوتھ ونگ کے رکن شامل تھے۔ بچے کے گھر پر آنے والے گروہ کی قیادت وہی کر رہے تھے۔

پولیس کے مطابق صحافیوں کو اس شرط پر چھوڑا گیا تھا کہ وہ ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کریں گے۔

تاہم ان میں سے زیادہ تر افراد کے خلاف احتجاج کے دوران ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے الزام میں مقدمات درج کر لیے گئے تھے۔ 70 کے قریب افراد کو شیخوپورہ سے پیر کے روز گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

مقامی صحافیوں سے رابطہ بھی کیا گیا تھا اور یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

بشکریہ بی بی سی اردو

https://www.bbc.com/urdu/pakistan-46107014


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp